• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کی تاریخ میں موجودہ طویل دھرنے ایک نئے باب کے اضافے کا باعث ہورہے ہیں اور کسی کالم نویس کا ان سے بچ کر نکلنا ممکن نہیں۔ ملک کی مالی اور معاشی حالت گزشتہ مہینوں میں قابل رشک نہیں رہی۔ درمیان میں رمضان المبارک کی آمد اور اس مہینے میں زکوۃ، فطرہ، فدیہ، صدقہ و خیرات کی تقسیم، افطاریوں، رمضان اور عید کی خریداریوں نے معیشت اور کاروبار میں تیزی اور گرم بازاری پیدا کردی تھی، عید کے گزرتے ہی پھر نیم جمودی کیفیت طاری ہونے لگی ضرب عضب، مشرقی اور مغربی سرحدوں پر گولہ باری اور شمالی وزیرستان میں آپریشن نے فوجی اخراجات میں اضافے کے ساتھ فوج کو یک سوئی اور اطمینان کلی کی ضرورت ہے۔ ان حالات میں ایک بزرگ اور ایک چاق و چوبند رکن اسمبلی نے دھرنوں کی کال دے رکھی ہے۔ اس سلسلے میں پہلا سوال یہ ہوتا ہے کہ یہ دھرنے ذاتی مفاد کے حصول کی خاطر دیئے گئے ہیں کیونکہ ہر شہری کو اپنے حقوق حاصل کرنے کی آزادی ہے تو پھر سیکڑوں خواتین اور مردوں کو کیوں ناحق اپنے ساتھ ملایا گیا اور ان کو کامیابی پر کیا ملے گا؟ اگر یہ دھرنے ملک و قوم کے مفاد میں ہیں تو کیا قوم سے اس کی اجازت لی گئی؟ اور عمل تو ملک دوستی کے بجائے ملک دشمنی پر نظر آرہا ہے۔ ان امور پر نظر ڈالیے۔
1۔ سول نافرمانی غیروں اور دشمنوں کے خلاف ہوتی ہے اپنوں کے خلاف نہیں ہوتی، ہندوستان میں برطانیہ کے خلاف ہوتی تھی، بنگلیوں نے کی تھی، یہاں کون سا غیر دشمن ہے؟
2۔ سول نافرمانی کا بنیادی مقصد دشمن کو مالی طور پر نقصان پہنچانا اور کمزور کرنا ہوتا ہے۔ یہاں بجلی، گیس، پانی اور ٹیلیفون کے بل ادا نہ کرنے سے کس کو نقصان ہوگا؟ بلکہ یہ تو اسی صورت ہے کہ انسان جس شاخ پر بیٹھا ہے اسی کو کاٹ رہا ہے۔ اگر فنڈ نہ ہونے سے ملک میں بجلی 24 گھنٹے بند ہوجائے تو کیسا واویلا مچے گا۔ ایک دن گیس بند ہوجانے پر ملک کے سارے چولھے اور تندور بند ہوجائیں گے۔ عوام کو روٹی تک نہیں ملے گی۔
3۔ سیلز ٹیکس اور انکم ٹیکس کی عدم ادائیگی سے حکومت کی آمدنی ختم ہوجائے گی، دوسری طرف بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے کہا جارہا ہے کہ ترسیلات زرروک دیں اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے استدعا ہے کہ وہ پاکستان کو قرضے کی اگلی قسط نہ دیں اگر دینگے تو اس کی ادائیگی نہیں ہوگی۔ کیا دھرنے والے پاکستان کو دیوالیا ملک بنانا چاہتے ہیں؟
