• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
26ستمبر2003کو ایک تابناک ماضی ، بے مثال روایات کا حامل اور شاندار سیاسی جمہوری جدوجہد کی تاریخ رکھنے والا شخص ہمیں چھوڑ کر اللہ کو پیارا ہو گیا۔ آج کے حالات کو دیکھتا ہوں تو ان کی یاد بہت زیادہ آ رہی ہے۔ نئی ابھرنے والی سیاسی قیادت کو نہ جمہوری روایات کی پاسداری نہ عوام کو اکٹھا کرنے کا ادراک اور نہ ہی سیاسی تحریک کو منظم کرنے کی صلاحیت ۔ پاکستان کی آزادی تحریک سے لیکر جمہوری تحریکوں تک ایک نام ہمیشہ نمایاں رہا اور وہ نام ہے بابائے جمہوریت نوابزادہ نصرا للہ خان۔ پاکستان میں جب کبھی بھی جمہوریت کو خطرہ لاحق ہو ا یا سیاسی جماعتوں کے اتحاد کی ضرورت پڑی یا جمہوریت کے لئے تحریک چلانا پڑی تو کوئی دانشور اور سیاسی رہنما مرحوم کا ذکر کئے بغیر اور ان کو مشعل راہ بنائے بغیر آگے نہیں بڑھا ۔
نواب زادہ صاحب نصر اللہ خان 1918 میں خان گڑھ میں پیدا ہوئے ۔ ایچی سن کالج لاہور سے تعلیم حاصل کی۔ وہ 1933 تک ایک طالب علم رہنما کے طور پر معروف ہو چکے تھے۔ وہ اس عظیم الشان اور تاریخی اجتماع میں موجود تھے جس نے 23مارچ 1940 کی قرار داد لاہور پاس کی۔ آزاد ی کے بعد وہ 1952 میں صوبائی اور 1962 میں قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔ انہوں نے 1964 میں صدارتی انتخابات میں ایوب خان کے مقابلے میں محترمہ فاطمہ جناح کی بھر پور حمایت کی ۔ انہوں نے ایوبی آمریت کے خلاف اپوزیشن کی تمام جماعتوں کو متحد کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ اس طرح ڈیمو کریٹک ایکشن کمیٹی وجود میں آئی جس نے ایوب خاں کی حکومت کے خلاف عوامی جدوجہد کی راہ ہموار کی۔ نواب زادہ صاحب 1977 میں پاکستان قومی اتحاد کے اہم ترین رہنمائوں میں سے ایک تھے۔ 1977 کے الیکشن میں وہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے وہ قومی اتحاد کی طرف سے الیکشن کے لئے پیپلز پارٹی کے ساتھ مذاکرات کرنے والی ٹیم کے رکن تھے۔ لیکن جب مذاکرات کامیاب ہو گئے تو جنرل ضیاء الحق نے مارشل لا لگا دیا جس کی انہوں نے بھر پور مخالفت کی ۔
یہ نواب زادہ صاحب کا سیاسی کرشمہ تھا کہ وہ تحریک بحالی جمہوریت (M.R.D)میں نہ صرف پیپلز پارٹی بلکہ ان سیاسی جماعتوں کوبھی اکٹھا کرنے میں کامیاب ہو گئے جنہوں نے بھٹو حکومت کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ اسی پلیٹ فارم سے 1983 میں سول نا فرمانی کی تحریک شروع کی گئی جسے فوجی آمریت نے نہایت بے رحمی سے کچل دیا۔ اس تحریک کے دوران ہزاروں لوگوں نے قید و بند کی مصیبتیں جھیلیں اور جانوں کے نذرانے پیش کیے۔ ضیا آمریت نے انہیں پانچ سال تک گھر میں نظر بند رکھا ۔
1988کے صدارتی انتخاب میں انہوں نے غلام اسحٰق خان کا مقابلہ کیا۔ 1993 کے عام انتخابات میں وہ قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔ انہیں کشمیر کمیٹی کا چئیرمین بنایا گیا ۔ مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کے لئے انہوں نے بہت سے ملکوں کے دورے کئے اور ان کی کوشش کے نتیجے میں اسلامی ملکوں کی تنظیم کے سربراہی اجلاس منعقد کاسابلانکا میں ایک متفقہ قرار داد میں کشمیر کے مسئلے کو اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق حل کرنے کا مطالبہ کیا۔
