• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امن کا نوبیل پرائز 1991ء سے دنیا کی معروف شخصیات کو دیا جا رہا ہے۔ پاکستان میں ہر سال قارئین اور ناظرین کو خبروں کے ذریعے ان کا علم بھی ہو جاتا ہے اور دوسرے روز یہ خبر ماضی کے دھندلکوں میں گم بھی ہو جاتی ہے، لیکن 2025ء کا امن کا نوبیل پرائز جتنی شدومد کے ساتھ علمی و ادبی اور سیاسی حلقوں میں زیرِ بحث رہا، اس سے پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا اور اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ چند ایسی عالمی شخصیات کو یہ انعام ملنے کی اُمید تھی، جن کا ہم سے بالواسطہ یا بلاواسطہ تعلق ہے۔ 

ان میں سے ایک شخصیت، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تھی، جن کا نام وزیرِ اعظم پاکستان میاں شہباز شریف نے تجویز کیا تھا،لیکن قرعۂ فال وینزویلا کی سیاسی و سماجی رہنما اور ایکٹویسٹ، ماریا کے نام نکلا۔ اس طرح امن کے نوبیل پرائز سے متعلق دنیا بھر میں جو بحث مباحثہ اور قیاس آرائیاں جاری تھیں، اپنے اختتام کو پہنچیں۔

’’نوبیل پرائز‘‘ دنیا کا معتبر ترین انعام سمجھا جاتا ہے، جو ہر سال زندگی کے مختلف شعبوں امن، فزکس، کیمسٹری، معاشیات، میڈیسن، ادب اور دوسرے شعبوں میں کارہائے نمایاں انجام دینے والی شخصیات اور ماہرین کو دیا جاتا ہے، جب کہ اِن انعامات کا ہرسال بے چینی سے انتظار بھی کیا جاتا ہے۔ نوبیل پرائز کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ 

یہ انعامات 1901ء سے الفریڈ برنارڈ نوبیل (1833-1896ء) کی وصیّت کے مطابق دیئے جاتے ہیں، جن میں سے ایک امن کا نوبیل انعام بھی ہے۔ الفریڈ نوبیل، سویڈن کے مشہور کیمیا دان اور موجد تھے، جنہوں نے ڈائنامائیٹ(بارود) ایجاد کیا۔ پھر اُنہیں احساس ہوا کہ اُن کی اِس ایجاد کا بہت غلط استعمال شروع ہوگیا ہے، چناں چہ اُنہوں نے اپنی دولت انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے وقف کرنے کا فیصلہ کیا۔ 

اُنہوں نے 1895ء میں اپنی وصیّت لکھی، جس میں کہا کہ اُن کی دولت سے ایک فنڈ قائم کیا جائے، جس میں سے ہر سال اُن افراد یا تنظیموں کو انعام دیا جائے، جو دنیا میں امن کے فروغ، انسانیت کی خدمت، دوستی بڑھانے اور جنگوں کے خاتمے کے لیے سب سے زیادہ کوشش کریں۔ الفریڈ نوبیل کا انتقال 10 دسمبر 1896ء کو ہوا۔ بہرکیف، ناروے کی ایک نوبیل کمیٹی کے ذریعے یہ انعام دیا جاتا ہے اور اِس سلسلے میں ہر سال نوبیل الفریڈ کے یومِ وفات پر اوسلو میں ایک پُروقار تقریب کا انعقاد ہوتا ہے۔

یوں تو 1901ء سے اب تک دنیا کی سیکڑوں معروف شخصیات کو یہ انعامات دیئے جا چُکے ہیں، تاہم مشہور اور معروف افراد میں ریڈکراس کے بانی جین ہنری ڈوننٹ سرِفہرست ہیں، جنہیں 1901ء میں نوبیل انعام دیا گیا۔ 1964ء میں مارٹن لوتھرکنگ کو نسلی امتیاز کے خلاف جدوجہد پر انعام دیا گیا۔ 1979ء میں مدر ٹریسا کو انسانی خدمت پر یہ انعام ملا۔ 1993ء میں جنوبی افریقا کے رہنما نیلسن منڈیلا کو بھی یہ ایوارڈ دیا گیا۔ 2014ء میں بچّوں کے حقوق کے لیے جدوجہد پر پاکستان کی ملالہ یوسف زئی کے حصّے میں یہ انعام آیا۔ 

