• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
(آخری قسط) 
پاکستان کے تناظر میں پیپلزپارٹی کی مرکزی قیادت پر گفتگو کا پہلا حصہ یہاں پر رُکا تھا: ’’بلاول بھٹو زرداری کا سیاسی مستقبل یا ان کا قومی رہنما کی حیثیت سے مقام و مرتبہ پروسیس میں ہے۔ پاکستانی عوام کے درمیان وہ ممکنہ بہترین چوائس ہیں۔ آصف علی زرداری، فریال تالپور، بلاول کے نظریاتی سرپرست اور ذاتی طور پر اس کے ہم رکاب ہیں۔ وہ پارٹی کی اندرونی تنظیم ہو یا سندھ میں گورننس، بلاول ان مسائل سے نبردآزما ہی نہیں ہوئے، جرأتمندانہ پیش قدمی سے کام لے رہے ہیں ۔ پاکستانی عوام کم از کم اب اپنی سیاسی قیادتوں کے بارے میں ’’بیڑیوں‘‘ کو پہچاننے کی پوری کوشش کریں۔‘‘ اب اس بات کو مکمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں!
ذوالفقار علی بھٹو کوئی پانی کا بلبلہ نہیں تاریخ کا ناگزیر تسلسل ہے۔ وقت نے اس سچائی کو تسلیم ہی نہیں کیا اس پر اپنی مہر تصدیق ثبت کر رہا ہے ۔ فیصلہ کن دلائل پر کلام کا ذخیرہ حیرت انگیز ہے تاہم فی الوقت صرف دو تین تاریخوں کو ذہن میں لائیں۔ 5جولائی 1977، جب ان کا منتخب اقتدار سازش اور طاقت کے خونیں پنجوں میں جکڑا گیا۔ 4اپریل 1979، جب انہوں نے تختہ ٔ دار کو سرفراز کیا۔ 17اگست 1988، جب ضیا الحق جاں بحق ہوئے۔ آج 1977 کو گزرے 38واں، 1979 کو 36 واں اور 1988 کو 27واں برس ہونے کوہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ کے ان تینوں دائروں میں مقید حرف آخر کیا ہیں؟
5جولائی 1977، پوری قوم، اجتماعی پیمانے پر اس شب خون کی ممکنہ توانائی کے ساتھ شدید مذمت میں جُت جاتی ہے۔ نہایت غیظ و غضب سے ضیاالحق کے اس اقدام پر، ان پر ’’بعد از مرگ‘‘آئین شکنی کا مقدمہ چلانے تک کا مطالبہ زور پکڑ گیا ہے۔
4اپریل 1979، ذوالفقارعلی بھٹو کی آخری آرام گاہ۔ ایک طرح سے قومی زیارت گاہ کی حامل قرار پاچکی۔ اخبارات و جرائد، دانشور، مبصر، عالمی برادری یک زبان ہو کے انہیں اور ان کی خدمات کو ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کے خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ ان کے ’’’مقدمہ‘‘ کو انصاف کے قتل اور ان کی ’’سزائے موت‘‘ کو سرعام ’’عدالتی قتل‘‘ کی اصطلاحوں کا پابند کیاجاچکا۔ پاکستانی عوام، پاکستانی عدلیہ سے ان کی ’’بے گناہی کےفیصلے‘‘ کا انتظار کر رہے ہیں! بھٹو صاحب کے تمام مخالفین، وقت کے دھارے کے ساتھ بہتے بہتے شاید سب کے سب پچھتاوے کی آگ میں جلتے ہیں۔ بعض سعید روحوں نے تلافی کرنے کی راستی کاراستہ اپنا لیا قوم کا اجتماعی شعور ایسے احساس غم کی تصویر دکھائی دیتاہے جس کا ہر تاثر پشیمانی کے قطروں میں شرابور نظر آتا ہے۔17اگست 1988، اسلام آباد کی فیصل مسجد میں موجود قبر کے دامن میں ’’تنہائی‘‘ کےسوا کچھ نہیں۔ وہ تمام افراد، جماعتیں، گروہ، حلقے، مقررین، ریلیاں، جلسے، جلوس، ’’ضیا الحق کا مشن پورا کرکے رہیں گے‘‘  کےعلمبردار، داستان گم گشتہ، پورے ملک کے قومی منظر پر اس دن کے کسی لمحے ان میں سے کسی کے وجود کا نام و نشان تک نہیں ملتا۔ ان سب کے ہاتھوں جو ناقابل تلافی زیادتی ہوئی اس کی کوکھ سے ان کی شرمندہ شرمندہ، جھکی جھکی اور تھکی تھکی کیفیات کا مشاہدہ کیاجاسکتا ہے۔ آٹے میں نمک کے برابر کوئی ایک آدھ کے ہاں اس روز ضیاالحق کی یاد میںکچھ شائع ہو جاتا ہے لیکن اگلے روز سے اگلی 17اگست تک کے دوران میں ذکر ذوالفقار علی بھٹو کا کرتے رہتے ہیں!
