ضلع میانوالی، دریائے سندھ کے کنارے واقع ایک تاریخی، ثقافتی اور جغرافیائی لحاظ سے نہایت اہم خطّہ ہے۔ اپنے محنتی عوام، مردم خیزی اور منفرد تہذیب و تمدّن کے باعث یہ ہمیشہ نمایاں مقام کا حامل رہا ہے۔ تاہم، وقت گزرنے کے ساتھ اس کی تیزی سے بڑھتی آبادی ایک سنگین مسئلے کی شکل اختیار کر چُکی ہے۔
مردم شماری کے اعداد و شمار واضح کرتے ہیں کہ میانوالی کی آبادی گزشتہ آٹھ دہائیوں کے دَوران غیر معمولی رفتار سے بڑھی ہے۔1941ء کی مردم شماری کے مطابق ضلع میانوالی کی کُل آبادی تین لاکھ اٹھائیس ہزار تھی، جس میں تقریباً33 ہزار ہندو اور سِکھ بھی شامل تھے۔
آزادی کے وقت، یعنی1947 ء میں یہ آبادی تقریباً تین لاکھ کے قریب تھی۔1951 ء میں آبادی تین لاکھ، پندرہ ہزار، آٹھ سو سولہ،1961 ء میں چار لاکھ، تیرہ ہزار، آٹھ سو اکیاون اور1972 ء میں پانچ لاکھ، پچانوے ہزار، ایک سو چونتیس ریکارڈ کی گئی۔ 1981ء کی مردم شماری کے مطابق ضلع میانوالی کی آبادی سات لاکھ، گیارہ ہزار، پانچ سو انتیس ہو چُکی تھی۔
یہاں یہ نکتہ قابلِ ذکر ہے کہ1985 ء تک ضلع بھکر، میانوالی کی ایک تحصیل تھی۔ یعنی1981 ء کی مردم شماری میں جو آبادی سات لاکھ سے زائد ظاہر کی گئی تھی، اُس میں موجودہ ضلع بھکر کی آبادی بھی شامل تھی۔ 1985ء میں جب بھکر کو انتظامی طور پر ضلعے کا درجہ دیا گیا، تو میانوالی کی آبادی کا ایک بڑا حصّہ علیٰحدہ ہو گیا۔
اس کے باوجود، اگر ہم 1998 ء کی مردم شماری دیکھیں، تو بھکر کی علیٰحدگی کے بعد بھی میانوالی کی آبادی دس لاکھ، چھپن ہزار، چھے سو بیس ریکارڈ کی گئی، جو1981ء کے مشترکہ ضلعے کی آبادی سے بھی کہیں زیادہ تھی۔2017 ء میں ضلع میانوالی کی آبادی پندرہ لاکھ، بیالیس ہزار، چھے سو ایک تک پہنچ گئی اور 2023ء کی مردم شماری کے مطابق یہ سترہ لاکھ، اٹھانوے ہزار، دو سو اڑسٹھ ہو چُکی ہے۔ یہ اضافہ اِس امر کا ثبوت ہے کہ بھکر کی علیٰحدگی کے باوجود میانوالی کی آبادی میں غیر معمولی رفتار سے اضافہ ہوا ہے۔
اگر تخمینی طور پر دیکھا جائے، تو 1981 ء کے بعد سے ضلع میانوالی کی آبادی میں تقریباً تین گُنا اضافہ ہوا ہے، حالاں کہ ضلعے کا ایک بڑا حصّہ (بھکر) اس سے الگ بھی ہو چُکا۔ یہ صُورتِ حال اِس امر کی عکّاسی کرتی ہے کہ میانوالی میں آبادی کی رفتار صوبہ پنجاب کے دیگر اضلاع کے مقابلے میں خاصی زیادہ ہے۔یہ تیز رفتار اضافہ جہاں ایک جانب آبادیاتی طاقت کی نشان دہی کرتا ہے، وہیں دوسری جانب، سماجی و معاشی دباؤ کا باعث بھی بن رہا ہے۔
اسکولز اور کالجز کی تعداد، بڑھتی آبادی کے تناسب سے کم ہے، جس کے نتیجے میں تعلیمی معیار متاثر ہو رہا ہے۔اسپتالوں اور بنیادی مراکزِ صحت کی استعداد بڑھتی ضروریات کے مقابلے میں ناکافی ہے۔زچہ و بچّہ کی صحت، غذائی کمی اور خاندانی منصوبہ بندی سے متعلق آگاہی کی کمی صُورتِ حال کو مزید پیچیدہ بنا رہی ہے۔ بڑھتی آبادی نے ضلعے کے وسائل پر دباؤ بڑھا دیا ہے۔
روزگار کے مواقع محدود ہیں، زرعی زمین تقسیم در تقسیم ہو کر چھوٹے رقبوں میں تبدیل ہو رہی ہے، جب کہ نوجوان طبقہ روزگار کی تلاش میں بڑے شہروں یا بیرونِ ممالک کا رُخ کر رہا ہے۔ ماحولیاتی مسائل بھی اسی رجحان کا نتیجہ ہیں۔ جنگلات کی کمی، پانی کے ذخائر پر دباؤ اور آلودگی میں اضافہ مسلسل خطرہ بنتے جا رہے ہیں۔
اسلامی تعلیمات کی روشنی میں دیکھا جائے، تو اولاد اللہ کی نعمت ہے، مگر اس کے ساتھ والدین پر ذمّے داری بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچّوں کی احسن انداز سے تعلیم و تربیت اور پرورش کے قابل ہوں۔وقت کا تقاضا ہے کہ خاندانی منصوبہ بندی کو منفی تصوّر کی بجائے دینی توازن اور سماجی ذمّے داری کے طور پر اپنایا جائے۔
علما و مشائخ، اساتذہ، سماجی تنظیمیں اور میڈیا مشترکہ طور پر عوام میں شعور پیدا کریں کہ منصوبہ بندی اسلام کے خلاف نہیں، بلکہ وقت کی ضرورت اور اجتماعی فلاح کا ذریعہ ہے۔ خواتین کی تعلیم و تربیت کو فروغ دیا جائے تاکہ وہ بہتر خاندانی فیصلے کر سکیں۔اگر آبادی میں اضافہ منصوبہ بندی اور وسائل کے مطابق ہو، تو ترقّی کا ذریعہ بن سکتا ہے، لیکن اگر یہ بے قابو ہوجائے، تو غربت، جہالت اور محرومیوں کو بڑھا دیتا ہے۔