آزادی مارچ کے نتیجے میں اگر حکومت سنگین مشکلات سے دوچار، کمزور اور متزلزل ہوئی ہے تو عمران خان کا سیاسی مستقبل بھی خطرات کی زد میں ہے۔ مارچ کے شرکاء کی تعداد کے بارے میں ان کے اندازے درست ثابت نہیں ہوئے۔ یہ ان کی سیاسی زندگی کا عظیم امتحان ہے جس کے نتائج ہی ان کے راستے کی درستی کی تائید یا تردید کریں گے۔ عمران خان اگر یہ سمجھتے ہیں کہ سول نافرمانی کی کال، وزیراعظم کے استعفے، غیر یقینی صورتحال اور اشتعال انگیز فضا میں اقتدار ان کے پاس آئے گا وہ غلطی پر ہیں۔ ایسی صورت میں اقتدار ان سے مزید دور ہوجائے گا۔ سول نافرمانی غیر ملکی تسلط کے خلاف کی جاتی ہے جس کا مقصد ریاست کو ناکام کرنا ہوتا ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ 2013ء کے انتخابات میں اس سیاسی جماعت نے کامیابی حاصل کی ہے جو ملکی انتظام میں اپنی اہمیت منوانے کے لئے اسٹیبلشمنٹ پر اثر انداز ہونا چاہتی ہے۔ جواب میں اسٹیبلشمنٹ نے کچھ سیاستدانوں کو آگے بڑھاکرحکومت کویہ باور کرایا ہے کہ اپنی مدت پوری کرنے کے لئے انہیں اسٹیبلشمنٹ کے تعاون کی ضرورت ہے اور اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کے خلاف چلنے میں ان کا اقتدار خطرناک چیلنجوں سے دوچار ہوسکتا ہے۔ آزادی اور انقلاب مارچ سے سیاسی قوتیں کمزور ہوئی ہیں۔ ان مارچوں سے اگر کسی نے طاقت حاصل کی ہے تو وہ اسٹیبلشمنٹ ہے۔ جس نے سول حکمرانوں کو یہ سبق سکھایا ہے کہ بھاری مینڈیٹ کے باوجود وہ فیصلہ کن قوت نہیں ہیں۔ ان کے ساتھ کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ عمران خان لکھ رکھیں کہ کل اقتدار ان کے پاس آئے گا تو فیصلے کرنے میں وہ نوازشریف سے زیادہ اسٹیبلشمنٹ کے اشارۂ ابرو کے محتاج ہونگے۔ ملکی معاملات میں ان کی مرضی اور فیصلے بلاشرکت غیرے نافذ نہیں ہوں گے۔
مارچ کی قوت شرکاء کا جوش ہے لیکن حقائق کا ادراک ناپیدہے۔ انقلاب کے محرک ایسے ہیرو ہیں جن کے کارنامے نہیں۔ جن کی سیاسی زندگی میں بڑے واقعات نہیں۔ خان سرور، شیخ رشید، فیاض چوہان، حنا منظور، ملک امین اسلم، اسد عمر، شفقت محمود، علیم خان اور شاہ محمود قریشی۔ یہ ہے وہ متبادل قیادت جو انقلاب کی داعی ہے۔ عمران خان کی قیادت میں بیٹھے جاگیردار، سرمایہ دار آزاد منڈی کی معیشت، بیرونی سرمایہ کاری، پرائیویٹائزیشن اور نیو لبرل سرمایہ داری کے علمبردار ہیں۔پنجاب کی حد تک انہوں نے جو قیادت متعارف کرائی ہے صف اول سے لیکر دوئم سوئم چہارم اور پنجم تک سب ارب پتی ہیں۔ یہ سادگی کی انتہا ہوگی کوئی ان افراد سے تبدیلی کی توقع رکھے جو اس نظام کے رکھوالے ہیں۔ سرمایہ داروں اور جاگیردار اشرافیہ کو ساتھ ملاکر ایجی ٹیشن تو شروع کیا جاسکتا ہے حقیقی تبدیلی ممکن نہیں۔
انقلاب کے دونوں سوداگر عوام کے چند مسائل کے گرد نعرے بازی کررہے ہیں۔ متوسط طبقے کی ایک پرت کے احساسات سے کھیلتے کھیلتے سول نافرمانی کی تحریک تک آتے آتے عمران خان کی سیاست سنجیدہ، منطقی اور عقلی اعتبار سے قابل دفاع بنیادوں سے محروم رہی۔ ستم رسیدہ اور محروم عوام کی اکثریت نواز حکومت سے مایوس ہے لیکن مارچ کافیصلہ ’’اوپر‘‘ سے آیا ہوا فیصلہ ہے۔