2016 میں تاریخ کے حرف ِ آخر، وقت کی لوح پر صداقت کا وہ سورج طلوع کرکےرہے جس کی کرنیں قوم کے لاشعور سے ابھرنے کی ہمیشہ منتظر رہیں اور یہ سورج تھا شہبازشریف کا 12اگست 2016 کو ایک سیمینار میں اعلان و اعتراف، کہا: ’’80کی دہائی میں نام نہاد جہاد نہ کرتے تو آج پاکستان ترقی یافتہ ملک ہوتا‘‘ اور کوئی پاکستانی یہ نہ بھولے، جہاد کا اصل میدا ن کارزار 4اپریل 1979 کی شب ذوالفقارعلی بھٹو کے ’’عدالتی قتل‘‘ کےفوری بعد برپا ہوا۔
چنانچہ پاکستان پیپلزپارٹی اور اس کے بانی کوئی پانی کے دو بلبلے نہیں تاریخ کے ناگزیر ابواب کا تسلسل ہیں جن کا ہر لفظ عوامی قیادت سے عبارت ہے۔ آخر یہ پیپلزپارٹی ہی کیوں ہے جس کی مرکزی لیڈرشپ ہی نہیں ان کی آئندہ نسل کی زندگیاں بھی تشدد و تعذیب اور باطل و فاسق پروپیگنڈے کی سان پر چڑھائی جاتی رہتی ہیں۔ وقت اب آگے نکل چکا۔ جس طرح شہباز شریف کے اعلان و اعتراف سے ثابت ہوا، تاریخ ضیا الحق اور اس کے شروع سے لے کر آج تک کی حامی تمام جماعتوں، گروہوں اور افراد کی طرف سے منہ پھیر کے کھڑی ہوچکی، وہ ضیا سمیت ان میں سے کسی کو اپنی ملکیت میں لینے کو تیارنہیں، بعینہٖ پی پی کی مرکزی قیادت بھی پاکستان کے سیاسی افق کی ضامن و وارث ہے! وقت ہی میزان ہے۔ وہ آصف زرداری کو سیاسی عظمت کے ترازو کا پورا تول قرار دے دیتا ہے۔ لفظوں کے صحیح امانتدار لوگوں کو بتا کے رہتے ہیں: ’’ان (آصف علی زرداری) کے ملک سے باہر قیام کوجولوگ خوف کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں وہ انہیں جانتے ہی نہیں، سینوں میں چھپی باتیں جب تاریخ کے صفحات پر آئیں گی تو معلوم ہوگا کہ سابق صدر نے کس طرح دور رہ کر ملک کے جمہوری نظام پر ہونےوالے حملوں کو ناکام بنایا ہے۔‘‘ فریال تالپور کی سیاسی شخصیت جیساکہ آپ کو مسلسل متنبہ کیا جارہا ہے، تازہ ترین ٹارگٹ ہیں؟ کیوں؟ اس لئے کہ انہوں نے زندگی اس وادیٔ پرخار میں بھائی کی طرح صبر، عزم، نڈرپن اور بصیرت کے ساتھ گزاری، آج ملکی سطح پر آصف علی زرداری کو ان کے سیاسی معیارات پر اطمینان ہے۔ رہ گئے بلاول، پاکستان کی سینئر ترین سیاسی لیڈرشپ کے بعد وہ مستقبل کا منفرد ترین استعارہ اور عوام کا Craze ہیں۔ تقدیر ہم رکاب رہے، عوامی قبولیت انہیں مستردکرنے سے رہی، سینئرلیڈرشپ کے بعد خلا ہی ایسا ہے۔ مراد علی شاہ اسی قومی سیاسی جماعت کا ایک مسلسل سیاسی عمل ہے۔ یہ قائم علی شاہ کی نفی نہیں یہ قومی سیاست کے ارتقائی سفر کا ثبوت ہے۔
سیاسی کردار کشی کے بجائے ہم سب کو ایک دوسرے کی سیاسی معنویت تسلیم کرتے ہوئے کسی بقراط کی دی ہوئی تاریخوں کا انتظار کرنے کے بجائے، آئندہ قومی انتخابات کی تیاری کرنی چاہئے۔ پی پی قیادت کا یہی منشور ہے اور اپنے مخالفین کو یہی جواب بھی!
تازہ ترین