گزشتہ کئی ہفتوں سے میری نوجوان اولاد اور ان کی معصوم اولادمیرے کمرۂ مطالعہ میں روزانہ بلا ناغہ رات کو ٹی وی کے آگے دھرنا دے کر بیٹھ جاتی ہے۔ اس دھرنے کو تشدد سے تتر بتر بھی نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ خون تو اپنا ہی ہے۔ میں نے تکنیکی مہارت استعمال کرتے ہوئے ٹی وی کی نشریات میں خلل ڈالنے کی بھرپور کوشش کی جسے ہنر مند پود نے بڑی چابک دستی سے ناکام بنا دیا۔ اب میرے پاس اپنے ہی ٹی وی پرقبضہ کرنے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں تھا مگر سوچا کہ اپنی املاک پر خود ہی حملہ کرنا کہاں کی بہادری ہوگی لہذا سادگی اور ہوشیاری کا ملا جلا نسخہ استعمال میں لاتے ہوئے جب یہ بچے حسب معمول Containerسے خطاب سننے کیلئے میرے کمرے میں داخل ہوئے تو میں نے پاکستانی دھرنا چینل تبدیل کرکے فٹ بال پریمئر لیگ دیکھنا شروع کر دیا۔ حاضرین مجھے فٹ بال کا کھیل دیکھتے ہوئے حیران توضرور ہوئے مگر احتراماً کھڑے ہونے کی بجائے بیٹھ کر خاموشی سے فٹ بال میچ کی بجائے مجھے دیکھتے رہے۔ میں تو یہ کھیل ازراہ مجبوری دیکھ رہا تھا اورمطالعہ کی میز پر بیٹھا اپنا کام بھی نپٹا رہا تھا تو بچوں کی سرگوشی میرے کان میںآپڑی۔ وہ آپس میں ایک دوسرے کو کہہ رہے تھے کہ ’’پاپا جان ہمیں خطاب سے محروم کرنے کیلئے فٹ بال کا کھیل دیکھ رہے ہیں حالانکہ انہوں نے زندگی میںکبھی کرکٹ کے علاوہ کوئی اور کھیل نہیں کھیلا اور ہمیں یقین ہے کہ انہیں یہ بھی علم نہیںہوگاکہ کونسی دو ٹیمیں آپس میں کھیل رہی ہیں‘‘۔ اپنی سادگی اور ہوشیاری کے فقدان کا اعتراف کرتے ہوئے میں نے خطاب کے سیلاب کا گیٹ کھول دیا۔ پھر کیا ہوا، کنٹینر سے خطاب اور میری طرف سے جوابی خطاب کا سلسلہ شروع ہو گیا جس سے حاضرین خاصے محظوظ ہوتے رہے۔ دوسرے روز کھیل کے چنائو کی ناکامی کے بعد میںنے شعبہ سائنس کا سہارا لیتے ہوئے دھرنے والوں کی آمدسے پہلے Discovery Channel لگا لیا۔ یہ دیکھ کر اس بار ابھرتی ہوئی پودنے احتراماً بیٹھنے کی بجائے مجھ سے براہِ راست مکالمہ شروع کیا اور بولی ’’پاپا آپ یہ پرانی اور بوسیدہ Discoveriesکیوں اتنے شوق سے دیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ نیا پاکستان تو Discover ہوچکا ہے‘‘۔ اس بار وہ نئے پاکستان کے بارے میں میرے پرانے خیالات سن کر خاصے مایوس ہوئے۔