ابتدائی سراسیمگی اور فکری انتشار کے بعد وزیراعظم نوازشریف نے سنبھالا لیاہے۔ وہ مصالحت کے لئے جہاں تک جاسکتے ہیں وہاں تک جانے کے لئے تیار ہیں۔ دس حلقوں کی دوبارہ گنتی اور عدالتی کمیٹی کے قیام کے اعلان کے بعد بھی نوازشریف مزید اقدامات اور بات چیت کے لئے تیار ہیں۔ یہ کہنا سیاسی حرکیات سے عدم واقفیت پر مبنی ہے کہ اگر وزیراعظم ابتداء ہی میں چار حلقے کھولنے پر آمادہ ہوجاتے تو معاملات اس نوبت تک نہ پہنچتے۔ عمران خان نے پھر بھی معاملات کو اس نکتۂ ابال تک لانا تھا۔ یہ ان کی سیاسی ضرورت ہے۔ وزیراعظم نوازشریف نے گزشتہ دوماہ میں اپنی ابتدائی غلطیوں کی اصلاح کی۔ آپریشن ضرب عضب میں جی ایچ کیو کے ساتھ ان کے معاملات کو بہتر انداز میں استوار کیا گیا۔ 2013ء کے انتخابات کی سپریم کورٹ کے بنچ سے تحقیقات کرانے کے علاوہ اگر وزیراعظم الیکشن کمیشن کی تشکیل نو پرویز مشرف کو باہر جانیکی اجازت، خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کے معاملات پر گرفت ڈھیلی کرنے پر راضی ہوجائیں تو انقلاب کے قافلے کوچ کرنا شروع ہوجائیں گے۔ عمران خان کے سول نافرمانی کے اعلان اور ریڈزون میں داخلے کے اعلانات نے ان کی جدوجہد کو کتنا نقصان پہنچایا ہے انہیں جلد اندازہ ہوجائے گا۔
عمران خان کی بے قابو بے صبری ان سے پیہم غلطیوں کا ارتکاب کروارہی ہے لیکن تاریخ کی للکار سے پاکستان کو کیسے بچایا جاسکتا ہے۔ تبدیلی آنی ہے اور آکر رہے گی موجودہ حکمرانوںنے عوام کو بہت مایوس کیا۔ ان کی حکومت ایسی حکومت ثابت ہوئی ہے جس کے ہرہر قدم کا فائدہ سرمایہ داروں کو پہنچا ہے۔ ملک عوام کے لئے اذیت کدہ بن گیا ہے۔ اقتدار سنبھالتے ہی چند مہینوں میں انہوں نے بجلی کے بل دگنے کردیئے جس کے نتائج نے مہنگائی کے سیلاب کی صورت میں عوام کی زندگی میں انگارے بھر دیئے ہیں۔ افراط زر نے عوام کی رہی سہی قوت خرید بھی ختم کردی ہے۔ روٹی روزگار بجلی گیس پیٹرول گوشت سبزیوں دالوں اور امن و امان کے حوالے سے انہوں نے عوام کو معمولی ریلیف بھی نہیں دیا۔
دوسری طرف عمران خان کی باتیں اور دعوے بھی ناقابل فہم ہیں ان کے پاس تبدیلی اور سماج کے ارتقاء کے لئے کوئی متبادل نظام موجود نہیں ہے۔ وہ بھی سرمایہ دارانہ نظام کے علم بردار ہیں۔ وہ ایک ایسے معاشی نظام میں کرپشن کے خاتمے کی بات کررہے ہیں جو چلتا ہی کرپشن کے بل پر ہے۔ جو دولت غریبوں سے اکٹھی کرکے چند سرمایہ داروں کے ہاتھوں میں جمع کردیتا ہے۔ ایک طرف بھارت ہے جہاں ستر سال ہونے کو آرہے ہیں سرمایہ دارانہ جمہوریت رائج ہے۔ فری اینڈ فیئر الیکشن ہورہے ہیں لیکن اسی کروڑ بھارتی شہریوں کو ایک وقت روٹی بھی میسر نہیں۔ دوسری طرف یونان سے لے کر ناروے تک عوام ہیں جن سے ایک ایک مراعات واپس لی جارہی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام نے جمہوریت جس کے نفاذ کا آلہ ہے انسانیت کو سنگین سانحات سے دوچار کیا ہے۔ اس نظام کے علم بردارو ں کے ہاتھوں یہ بے ہنگم اور بے معنی ایجی ٹیشن جو انقلاب کے نام پر کیا جارہا ہے اس کا انجام جو بھی ہو شکست مجبور اور غریب عوام کی ہوگی۔