اردو کے عظیم شاعر اسد اللّٰہ خان غالب کا گزشتہ روز 228 واں یوم پیدائش منایا گیا۔
مرزا اسداللّٰہ خان غالب 27 دسمبر 1797کو آگرہ میں پیدا ہوئے۔ آبا و اجداد کا پیشہ تیغ زنی اور سپہ گری تھا۔
انہوں نے اپنا پیشہ انشاء پردازی اور شعر و شاعری کو بنایا اور ساری عمر اسی شغل میں گزار دی۔ نوعمری سے ہی انہوں نے شاعری کا آغاز کیا، ان کی شاعری میں انفرادیت تھی جس کے سبب شروع میں تنقید کا نشانہ بنایا تاہم بعد ازاں ان کا شاعرانہ رنگ معاشرے کو ایسا چڑھا کہ آج تک اترنے کا نام نہیں لے رہا۔
13 برس کی عمر میں، دہلی کے ایک علم دوست گھرانے میں شادی ہوئی اور یوں غالب دلی چلے آئے جہاں انہوں نے اپنی ساری عمر بسر کردی۔
غالب نے اپنی زندگی بڑی تنگدستی اور عسرت میں گزاری مگر کبھی کوئی کام اپنی غیرت اور خودداری کے خلاف نہ کیا۔ 1855ء میں ذوق کے انتقال کے بعد بہادر شاہ ظفر کے استاد مقرر ہوئے جن کے دربار سے انہیں نجم الدولہ دبیر الملک اور نظام جنگ کے خطابات عطا ہوئے۔
جب 1857ء میں بہادر شاہ ظفر قید کرکے رنگون بھیج دیے گئے تو وہ نواب یوسف علی خاں والیٔ رام پور کے دربار سے وابستہ ہوگئے جہاں سے انہیں آخر عمر تک وظیفہ ملتا رہا۔ غالب فارسی اور اردو دونوں زبانوں کے عظیم شاعر تھے جتنی اچھی شاعری کرتے تھے اتنی ہی شاندار نثر لکھتے تھے۔
انہوں نے شاعری کے ساتھ ساتھ نثر نگاری میں بھی ایک نئے اسلوب کی بنیاد رکھی۔ غالب سے پہلے خطوط بڑے مقفع اور مسجع زبان میں لکھے جاتے تھے انہوں نے اسے ایک نئی زبان عطا کی اور بقول انہی کے ’’مراسلے کو مکالمہ بنادیا‘‘۔
15 فروری 1869ء کو مرزا غالب نے دہلی میں وفات پائی اور وہیں آسودۂ خاک ہوئے۔ موجودہ دور میں غالب پر کئی فلمیں اور ڈرامے بھی بنے، ان کی شاعری نے اردو زبان کو ایسی جلا بخشی جو رہتی دنیا تک قائم رہے گی۔