دھرنوں کے سربراہوں کو بھنگڑوں کے رقص، زندہ باد کے نعروں اور تالیوں کی گونج میں مست، یہ خیال ہی نہیں آیا کہ ان دھرنوں سے معیشت پر کیا اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ ڈالر جو 99روپے پر آگیا تھا پھر 103.37کا ہوگیا ہے، پونڈ اور یورو کے نرخ بڑھ گئے، سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے تجارت و ٹیکسٹائل کے مطابق15 یوم میں درآمدات و برآمدات میں 500ارب کا تجارتی خسارہ اور قرضوں میں 350ارب کا اضافہ ہوا ہے۔ دھرنوں کے وقفوں کے ساتھ ان دونوں رقوم میں مزید اضافہ ہوگا۔ پاکستانی معیشت میں اتنی استطاعت اور لچک نہیں کہ وہ یہ بوجھ بغیر کسی بیرونی قرضے یا سہارے کے برداشت کرسکے اور اس کے لئے اس کو بلاوجہ مزید شرائط برداشت کرنا پڑیں گی۔ ایک دھرنے کے سرگردہ نے اعتراف کیا کہ ان کے ایک کے سوا تمام مطالبات تسلیم کرلئے گئے ہیں۔ یہ مطالبہ وزیراعظم کا استعفیٰ ہے، حکومتوں کو دھرنوں یا دھمکیوں سے نہیں ہٹایا جاتا اس کا ایک بین الاقوامی منظور شدہ اصول ہے کہ جس حکومت کو ہٹانا مقصود ہوتا ہے اس کے خلاف قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کا ووٹ لیا جاتا ہے اگر ووٹ کام یاب ہوگیا تو پوری کابینہ تحلیل ہوجاتی ہے۔ ایک دھرنے کے سربراہ معیار سے گری ہوئی زبان استعمال کررہے ہیں وہ سابق چیف جسٹس چیف الیکشن کمشنر، عدلیہ، صحافیوں سب پر دھاندلی کے الزامات لگارہے ہیں، وکلا اور صحافیوں پر حکومت سے 250ارب لینے کا الزام لگایا۔ اس کے جواب میں ان پر ٹی وی چینلوں کو خریدنے کا الزام ہے جو 24گھنٹے ان ہی کا پروپیگنڈا کرتے ہیں اور اشتہار وغیرہ شائع نہیں کررہے وہ اپنے الزامات میں بہت آگے بڑھ گئے ہیں۔
دھرنوں کی غیر معمولی کامیابی میں حکومت کی فراگزشتوں کا بڑا ہاتھ رہا ہے اول تو اس نے دونوں دھرنوں کو ایک سطح پر لیا۔ حالاں کہ ان میں بڑا فرق تھا، ایک بزرگ جن کے پاس دوسرے ملک کا پاس پورٹ ہے ایک گروہ کی رہنمائی کررہے ہیں ایک نیم ملکی کو اس کا حق نہیں۔ کیا برطانیہ میں مقیم اور برطانوی پاس پورٹ ہولڈر پاکستانی کو یہ حق حاصل ہے کہ ایک دن یہاں آکر پاکستان کی جائز منتخب حکومت کو گرا دے حکومت کی مفاہمتی پالیسی، نرم رویہ، تشدد سے اجتناب، خلاف ورزیوں سے چشم پوشی، بلکہ قافلوں کا تحفظ ان کو روشنی پانی اور دوسری ضروریات کے اہتمام نے ان کو سرپر چڑھا دیا جب پانی سر سے اونچا ہونے لگا تو حکومت پریشان ہوگئی۔ وہ شیخ سعدی کی نصیحت بھول گئے کہ سرچشمہ کو ابتدا میں بند کیا جاسکتا مگر بھرے چشمے کوہاتھی کا پائوں بھی نہیں روک سکتا۔
تیسری بڑی فاش غلطی ہفتے کی شب اس وقت ہوئی جب مظاہرین کو وزیراعظم ہائوس میں گھسنے کی ہدایت کی گئی اور پولیس نے ان کو روکنے کے لئے آنسو گیس کی شیلنگ اور ربرکی گولیاں چلائیں بچے، خواتین اور خود پولیس والے زخمی ہوئے۔ اس عمل سے مظاہرین کی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ ہوگا۔ مظاہرین مشتعل ہوگئے ہیں ان کے مطالبوں میں شدت آگئی ہے، دیکھئے اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے اور بیٹھنے سے پہلے کتنا سبزہ روندتا ہے۔
تازہ ترین