• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہمیں خدا سے حضرت محمد (صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم) نے متعارف کروایا ہے جو جزیرہ نمائے عرب کے ایک چھوٹے سے قصبے مکّہ میں رہتے تھے، ان کی صاف ستھری زندگی ان کی راست گوئی، سچائی اور دیانتداری کے سب معترف تھے۔ چالیس سال تک وہ ایک عام شخص کے طور پر نارمل زندگی گذارتے ہیں اور پھر ایک دن اچانک وہ اپنے قصبے کے لوگوں کو اکٹھا کرکے زندگی کافلسفہ اور کائنات کے راز بتانے لگتے ہیں۔ وہ اس معمّے کو بے نقاب کرتے ہیں کہ زمین وآسمان کا خالق کون ہے، کون پوری کائنات کا نظام چلارہاہے؟ خالق نے اس کائنات کو کیوں تخلیق کیا؟ انسانوں کااپنے خالق کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ خالق کے مخلوق سے کیا مطالبے ہیں! لوگ ان کی زبانی یہ باتیں سن کر حیران ہوئے کہ چالیس سال تک اس نے اس طرح کی کبھی کوئی بات نہیں کی۔ انہوں نے جواب دیا کہ ’مجھے ان چیزوں کی کوئی خبر نہیں تھی‘۔ یہ باتیں مجھے خالقِ کائنات کی طرف سے بتائی جارہی ہیں اور خالق نے ہی مجھے یہ ذمہ داری سونپی ہے کہ یہ حقائق تمام انسانوں تک پہنچادوں۔ ابتدائی طور پر مزاحمت ہوئی مگر یہ پیغام انسانی فطرت کے اسقدر قریب تھا اورپیغامبر(صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ) کا ذاتی کردار اس قدر بلندتھا کہ لوگ قائل ہونے لگے اور بتائی گئی حقیقت کو تسلیم کرنے لگے۔ دنیا میں جزیرۃ العرب کی فصاحت وبلاغت کی دھوم تھی۔ وقت کے بڑے بڑے لسّان پیغامبر(صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم) کی زبانی خدائی کلام سن کر حیرت زدہ رہ گئے اور کہہ اٹھے کہ یہ انسانی کلام نہیںپھر اس کلام کے خالق نے خود چیلنج دے دیا کہ اس طرح کی ایک سورت یا ایک آیت بناکرلے آؤ۔ زبان وادب کے بڑے بڑے پہلوان گنگ ہوگئے۔ کوئی جواب نہ دے سکا۔ پھر کہا گیا ’’ہم خود اس کی حفاظت کریں گے‘‘۔ صدیاں گزرگئیںکوئی زیر زبر تبدیل نہیں کر سکا۔ بڑے بڑے صاحبانِ عقل ودانش سوچنے لگے کہ یہ شخص ہمارے سامنے پلابڑھاہے ان امور کے بارے میں اس نے کہیں سے کچھ پڑھا بھی نہیں..... اور یہ جو کلام سناتا ہے اس کا حسن، اس کی جاذبیت، اس کا شکوہ، اس کا جلال اور اس کا اندازِخطابت بالکل انوکھاہے پھر یہ مقامی باشندوں کو نہیں کائنات کے تمام انسانوں سے مخاطب ہے۔ یَا اَیُّھَاالنّاس Oh Mankind! کہہ کر تمام انسانوں کو زندگی کے ہر شعبے سے متعلق ہدایات دے رہا ہے۔ صحیح اور غلط، اچھے اور بُرے، حلال وحرام کی تمیز سکھا رہا ہے اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ پیغامبر(صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم) اپنے بارے میں کوئی دعویٰ نہیں کررہا، اپنے لئے کوئی عہدہ نہیں مانگ رہا (بلکہ بڑے سے بڑے عہدے کو ٹھکراکر بااثر لوگوں کو اپنا دشمن بناکر مشکل ترین راستے کا انتخاب کررہا ہے) وہ اپنے آپ کو صرف پیغام پہنچانے والا (Messenger)قرار دے کر بتاتاہے کہ تمام تر اختیارات صرف خالقِ کائنات کے ہیں۔ پھر اس نے یہ بھی کہا کہ میں کسی نئے دین کی بنیاد نہیں رکھ رہا بلکہ یہ اسی پیغام کا تسلسل ہے جو خالق کے بقول ’ہم اپنے پہلے پیغمبروں نوحؑ، ابراہیم ؑ، موسیٰ ؑ، عیسیٰ ؑاور دوسرے رسولوں کے ذریعے انسانوں تک پہنچاتے رہے ہیں‘۔ لوگوں نے تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ کافی چیزیں مسخ ہونے کے باوجود پیغام کی بنیادی باتیںایک جیسی ہیں کہ تمام کائناتوں کا خالق اور تمام اختیارات کا مالک صرف ا ﷲ ہے جس نے انسانوں کو بے مقصد پیداکرکے شتر بے مہار کی طرح نہیں چھوڑ دیابلکہ انہیں زندگی گزارنے کے ضابطے اور اصول بتائے ہیں۔Dosاینڈ Dontsبتاکر واضح کردیا ہے کہ موجودہ زندگی کے خاتمے کے بعد انسانوں کو اپنے ہر عمل کا حساب دینا ہوگا۔ اس زندگی کے بعد ایک دائمی زندگی شروع ہوگی۔ خالقِ کائنات کے اس پیغام یا ہدایت نامے کا نام ہی اسلام ہے اور تمام رسولوں کا دین اسلام ہی تھا۔
بات ذہنوں کو اپیل کرتی چلی گئی۔ جس شخص کی بھی قرآن تک رسائی ہوئی وہ اس کے اندازِ خطابت، اس کے شکوہ اور جلال سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکاپھر کائنات کے creator نے انسانوں کو بار بار غوروفکر کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ یہ زمین وآسمان ہم نے پیدا کئے ہیں، ہم نے ہر چیز میں ایک نظم اور توازن رکھا ہے۔۔۔ زمین، سورج اور چاند ہمارے حکم سے اپنے متعین راستوں پر چل رہے ہیں۔ یہ تنظیم اور ڈسپلن ازل سے قائم ہے۔ اس میں کبھی کوئی خرابی یا defectپیدا نہیں ہوا۔۔۔۔تم کائنات کی وسعتوں اور اس کی بناوٹ پر غور کرو.....تم خود جان لوگے کہ یہ اپنے آپ پیدا نہیں ہوگئے۔ یہ سب کچھ ایک عظیم ہستی نے تخلیق کیا ہے۔ وہی اس کا منتظم ِ اعلیٰ ہے اور وہی اسے کنٹرول کررہا ہے۔ انسانی تاریخ آگے بڑھتی گئی کائنات اور انسان کی تخلیق کے بارے میں کچھ اور نظریات بھی سامنے آئے۔ ایک صاحب نے Theory of Evolutionپیش کی مگر اس میں اتنے زیادہ Missing Linksتھے کہ صاحبانِ عقل اسے تسلیم کرنے سے گریزاں ہیں۔ پھر ایک مرحلے پر ایک اور آواز آئی کہ یہ کائنات ایک بہت بڑے دھماکے (Big Bang)کے نتیجے میں وجود میں آئی ہے اس کا جواب خود سائنسدانوں نے دیا کہ دھماکے کا قدرتی نتیجہ ٹوٹ پھوٹ، انتشار اور بکھر جانے کی صورت میں نکلتا ہے۔ یہاں تو ہر چیز بے حد منظّم ہے اور پوری کائنات حسنِ ترتیب کا شاہکارہے۔ کیا دھماکے سے اس طرح کی ترتیب وجود میں آسکتی ہے اور کیا انسانی نسل کی بقاء اور تسلسل کے لئے اس طرح کا enabling environmentمناسب ٹمپریچر، گیسوں کی مطلوبہ مقدار، پانی، ہوا اور دیگر ضروری عوامل دھماکے سے یا خودبخودمیّسر آگئے ہیں؟؟ہرگز نہیں!! خالق کے مقرر کردہ آخری پیغمبر حضرت محمد ﷺنے کائنات اور خالقِ کائنات کے بارے میں جو حقائق انسانوں تک پہنچائے ہیں ابھی تک کوئی سائنسی نظریّہ انہیں رد نہیں کرسکا اور نہ ہی کوئی اس پیغامِ حق سے زیادہ convincingنظریّہ پیش کرسکاہے۔ یہی وجہ ہے اور یہ اس پیغام کی صداقت ہی کا کرشمہ ہے کہ دوسرے مذاہب کے سینکڑوں سکالرز اس کی طرف رجوع کرکے دائرہ اسلام میں داخل ہوچکے ہیں مگر کبھی کسی اسلامی سکالر نے اسلام سے برگشتہ ہوکر دوسرا مذہب اختیار نہیں کیا۔