اِس سے پہلے پاکستانی سائنس دان ڈاکٹر عبدالسّلام کو فزکس میں نمایاں خدمات پر 1979ء میں یہ انعام ملا۔ انعام حاصل کرنے والے دیگر افراد میں تبت کے دلائی لاما، امریکی صدر روز ویلٹ، امریکی صدر جمی کارٹر، باراک اوباما اور یاسر عرفات شامل ہیں۔

یوں تو تمام نوبیل ایوارڈ اہم ہیں، تاہم امن کے نوبیل پرائز کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے اور دنیا کی نظریں اُس شخصیت یا ادارے پر جمی رہتی ہیں، جسے دنیا میں قیامِ امن کی جدوجہد کے لیے مثالی قرار دیا گیا ہو۔ پہلا نوبیل امن ایوارڈ 1901ء میں دو افراد فریڈرک پاسے اور ہنری ڈوننٹ کو دیا گیا، جب کہ 2025ء میں یہ انعام برازیل کی ماریا کورینا کو ملا۔

نوبیل انعام حاصل کرنے والی سب سے پہلی خاتون، Bertha von Suttner تھیں، جنہیں1905ء میں یہ انعام دیا گیا۔ اب تک ایک سو، گیارہ افراد کو نوبیل امن انعام مل چُکا ہے، جن میں19خواتین بھی شامل ہیں۔ ’’انٹرنیشنل کمیٹی آف دی ریڈکراس‘‘ وہ واحد تنظیم ہے، جسے امن کی کوششوں کے اعتراف میں اب تک تین بار امن کا نوبیل انعام مل چُکا ہے۔ 

اِس انعام کا ایک دل چسپ پہلو یہ بھی ہے کہ اب تک جن شخصیات کو انعام دیا گیا، اُن میں سے5شخصیات اُس وقت جیل میں قید تھیں۔ اگر مجموعی طور پر جائزہ لیا جائے، تو سب سے زیادہ (23) نوبیل انعامات حاصل کرکے امریکا سرِفہرست ہے، جب کہ اس کے بعد برطانیہ(12) کا نمبر ہے۔ واضح رہے کہ نوبیل انعام کا فیصلہ ایک 5رُکنی کمیٹی کرتی ہے، جسے ناروے کی پارلیمنٹ نام زَد کرتی ہے۔

ماریا کورینا کی خدمات

2025ء میں امن کا نوبیل انعام وینزویلا کیMaría Corina Machado کو دیا گیا۔ اُنہیں یہ انعام نہ صرف وینزویلا بلکہ پورے لاطینی امریکا میں بنیادی انسانی حقوق اور جمہوریت کی جدوجہد کے صلے میں ملا۔ یہ انعام 10 دسمبر کو اوسلو میں ہونے والی ایک پُروقار تقریب میں پیش کیا جائے گا۔ 

وہ نوبیل انعام حاصل کرنے والی وینزویلا کی دوسری شخصیت ہیں۔ اِس سے قبل وینزویلا کے Baruj Benacerraf فزیالوجی میں یہ نوبل انعام حاصل کر چُکے ہیں۔ 

کورینا کے لیے جب انعام کا اعلان کیا گیا، تو وہ اُس وقت کسی نامعلوم مقام پر رُوپوش تھیں، کیوں کہ حکومت کی طرف سے اُنہیں مختلف خدشات لاحق تھے۔ ماریا کورینا 1967ء میں وینزویلا کے شہر کاراکاس میں پیدا ہوئیں۔ اُنہیں شروع ہی سے انسانیت کی خدمت اور بنیادی انسانی حقوق کی جدوجہد کا جنون تھا۔ اُنہوں نے 1992ء میں کاراکاس میں بچّوں کی امداد کے لیے ایک فائونڈیشن قائم کی۔ 