قارئین کرام! میں اپنی ذاتی زندگی میںبیگم سے Dictationلینے اور بچوں سے ڈائیلاگ کرنے کا حامی رہا ہوں چونکہ بقولِ والد بیگم کا کہا ماننے والے نہ تو کوئی بُرا کام کرسکتے ہیں اور نہ ہی کوئی بڑاکام ۔ البتہ بچوں سے گفتگو عمر کے فاصلوں کو کم کرنے میں مدد گار ثابت ہوتی ہے۔ آجکل عمرانی اور قادریہ خطابات کی وجہ سے بچوں میں خون سے زیادہ بجلی دوڑ رہی ہے جسے لوڈ شیڈنگ سے ہی کم کیا جاسکتا ہے اس لئے میںنے بھی ان سے گفتگو خطاب کی صورت میں ہی کی جس کا آغازاے راہِ حق کے شہیدو کی بجائے فقط اے یزیدو سے شروع کیا اور تبدیلی آ نہیں رہی بلکہ آچکی ہے پر اختتام کیا۔ میرے اس خطاب کے چیدہ چیدہ اقتباسات آپ بھی سن لیں۔’’آئو بچو سیر کرائوں تم کو پاکستان کی جس کی خاطر ہم نے دی قربانی لاکھوں جان کی مگر افسوس یہ چوبیس سال کی نو عمری میں ہی دولخت ہوگیا اور اب حالات یہ ہیں کہ مزید دو لخت ہونے کی گنجائش تو باقی نہیں البتہ چار لخت ہونے کے آثارخاصے روشن ہیں۔ آپ چونکہ کرکٹ کے شیدائی ہیں اور اپنے کپتان کی باتیںآپ پرجلد اثر کرتی ہیں اس لئے میںاسی زبان میں اطلاعاً عرض کروں کہ یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ ہمارے ملک کی زندگی کے ستاسٹھ اووروں میں ہمارا بانی کپتان پہلے اوور میں ہی آئوٹ ہوا اور نائب کپتان کو چوتھے اوور میں Run Out کر دیا گیا۔ اس کے بعد ہمارے قائدین نے وہی کچھ کیا جو کر کٹ میں آجکل شاہد آفریدی کرتے ہیں! یہ سچ ہے کہ ہمارا سیاسی و معاشی نظام استحصالی ہے جس میں حکمرانوں نے عوام کو ہاریوں اور مُریدوں کی صورت میں جکڑا ہوا ہے۔ میں بھی آپ کی طرح تبدیلی کاخواہشمند ہوں مگر ایسی تبدیلی کا جس سے ملکی نظام میں تبدیلی آئے نہ کہ ملک ہی تبدیل ہو جائے۔ مجھے آپکے کپتان کی سوچ اور نیت پر قطعاً کوئی شک نہیںمگر اس سوچ کو عملی جامہ پہنانے کے طریقۂ کارپرمایوسی ہے۔ اگر یہی جوش و جذبہ، یہی للکار اور اسی طرح کا دھرناکبھی مقننہ کے اندراور کبھی باہر دیا جاتا اور بوقت ضرورت اگرہاتھا پائی ہوبھی جاتی تو کوئی مضائقہ نہیںتھا کیونکہ یہ عمل منفی ہونے کے باوجود جمہوری روایات کا حصہ تصور کیا جاتا ہے۔مہذب رویوں اور قانون کے احترام سے ہی مہذب معاشرہ تشکیل پاتا ہے جس کے بغیر اگر تبدیلی آبھی جائے تو وہ بے معنی ہو کررہ جاتی ہے۔ بچوآپ کی سوچ اور عمل میں تبدیلی دیکھ کریقین مانو میں بہت خوش ہوں اور محسوس کرتا ہوں کہ آپ انشاء اللہ وطن عزیزمیں وہ تبدیلی ضرور لے آئیں گے جس کا خواب علامہ اقبال اور قائد اعظم نے دیکھاتھا۔ آخر میں صرف اتنا ہی کہوںگا کہ میں اپنے آپ اور اپنے ہم عصروںکی کارکردگی پر نادم ہوں کہ ہم اپنی زندگیوں میں وہ کچھ نہ کر سکے جو ہمیں کرنا چاہیے تھا بلکہ مصلحتوں کا شکار رہے اور جہاں سچ بولنا تھا وہاں خاموش رہے نتیجتاًورثے میں بقول تمہارے دادا، پردادااور پرنانا سید ضمیر جعفری یہ کچھ چھوڑے جا رہے ہیں‘‘:
تھرڈ ورلڈ کے بچو!
ہم تمہارے ورثے میں
رات چھوڑے جاتے ہیں
چار سو لٹیروں کی
گھات چھوڑے جاتے ہیں
ظلمت و فلاکت کے
ساتھ چھوڑے جاتے ہیں
تم کو ان بلائوں کے
ہاتھ چھوڑے جاتے ہیں