کسی بھی معاشرے کی ترقی میں وہاں کے باشندوں کی اخلاقی نشوونما بنیادی کردار ادا کرتی ہے Divine guidance نے ہی قوموں کی اخلاقی بنیادیں استوارکی ہیں۔ ان اخلاقی بنیادوں کے بغیر انسانی معاشرے زوال پذیرہوجاتے ہیں۔ خالق نے اپنے قرآن کو انسانوں کیلئے ہدایت اور شفاء قرار دیاہے اور اس ہدایت نامے کو انسانوں تک پہنچانے والے افضل ترین رسولﷺ کو تمام جہانوں کیلئے رحمت کہا ہے۔ قرآن اور اسلام (جسے یہ ریاستی امور سے نکالنا چاہتے ہیں) نے ہی انسانوں کو حکم دیا ہے کہ’ انصاف کروچاہے ایک طرف تمہارے والدین یا تمہاری اپنی ذات ہی کیوں نہ ہو۔ مخالفین کی دشمنی میں بھی تم انصاف کے راستے سے نہ ہٹو۔ ذمہ داری ان کو سونپو جو اس کے اہل ہوں۔ تمام انسان برابر ہیں۔ہر انسان اﷲ کے ساتھ براہِ راست رابطہ رکھ سکتا ہے۔ایک بے گناہ انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔ جھوٹ نہ بولو، غیبت نہ کرو، غریبوں اور مسکینوں کی مددکرو (اے محمدؐ) یہ آپ سے پوچھتے ہیں ہم اﷲ کی راہ میں کیا خرچ کریں، انہیں کہو اپنی ضرورت سے زیادہ سب خرچ کردیں، زنا، شراب ، جوئے اور سود سے بچو۔ امانت میں خیانت نہ کرو،صرف حلال کھاؤ، رشوت لینے اور دینے والا دونوں مجرم ہیں اور جہنم میں جائیں گے‘۔ کیا یہ ہدایات انسانی معاشرے کیلئے نقصان دہ ہیں؟ کیا یہ ریاست کی ترقی میں رکاوٹ ہیں؟ یہ انسانی ترقی کیلئے رکاوٹ نہیں بلکہ ناگزیر ہیں۔ ملائیشیا اور ترکی کی روشن مثالوں نے احساسِ کمتری کے مارے ہوئے بیمار ذہنوں کے پسَت دلائل کو روند کررکھ دیا ہے۔ اسلامی سوچ کے حامل ڈاکٹر مہاتیر نے قیادت سنبھالی تو چند سالوں میں اس چھوٹے سے ملک کو ترقی کی بلندیوں تک پہنچا دیا۔ ترکی پر سیکولر اور لادین حکومتیں مسلّط رہیں تو وہ کمزور معیشت اور کمزور اداروں والا مردِ بیمار کہلاتا رہا۔ اﷲ اور رسولﷺ سے راہنمائی لینے والے طیّب اردوان نے باگ ڈور سنبھالی تو دس سالوں میں ترکی کو حیرت انگیز ترقی سے ہمکنار کردیا۔
اگر ہم اس پیغام کو جسے creatorنے رحمت اور شفاء قراردیا ہے، انسانی معاشرت ، تمدّن اور سیاست سے نکال دیں گے تو ریاست انصاف اور خداخوفی سے محروم ہوجائے گی پھر باقی چنگیزیت، بربرّیت اور حیوانیت رہ جائے گی۔ جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی۔ انسانی کھوپٹریوں کے مینار بنیںگے، عورتوں کی عصمتیں پامال ہوں گی۔ ابو غریب کی طرح قیدیوں سے انسانیت سوز سلوک ہونگے۔ ظلم کو صرف خداخوفی ہی روک سکتی ہے۔ مؤرخین مانتے ہیں کہ خوفناک جنگوں میں بھی اگر عورتوں اور بچوں کو تحفظ دیا ہے اور فتح کی صورت میں وحشیانہ قتل ِعام سے پرہیز کیا ہے تو رحمۃ للعالمینﷺ کے پیروکاروں نے کیا ہے۔ مشاہدہ اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ سروس اور سیاست میں وہی افراد کرپشن سے بچے ہوئے ہیں اور میرٹ اور انصاف کی راہ پر چلتے ہیں جن کے دلوں میں اﷲ کا خوف ہے۔ خود مجھ سے کوئی مالی اور اخلاقی کرپشن کے بچنے کی وجہ پوچھے تو میرا صاف جواب ہوگا کہ ’اﷲ کا ڈر‘ ، ’اﷲ اور رسولﷺ نے حرام سے منع فرمایا ہے‘۔ بیسیوں سول سرونٹس خوفِ خدا کی وجہ سے ہی کرپشن سے بچے ہوئے ہیں۔ یورپ میں چرچ اور ریاست علیحدہ کرنے کی تحریک کا ایک خاص پس منظر ہے۔ وہاں چرچ یا پاپائیت سے جڑی ہوئی ظلم اور استحصال کی داستانوں نے عوام کو مذہب سے متنفرکردیاتھا۔ اسلام میں تو پاپائیت جیسا ادارہ سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ یہ صحیح ہے کہ اس وقت منبرومحراب نیم خواندہ افراد کے تصرف میں ہے اور عسکریت کا جھنڈا تشدّد پسندوں اور دہشت گردوںنے اٹھایا ہوا ہے۔ دونوں ہی اسلام کی نمائندگی نہیں کرتے۔ جہالت اور درندگی کا کوئی علمبردار دین مصطفی ﷺ کا نمائندہ نہیں ہوسکتا۔ مسلمان معاشروں کو اپنے مذہب سے بدظن کرنے والی مغربی طاقتوں کے اپنے فیصلے Religiously Motivated ہوتے ہیں۔ ساٹھ سالوں سے فلسطینیوں اور کشمیریوں کی پکار نظرانداز کرنے والوں نے چند سالوں میں انڈونیشیا اور سوڈان کو کاٹ کر عیسائی ریاستیں قائم کردی ہیں۔
ہم کسی ادارے یا کمپنی کی ملازمت اختیار کرلیںتو اپنی زندگی کے تمام اوقات سیٹھ یا مالک کی مرضی کے تابع کردیتے ہیں مگر وہ جو دنیاوی سیٹھوں اور بادشاہوں سے بہت بڑی حکمرانی کا مالک ہے اور جو انسانوں کو اپنا ملازم یا رعایا نہیں بلکہ اپنی پیداکردہ مخلوق قراردیتا ہے اس کی ہدایات کو ہمirrelaventسمجھیں اور ان کی حکم عدولی کریں تو اس عظیم الشان حکمران کیلئے کیسے قابلِ قبول ہوگا؟۔ اسلام کو ریاست سے الگ کرنے کا مطلب ہے اﷲ کی ہدایات کی خلاف ورزی کا کھلم کھلااعلان! کیا کائنات کا Lord creator، چیف ایگزیکٹو اور شہنشاہِ اعظم ہماری یہ گستاخی اور بغاوت برداشت کرے گاجبکہ اس نے واضح طور پر بتادیا ہے کہ وہ اپنے احکامات کی خلاف ورزی کرنے والوں کو باغی سمجھے گا اور انہیں عبرتناک سزادیگا۔
مسلمانوں کو خصوصاًان کی نئی نسل کو اپنے دین سے بدظن کرنے کیلئے ہمارے یورپی اور امریکی مہربان اور مرّبی اربوں ڈالر خرچ کررہے ہیں میڈیا کو اس مہم میں پوری طرح استعمال کیا جارہا ہے۔ اس وقت ہماری eliteکلاس اپنی کمزوریوں اور احساسِ کمتری کے باعث مذہب کو سٹیٹ سے علیحدہ کرنے کی باتیں کرتی ہے مگر جب اسی برّصغیرمیں مسلمانوں کی وہ قدآور شخصیات موجود تھیں جو کسی سے مرعوب نہ ہوتی تھیںتو وہ اسلام کو ریاست سے علیحدہ کرنے کی نہیں ریاست کو اسلام کے اصولوں کے مطابق چلانے کا عزم رکھتی تھیں۔ اقبالؒ، محمدعلی جناحؒ، لیاقت علی خان اور محمد علی جوہر یورپ کی اعلیٰ درسگاہوں کے فارغ التحصیل تھے وہ آج کے دانشوروں سے کہیں زیادہ تعلیم یافتہ اور روشن خیال تھے مگر اسلام کے ساتھ ان کی وابستگی لازوال تھی اور وہ اس کا برملا اظہار کیا کرتے تھے۔
اگلے روز ایک دانشور نے بھری محفل میں پتے کی بات کردی کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ہمارے ہاں وہی لوگ اسلام کو ریاستی امور سے علیحدہ کرنے کا شور مچاتے ہیں جو ذاتی زندگی میں شراب، بدکاری اور کرپشن کے بغیر نہیں رہ سکتے۔ سٹاف کالج میں یہ بحث لمبی ہوئی تو ایک افسر نے (جو کئی انکوائریاں بھگت چکے تھے اور ہررات کوہوش کھو بیٹھتے تھے) دل کی بات کہہ دی کہ ’’اساں کھچ مارن توں رہ ناں سکدے آں تے اسلام دے کوڑیاں توں بڑا خوف آوندااے‘‘(ہم غلط کام کئے بغیر رہ نہیں سکتے اور ہمیں ان کرتوتوں کیلئے مخصوص اسلامی سزاؤں سے بڑا ڈرلگتا ہے)۔
تازہ ترین