بعدازاں، سیاست میں قدم رکھا اور 2010ء سے 2014ءتک وینزویلا کی قومی اسمبلی کی رُکن رہیں، لیکن حکومت مخالف پالیسیز پر تنقید کی وجہ سے اُنہیں اِس نشست سے محروم کردیا گیا۔ اِس دوران وہ انسانی حقوق کے لیے جدوجہد کرتی رہیں۔ 2023ء میں وینزویلا کے صدارتی امیدوار کے طور پر میدان میں اُتریں، لیکن حکومت نے اُنہیں انتخاب لڑنے کی اجازت نہ دی۔ 

صدارتی الیکشن میں اُن کی مخالف جماعت کے اُمیدوار کو کام یابی ملی، لیکن حکومت ہتھکنڈے ماریا کے عزائم کو شکست نہ دے سکے اور اُنہوں نے اپنی جدوجہد جاری رکھی۔ ان کی اس جدوجہد نے وینزویلا کے عوام کو ایک نیا حوصلہ عطا کیا۔ ماریا وینزویلا کی قومی اسمبلی کی ڈپٹی بھی رہ چُکی ہیں۔58 سالہ ماریا نے YALE یونی ورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ 

اُن کی سیاسی جدوجہد کا ایک اہم پہلو حصولِ تعلیم کے ساتھ وینزویلا میں جمہوریت کے احیاء اور عوام کے بنیادی حقوق کے تحفّظ کے لیے کام کرنا ہے۔ اُنہوں نے 2012ء میں ایک سیاسی جماعت کے ساتھ وابستگی اختیار کی اور پھر اس محاذ سے حُکم ران جماعت کا مقابلہ کیا۔ تاہم، اس کے ساتھ، حزبِ مخالف کی دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر بھی جدوجہد کرتی رہیں۔ 

ان کی جدوجہد کا بنیادی مقصد وینزویلا میں جمہوریت کا احیاء اور آمریت کا خاتمہ ہے، جس میں لاتعداد رکاوٹوں کے باوجود اُنہوں نے کام یابی حاصل کی اور ثابت کردیا کہ’’صنفِ نازک‘‘ ہونے کے باوجود وہ آہنی عزم کی حامل ہیں۔ وہ کام یاب گھریلو زندگی بھی گزار رہی ہیں اور اُن کے 3 بچّے ہیں۔ 

اُنہوں نے Andrés Bello کیتھولک یونی ورسٹی سے BS اور انسٹی ٹیوٹ آف ایڈوانس اسٹڈیز آف ایڈمنسٹریشن سے MS کیا۔ اُنھیں 2024ء میں Václav Havel Human Rights Prize بھی مل چُکا ہے۔ 2014ء میں حکومت مخالف مظاہروں میں اہم کردار ادا کیا۔

وہ ایک ڈکٹیٹر کا مقابلہ کرنے والی خاتون کے طور پر مشہور ہیں، جنہوں نے حکومتی جارحانہ ہتھکنڈوں کا ’’مردانہ وار‘‘ مقابلہ کیا۔ ماریا کورینا اُس وقت سو رہی تھیں، جب نوبیل انعام کا اعلان کرنے والی ناروے کی کمیٹی کے سیکرٹری نے اُنہیں جگا کر خُوش خبری سُنائی۔

اُنہوں نے ردّ ِعمل کے طور پر کہا کہ’’ مجھے اُمید ہے کہ اپوزیشن پُرامن اور جمہوری طریقے سے انتقالِ اقتدار میں کام یاب ہو جائے گی۔ ہم ابھی اپنی منزل پر نہیں پہنچے، لیکن اس کے حصول کے لیے جدوجہد میں مصروف ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ ہم آخرکار کام یاب ہوں گے۔ ہمیں اِس وقت جو کام یابی ملی، عوام اس کے حق دار تھے۔ اس اعزاز کا ملنا صرف میری نہیں، وینزویلا کے عوام کی کام یابی ہے۔‘‘

سنڈے میگزین سے مزید