• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اسلام آباد میں پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے دو ہفتوں سے جاری ’’ آزادی ‘‘ اور ’’ انقلاب ‘‘ دھرنوں کے باعث لمحہ بہ لمحہ ڈرامائی صورت حال پیدا ہوتی رہی ۔ اس میں سوچنے والوں کو ذہنی ریاضت اور مشق کرنے کا موقع ملا ہے اور بہت سارے حقائق کا نئے سرے سے ادراک ہوا ہے ۔ اس دوران جو حقائق مجھ پر نئی وارداتوں کی صورت وجود پر اترے ، ان کا تذکرہ یہاں دلچسپی سے خالی نہ ہو گا ۔ مثلاً
1 ۔ ممتاز امریکی دانشور ول ڈیورانٹ کا یہ کہنا درست ثابت ہو گیا ہے کہ جمہوریت اپنی فطرت اور طینت میں نیک ہوتی ہے ۔ فوجی حکمرانوں کے خلاف عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری دھرنا دیتے تو انہیں پتہ چل جاتا ۔ آج وہ ایک جمہوری حکومت کے خلاف احتجاج اور دھرنےذ کے اپنے تمام ’’ جمہوری حقوق ‘‘ استعمال کر رہے ہیں ۔ وہ حکمرانوں کو گالیاں بھی دے رہے ہیں اور دو ہفتوں سے انہوں نے پاکستان کے دارالحکومت میں زندگی کو بھی مفلوج کرکے رکھ دیا ہے ۔ دھرنوں کی قیادت کرنے والے ایئرکنڈیشنڈ کنٹینرز میںبیٹھے ہیں اور ان کی بجلی بھی منقطع نہیں ہو رہی ہے ۔ دھرنے کے شرکاء کسی خوف و خطر کے بغیر نہ صرف وہاں بیٹھے ہیں بلکہ ان کی آمدورفت میں بھی کوئی رکاوٹ نہیں ہے ۔ اس پر میں ایم آر ڈی کی تحریک کے دوران سندھ کے شہر خیرپور ناتھن شاہ میں پر امن مظاہرہ کرنے والوں کے سفاکانہ قتل عام کا صرف ایک واقعہ یاد کرتا ہوں تو اس حقیقت کا مزید ادراک ہوتا ہے کہ جمہوریت واقعتاً اپنی طینت میں نیک ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ سانحہ ماڈل ٹائون کی ایف آئی آروزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب کے خلاف درج ہو گئی ہے۔2 ۔ طویل دھرنوں سے ’’ فری میسن موومنٹ ‘‘ کے تحت دنیا بھر میں چلنے والی تحریکوں کو سمجھنے میں بھی مدد ملی ہے ، جو تبدیلی اور انقلاب کے نام پر حقیقی تبدیلی اور حقیقی انقلاب کو روکنے کے لیے ہوتی تھیں ۔ ان تحریکوں کی بنیادی خاصیت یہ ہوتی تھی کہ تحریک چلانے والوں کو کبھی مالی وسائل کی فکر نہیں ہوتی تھی ۔ اب یہ بات عقل میں آ رہی ہے کہ اتنے طویل دھرنوں کی مالی ضروریات پوری نہ ہونے کا مسئلہ کیوں پیدا نہیں ہوا ۔ ان طویل دھرنوں سے ’’ اسٹیو جیکسن ‘‘ کی امریکی گیم کمپنی کا بنایا ہوا انتہائی پیچیدہ گیم ’’ الیومینیٹی ‘‘ ( Illuminati ) بھی اب سمجھ آنے لگا ہے ۔ اس گیم کا بنیادی تصور یہ ہے کہ دنیا کے طاقتور ترین لوگ ، جنہیں الیومینیٹی کہا جاتا ہے ، پوری دنیا پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں ۔ مذکورہ گیم سازشوں کا ایک گیم ہے ۔ گیم بورڈ پر بیٹھتے ہی محسوس ہوتا ہے کہ الیومینیٹی ہمارے چاروں طرف ہیں ، خفیہ سازشیں ہر جگہ ہیں ۔ آپ سچ تلاش کرنے میں غرق رہتے ہیں اور تھک کر گیم چھوڑ دیتے ہیں ۔ 3 ۔ پاکستان تحریک انصاف نے ’’ آزادی ‘‘ اور پاکستان عوامی تحریک نے ’’ انقلاب ‘‘ کا جو فلسفہ دیا ہے ، اس کے بعد یہ دونوں الفاظ نہ صرف لوگوں کو سرشار کرنے اور ان کا خون گرمانے کی صلاحیت سے محروم ہو چکے ہیں بلکہ دل کرتا ہے کہ حکومت سے فلسفیانہ نظریات اور سیاست پر کھل عام بحث پر اس طرح پابندی لگا دی جائے ، جس طرح ساڑھے چار صدی قبل مسیح یونان کے شہر ’’ اسپارٹا ‘‘ میں عائد کر دی گئی تھی ۔ بحث کرنے والے کو جیل میں ڈال دیا جاتا تھا کیونکہ فلسفیانہ نظریات ، الفاظ اور اصلاحات اپنے معانی ، مفاہیم اور اہمیت کھو چکے تھے اور ان کی وجہ سے حسد ، نفاق اور بے فائدہ بحثوں کو ہوا ملتی تھی ۔ آئن اسٹائن نے کہا تھا کہ ’’ انقلاب نے مجھے فن ( آرٹ ) سے آشنا کیا اور فن نے مجھے انقلاب سے روشناس کرایا ۔ ‘‘ پاکستان میں پہلی دفعہ آرٹ اور انقلاب کی ایک دوسرے کے ساتھ دشمنی دیکھنے کو ملی ہے ۔ 4 ۔ آزادی اور انقلاب دھرنوں سے پاکستان کی حقیقی حکمران اسٹیبلشمنٹ ( ہیئت مقتدرہ ) کے بارے میں وقت کے ساتھ ساتھ پیدا ہونے والی ’’ خوش فہمیاں ‘‘ بھی ختم ہو گئی ہیں اور بہت ساری باتیں نئے حالات کے پیرائے میں دوبارہ سمجھ میںآنے لگی ہیں ۔ان کی نیت بھی سامنے آ گئی ہے ۔اس بات کا بھی ادراک ہو گیا ہے کہ آج کے اس جمہوری دور میں بھی پاکستان کے بعض حقیقی ، قومی اور عوامی جمہوری قوتیں کوئی جلسہ یا اجتماع منعقد کیوں نہیں کر سکتی ہیں اور اگر وہ کوئی جلسہ منعقد کریں تو دہشت گردی کا شکار کیوں بن جاتی ہیں ۔ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے احتجاج کرنے والوں اور انہیں میڈیا میں کوریج دینے والوں کو عتاب کا نشانہ کیوں بنایا جاتا ہے ۔ ہمسایہ ملکوں کے ساتھ پر امن تعلقات رکھنے کے خواہش مند افراد اور اداروں پر ’’ آزادی پسندوں ‘‘ اور ’’ انقلابیوں ‘‘ کو کیوں چھوڑ دیا جاتا ہے اور پاکستان جیسے ملک میں ’’ جمہوریت ناکام ہو گئی ‘‘ کا نعرہ کیوں لگایا جاتا ہے حالانکہ یہاں جمہوریت نے جڑیں ہی نہیں پکڑی ہیں ۔ یہ بات بھی سمجھ میں آنے لگی ہے کہ وہ لوگ آج احتجاج کیوں کر رہے ہیں ، جن میں ایک تو وہ ہیں ، جنہیں طالبان نے اس صوبے میں عام انتخابات میں ’’ فتح ‘‘ دلوانے کے حالات پیدا کیے ، جہاں طالبان کا سب سے زیادہ اثر و رسوخ ہے اور دوسرے وہ ہیں ، جو طالبان کے خلاف ایک فرقہ وارانہ اتحاد بنا کر آنکھوں میں دھول جھونکنے والا وہی کردار ادا کر ر ہے ہیں ، جو طالبان امریکا کے خلاف ادا کر رہے ہیں ۔ اس پورے کھیل کے رموز بھی سمجھ میں آنے لگے ہیں۔5 ۔ اس بات کا بھی پہلے سے زیادہ ادراک ہونے لگا ہے کہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے سیاست دانوں کے لیے ’’ رولز آف گیم ‘‘ بالکل الگ ہوتے ہیں ۔ ان دھرنوں کی قیادت چھوٹے صوبوں سے تعلق رکھنے والا کوئی سیاست دان کر رہا ہوتا تو اس پر ملک میں انتشار پیدا کرنے اور غداری کی تعزیر عائد ہو چکی ہوتی ۔ اسی طرح وزیر اعظم بھی کسی چھوٹے صوبے سے ہوتا تو فیصلہ کرنے والی قوتیں ’’ ملک بچانے کے ناگزیر اقدامات ‘‘ میں تاخیر نہ کرتیں ۔ چھوٹے صوبوں کے لوگوں کے لیے یہ ایک دلچسپ کھیل ہے ۔ اس کھیل میں فیصلہ کرنے والی قوتیں ’’ حق و باطل ‘‘ میں ابھی تک تمیز نہیں کر سکی ہیں کیونکہ وہ خود بھی برابر کی فریق ہیں ۔ 6 ۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری اور کپتان عمران خان جس طرح بند گلی میں جا کر پھنس گئے ہیں ، اس سے یہ بھی پتہ چل گیا ہے کہ پرانے کھلاڑی پرانے ہوتے ہیں اور نئے کھلاڑی نئے ہوتے ہیں ۔ اس بات کا احساس اب میاں محمد نواز شریف کو بھی ہوا ہو گا کہ گجرات کے چوہدریوں اور لال حویلی کے شیخ کتنے پرانے سیاست دان ہیں اور انہیں ناراض نہیں کرنا چاہئے تھا ۔ ان کی بے شک ایک یا دو سیٹیں ہوں گی لیکن ان کی زندگی تو سیاست میں گذری ہے ۔ شیخ رشید اگر بار بار یہ کہہ رہے ہیں کہ ’’ قبر ایک ہے اور لاشیں دو ہیں ‘‘ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ عظیم سیاست دان ہیں ۔ شیخ رشید اور چوہدری برادران گھر میں آرام سے سوتے ہیں ۔ نئے کھلاڑی شیخ الاسلام اور کپتان میدان میں کنٹینر لگا کر پڑے ہوئے ہیں ۔ دوسری طرف مسلم لیگ (ن) کے حکمرانوں کی نیندیں بھی حرام ہیں۔اس پورے کھیل میں دونوں نئے کھلاڑیوں کوکوئی فائدہ نہیں ہے ، چاہے دوسروں کا کتنا بڑا نقصان ہی کیوں نہ ہو ۔اس کھیل میں اگر کسی کو فائدہ ہے تو وہ ظاہری طور پر چوہدری برادران اور شیخ رشید کو ہے ۔ میاں نواز شریف اور آصف زرداری سمیت تمام سیاست دانوں کو اب یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ پرانے کھلاڑیوں کو غیر اہم سمجھ کر نظرانداز نہیں کرنا چاہئے ۔ شیخ الاسلام اور کپتان کو تو بعد میں احساس ہو گا کہ ’’ وہ یوں کرتے یا یوں نہ کرتے ۔ ‘‘
ہوئی مدت کہ غالب مر گیا ، پر یاد آتا ہے
وہ ہر بات پر کہنا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا
تازہ ترین