یہ آج سے 10 سال قبل 17نومبر کی ہی صبح تھی جب اخبار کے پچھلے صفحے پر ایک چھوٹی سی خبر نے مجھے جامد ہی کر دیا، ’’بچوں کے مصنف اشتیاق احمد انتقال کر گئے‘‘۔ تو کیا وہ اب تک حیات تھے اور محض ہم ان کی موجودگی سے بے خبر تھے، میرا دل تاسف سے بھر گیا۔ نہ جانے کب سے پلکوں میں اٹکا ہوا تھا، ایک آنسو میری آنکھ سے نکلا اور گال پر لڑھک گیا۔ وہ ایک خبر مجھے میرے بچپن کی طرف لوٹا گئی۔
ان دنوں تفریح کے مواقع محدود اور مطالعے کا رواج عام تھا۔ گھر کے سارے افراد اپنی اپنی عمر اور ذوق کے مطابق کوئی نہ کوئی رسالہ یا میگزین ضرور پڑھا کرتے تھے۔ اخبار بینی بھی اس مطالعے کا ایک لازمی جزو تھی۔ بچے بھی اپنے بڑوں کے زیرِ اثر کسی نہ کسی شکل میں مطالعہ ضرور کرتے تھے۔ نونہال، تعلیم و تربیت، جگنو، بچوں کا باغ، بچوں کی دنیا بچوں کے مقبول رسالے تھے۔ انہی دنوں اشتیاق احمد بچوں کے ادب کے اُفق پر ابھرے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے چھا گئے۔ بچوں کی ذہنی استعداد کو مدِنظر رکھتے ہوئے سسپنس سے بھرپور ناول لکھا کرتے تھے۔ انسپکٹر جمشید اور ان کے تین بچے محمود، فاروق، فرزانہ سب سے مقبول کردار تھے جو مل کر مختلف گتھیاں سلجھاتے تھے۔ کچھ عرصہ بعد انسپکٹر کامران مرزا اور ان کے تین بچوں آصف، آفتاب اور فرحت کو بھی متعارف کروایا گیا۔ بعد ازاں تین بھائیوں پر مشتمل شوکی سیریز بھی منظر عام پر آئی۔ عام طور پر ہر ماہ چار ناول آیا کرتے تھے اور بچے انتہائی اشتیاق سے ان کے منتظر رہتے تھے۔ جیب خرچ سے یا اپنے بڑوں سے اصرار کر کے ان ناولوں کو خریدا کرتے تھے۔ اسکول اور شہر کی لائبریریوں سے حاصل کر کے یا دوستوں سے مانگ تانگ کر ان ناولوں کو پڑھنے کا رواج بھی عام تھا۔ زیادہ تر بچے گویا کسی نہ کسی شکل میں ان سے لطف اندوز ہوتے ہی رہتے تھے۔ سال میں ایک آدھ خاص نمبر بھی آتا تھا جو خاصا ضخیم ہوتا تھا اور جس میں اشتیاق احمد کے تمام کرداروں کو اکٹھا کر دیا جاتا تھا۔ بچے انتہائی شدت سے اس کے منتظر رہتے تھے۔ دو ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل، اسی سلسلے کے ایک ناول 'غار کا سمندرکو بچوں کے ادب میں عالمی سطح پر طویل ترین ناولوں میں شمار کیا جاتا ہے۔
اشتیاق احمد کی تحریروں کی سب سے بڑی خوبی یہ ہوتی تھی کہ ان میں بچوں کو احساس دلائے بغیر، کرداروں اور مکالموں کے ذریعے ان کی اخلاقی تربیت کا خاص اہتمام کیا جاتا تھا۔ پیش لفظ 'دو باتیں کی صورت میں لکھا جاتا تھا جو خود بھی دلچسپی سے بھرپور اور سبق آموز ہوتا تھا۔ ہر ناول کے آغاز میں یہ شرط بھی عائد کی جاتی تھی کہ ناول پڑھنے سے پہلے یہ دیکھ لیں کہ یہ وقت نماز کا تو نہیں، اسکول کا کوئی کام تو نہیں کرنا، آپ کے ذمہ گھر والوں نے کوئی کام تو نہیں لگا رکھا۔ اور اگر ان باتوں میں سے کوئی ایک بات بھی ہو تو ناول الماری میں رکھ دیں، پہلے نماز اور دوسرے کاموں سے فارغ ہو لیں پھر ناول پڑھیں۔ ناول ہلکے پھلکے انداز میں لکھے جاتے تھے اور سنسنی خیزی کے ساتھ ساتھ آپ مزاح کا مزا بھی لیتے تھے۔ انسپکٹر جمشید سیریز کے کردار فاروق کا ایک ڈائیلاگ خاص طور پر بچوں میں زبان زدِ عام تھا کہ وہ ایک خاص صورتحال میں بے ساختگی سے اپنی ران پر ہاتھ مار کر کہا کرتا تھا، 'دھت تیرے کی۔
وہ محض ناول ہی نہیں تھے بچوں کی تربیت کا گویا ایک پورا نظام تھا۔ کہانی ہی کہانی میں اشتیاق احمد بچوں میں سائنسی سوچ اور تجسس سے بھرپور رویے کو پروان چڑھاتے تھے۔ ساتھ ہی ساتھ زبان و بیان کے انداز و اطوار بھی سکھاتے تھے۔ ایک اچھا انسان اور شہری بنانے کی سعی کرتے تھے۔ ان کی تحریروں کے زیرِ اثر، ہم بچے بھی اپنے آپ کو چھوٹا موٹا جاسوس سمجھتے رہتے تھے اور اسی طرح سوچنے اور عمل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔پھر نہ جانے کیسے اور کب ہمارے معاشرے کو ایسی نظر لگی کہ ہم نے کتابوں سے منہ موڑ لیا۔ دوسرے معاشروں کے برعکس کہ جہاں ٹیکنالوجی کے مظاہر، ٹی وی، وی سی آر، ڈش انٹینا اور کمپیوٹر عام ہو جانے کے باوجود لوگوں نے کتاب بینی سے ناطہ جوڑے رکھا، کتاب ہمارے ہاتھ سے چھٹتے چھٹتے چھٹ ہی گئی۔ اور اب جب چند سالوں سے سوشل میڈیا کی یلغار ہو چکی، کتاب پڑھنے والا تو بڑوں میں بھی خال خال ہی ملتا ہے بچوں کی کیا بات کریں۔
کوئی اور ملک ہوتا تو ایسے شخص کو قومی ہیرو کا درجہ دیا جاتا۔ ہیری پوٹر سیریز کی مصنفہ جےکے رولنگ نے سات ناول کیا لکھ ڈالے، ارب پتی بننا تو ایک طرف، پوری دنیا میں ایک جانی مانی شخصیت بن گئیں۔ اور ہمارے ہاں جہاں ایوارڈوں کی بندر بانٹ ہوتی ہے، عالم یہ ہے کہ اشتیاق احمد کو پرائیڈ آف پرفارمنس یا تمغہ برائے حسنِ کارکردگی کے بھی کبھی قابل نہ سمجھا گیا۔ ان کا خاندان آج بھی جھنگ کے ایک چھوٹے سے مکان میں تنگدستی کی زندگی گزار رہا ہے۔اشتیاق احمد نے 600 سے زائد ناول لکھے۔ بچوں کے سب سے بڑے ادیب بن کر ابھرے۔ ایک پوری نسل کو اپنی تحریروں سے متاثر کیا۔ بدلتے وقت میں ان کے عروج کا سورج بھی مگر آہستہ آہستہ کچھ ایسا غروب ہوا کہ ان کے ناولوں کے طلبگار کم ہوتے ہوتے بالکل ختم ہی ہو گئے۔ ان کے جاسوسی ناولوں کا سلسلہ یوں اپنے اختتام کو پہنچا۔ ناول تو ہم بھول ہی گئے، یہ سوچنا بھی کسی نے گوارا نہیں کیا کہ اشتیاق احمد کا کیا بنا؟ دوسروں سے کیا شکوہ کرنا، خود میرا عالم یہ ہے کہ زندگی کی ڈگر پر اس قدر بگٹٹ بھاگا کہ اپنے بچپن کے ہیرو محمود، فاروق، فرزانہ اور ان کے تخلیق کار اشتیاق احمد کو مکمل فراموش ہی کر دیا۔ فاروق ہوتا تو کہہ اٹھتا، دھت تیرے کی!