نوابزادہ نصر اللہ نے اپنی زندگی میں عدلیہ اور میڈیا کی آزادی ، قانون کی حکمرانی ، اور انسانی حقوق کے لئے بھر پور جدوجہد کی، جمہوریت انکی محبوبہ تھی جس کے لئے وہ تمام عمر جد وجہد کرتے رہے ۔ جمہوریت کو اپنی منزل قرار دیتے تھے اور جمہوریت کو ہی ملک کے مسائل کا حل ۔ اس مقصد کے لئے سیاسی اتحاد قائم کئے ۔ انکا کمال یہ تھا کہ وہ اپنی چھتری تلے بڑے بڑے مخالفوں کو اکھٹا کر لیتے تھے۔ جنرل ایوب خان کے خلاف اتحاد بنایا ، ذوالفقار علی بھٹوکے خلاف پاکستان قومی اتحاد، جنرل ضیاء الحق کے خلاف تحریک بحالی جمہوریت ، میاں نواز شریف کے خلاف پاکستان عوامی اتحاد ، اور GDAجبکہ انکی زندگی کی آخری ’’تحریک‘‘اور سیاسی اتحاد ARDتھا جو کہ جنرل مشرف کے خلاف بنایا گیا۔
آج ملک میں عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری بظاہر علیحدہ علیحدہ میاں نواز شریف کے خلاف تحریک چلا رہے ہیں۔ اور اس مقصد کے لئے 44دن سے اسلام آباد میں دھرنا دے رکھا ہے ۔ بد قسمتی سے دونوں رہنمائوں کی دھرنا تحریک جمہوریت کے لئے نہیں ہے دونوں کا مقصد صرف اور صرف میاں نواز شریف کو ہٹانا ہے۔ عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کا جمہوریت پر شائد کبھی اتفاق نہیں تھا۔ مرحوم نوابزادہ نصراللہ خان نے ڈاکٹر طاہر القادری کو پاکستان عوامی اتحاد کی صدارت دے کر جمہوریت کی جدوجہد میں شامل کیا۔ بعد ازاں عمران خان کو بھی جمہوری تحریک میں شامل کر ا کر ایک نیا اتحاد GDAبنایا۔ یہ مرحوم کا ہی کمال تھا کہ ان دونوں رہنمائوں کو جمہوری سوچ نہ ہونے کے باوجود جمہوریت کے لئے کام کرنے پر مجبور کر دیا۔ وہ ان دونوں رہنمائوں کے بارے میں بھر پور رائے رکھتے تھے لیکن وہ کہتے تھے کہ اتحاد کو قائم رکھنے کے لئے Publicallyان خیالات کا اظہار نہیں کیا جاسکتا۔ مرحوم اخلاقیات اور شائستگی کے زبردست حامی تھے۔ جس سے آج کے سیاستدان محروم ہیں۔ آج سیاسی مخالفت کو دشمنی میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ انتخابی دھاندلی کے خلاف چلنے والی تحریک کو "جمہوریت مکائو"تحریک میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔
کاش پاکستان میں کوئی نوابزادہ نصراللہ کا متبادل ہوتا! مجھے یاد آتا ہے کہ 2007ء میں نیو یارک گیا تو آصف علی زرداری صاحب نے حکم دیا کہ میرے ساتھ واشنگٹن چلو ۔ ٹرین کے ذریعے نیو یارک سے واشنگٹن کا سفر اکھٹے کیا۔ اس دوران اہم بات یہ تھی کہ میں نے زرداری صاحب کو مشور ہ دیا کہ وہ پاکستان واپس آ جائیں اور پاکستان میںانکی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ میری ضرورت نہیں ہم سب بی بی کے کارکن ہیں ۔وہ سیاست کریں گی اور ہم انکو Followکریں گے ۔ میں نے ان سے عرض کیا کہ پاکستان میں نوابزادہ نصراللہ خان مرحوم اور انکی طرز سیاست کا gapہے جو کہ آصف زرداری پورا کر سکتا ہے۔ بے نظیر بھٹو کا خاوند ، بلوچ ، سندھ کا رہنے والا اور روانی کے ساتھ پنجابی بولنے والا سب کوقبول ہوگا۔ پاکستان میں اتفاق رائے کی سیاست کی بہت ضرورت ہے ۔ جس کے لئے آپ سے بہتر کوئی شخص نہیں ہو سکتا۔ زرداری صاحب نے کہا کہ اس مسئلہ کے لئے محمود خان اچکزئی بہتر ثابت ہوں گے۔
میں نے گزارش کی کہ ٹھیک ہے کہ وہ اچھے سیاستدان ہیں لیکن آپ ایک بڑی پارٹی سے وابستہ ہوتے ہوئے اس منصب کو بہتر سنبھال سکتے ہیں ۔ سفر ختم ہونے سے پہلے آصف زرداری نے میرے ساتھ اتفاق کر لیا اور کہا ہے کہ ٹھیک ہے ہم اس پر کام کرتے ہیں لیکن بے نظیر بھٹو کی شہادت کی وجہ سے اس منصوبے پر عمل کرنے کا وقت کبھی نہیں آیا ۔ آج سیاسی جرگہ اتفاق رائے کی کوشش کر رہا ہے تو کبھی حکومتی کمیٹی کام کر رہی ہے لیکن اتفاق ہےکہ ہونے کانام نہیں لیتا ۔ عمران خان اور طاہر القادری کو ساتھ رکھنے والا تو دنیا میں نہیں رہا اور اس کا متبادل ملنا بے حد مشکل ہے۔
تازہ ترین