• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
قصہ دل جس کو کل تم سنتے سنتے سو گئے
ہجراک پردردٹکڑا تھا اسی روداد کا
ایک ہنگامہ تو برپا ہے فراق اب کیا ضرور
سننے والا بھی ہو کوئی نالہ و فریاد کا
فراق گورکھپوری کے مندرجہ بالا اشعار حسب حال ہیں۔ اس وقت نالہ و فریاد کا سننے والا کوئی نہیں۔ دھرنوں نے اپنے پچاس دن مکمل کر لئےہیں۔ اب امید ہے کہ انہیں عیدالاضحیٰ کی چھٹیاں ملیں گی اور دھرنے والوں کو عید گھر پر کرنے کا موقع ملے گا۔ عمران خان کے لاہور اور میانوالی کے جلسوں نے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ دیئے ہیں اور دھرنوں کی ٹمٹماتی ہوئی لو کو پھر سے جلا بخش دی ہے ۔ دھرنے میں بیٹھنے والوں کے حوصلے کامیاب جلسے دیکھ کر دوبارہ بلند ہو گئےہیں اور وہ اپنے لیڈر عمران خان کے کرشمے کے معتقد ہو گئے ہیں۔ عمران خان نے میانوالی جیسے پسماندہ شہر میں جہاںگھریلوخواتین شاپنگ کےلئے بھی بازارنہیں جاتیں وہاں پر بھی سیکڑوں کی تعداد میں خواتین کو اپنے جلسے میں جمع کر لیا۔ یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ میں گزشتہ کالم میں لکھاتھا کہ عمران نے جو کام کرنا تھا وہ کردیا ہے عوام کے اندر آگہی پیدا کرنی تھی سو وہ عمران نے پیدا کردی ہے۔ ایک سابق وفاقی وزیر کو طیارے سے اتاردینے کا واقعہ عوام کے شعور کی بیداری کی جیتی جاگتی مثال ہے۔ 1970ء میں بھٹو نے عوام کو سیاسی شعور دیا تھا اور لوگوں نے اپنے سیاسی شعور کو استعمال کرتے ہوئے بڑے بڑے پیروں اور جاگیرداروں کو عام اور معمولی امیدواروں کے ہاتھوں شکست دی تھی۔ اس وقت بھی لوگ جاگ گئے تھے بلکہ کچھ زیادہ ہی جاگ گئے تھے۔ مزدوروں نے اپنی فیکٹریوںکے مالکان کا گھیرائو شروع کر دیا تھا۔ اس کے فوراً بعد مالکان نے اپنے دفتر فیکٹریوں سےہٹا کر آئی آئی چندریگر روڈ کی بلڈنگوں اور پی ای سی ایچ ایس کے بنگلوں میں منتقل کر دیئے تھے تاکہ جان تو محفوظ رہےمال تو بینکوں کا تھا۔ مگر افسوس کہ بھٹو کا دیا ہوا نظریہ آگے پروان نہ چڑھ سکا۔ اور وہ اپنے بعد ایک طویل مارشل لا چھوڑ گیا۔ ضیاءالحق کےحادثے کے بعد سیاسی میدان میں مکمل خلا تھا۔ بے نظیر صاحبہ نے الیکشن میں حصہ لینے کا اعلان کیا تو بھٹو کی قربانیوں کے عوض انہیں حکومت بنانے کی دعوت دی گئی مگر افسوس بار بار جیتنے کے باوجود وہ بھٹو کا نظریہ اور سوچ عوام میں دوبارہ بیدار نہ کر سکیں۔ بلکہ لوگ کمانے میں لگ گئے اور قربانیاں دینے والے عوامی نمائندے راتوں رات پجیرو،لینڈ کروزر میں بیٹھ گئے زمینوں کے مالک بن گئے۔ پیٹرول پمپ لگائے اور سیاست سب سے منافع بخش کاروبار بن گئی۔ یہی کچھ نواز شریف نے کیا۔ ضیاء الحق کے سائے تلےپھلنے پھولنے کے بعد ضیاءالحق کی بنائی ہوئی مسلم لیگ کو مسلم لیگ ن کا نام دیا۔ تحریک استقلال جو ان دنوں اصغر خان کے استقلال کی وجہ سے پاش پاش ہو رہی تھی۔ اس کے مایوس کارکن اور لیڈر بشمول نواز شریف ایک جگہ جمع ہو گئے۔بے نظیر حکومت کی ناکامی کے سبب انہیں بھی سیاسی خلا ءملا۔ یہ بھی تین مرتبہ جیت گئےمگر انہوں نے بھی اپنے اثاثے دن دگنے اور رات چوگنے بڑھائے اور آخر گو نواز گو کی منزل پر پہنچ گئے۔عمران خان کے بارے میں جاوید ہاشمی کے قسطوں میں کئے جانے وانے انکشافات یا الزامات اس کی سیاسی جدوجہد میں رخنہ ڈالنے کے لئےاگرچہ ناکافی ہیں مگر پھر بھی غور طلب ہیں۔ اب نیا الزام جاوید ہاشمی نے اپنی پریس کانفرنس میں لگایا کہ 10 کارکن مروانے یا کسی بڑی شخصیت کے قتل کا منصوبہ تھا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جب یہ منصوبہ لاہور سے چلنے سے پہلے تھا تو جاوید ہاشمی پارٹی کے صدر تھے ۔ ہماری قانونی زبان میں اس طرح کے بیانات کو AFTER THOUGHT کہتے ہیں۔ جس کا مطلب عام زبان میں یہ ہے کہ آپ کو یہ خیال بعد میں آیا۔ بعد میں آنے والے خیالات یا بیانات کی قانونی حیثیت نہیں ہوتی اور اسے قانون شہادت کے تحت (IMPROVEMENT) کہتے ہیں جو کہ بذات خود بھی کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔
مولانا طاہر القادری صاحب نے جو کہ14 اگست سے پہلے نوکریاں بانٹ رہے تھے اور انقلاب آنے کے بعد 21 صوبے بنا رہے تھے اب چار صوبوں میں ہی انتخاب میں حصہ لےکر پارلیمنٹ میں آنے کے لئے تیار ہو گئے ہیں۔ ایک بڑا یوٹرن لیا ہے مولانا نے، اس کے مضمرات کیا ہیں آخر وہ ان چار صوبوں کی کرپٹ اسمبلیوں میں اپنے پاکباز ممبروں کو کیسے لائیں گے۔وہ الیکشن میں گلوبٹ اور پومی بٹ کا مقابلہ کیسے کریں گے؟ وہ انتخابی مہم پر خرچ ہونے والےاربوں روپے کا انتظام چندے سےکریں گے؟ مولانا نہ تو جاگیردار ہیں اور نہ ہی بزنس مین۔وہ آصف زرداری اورنواز شریف کا مقابلہ کرنے کی مالی استطاعت نہیں رکھتے۔ پھر الیکشن کی بات کیوں کرتے ہیں۔ میرا مولانا کو مشورہ ہے کہ اپنی عبادت میں مشغول رہیں وہ بھی فی زمانہ اچھا کاروبار ہے۔ قارئین کو شاید یہ محسوس ہورہا ہوگا کہ میں اصل موضوع سے ہٹ رہا ہوں۔ نہیں مجھے موضوع کا خیال ہے مگر کیا کریں لکھتے وقت اس طرح کے فضول خیالات بھی دماغ میں آجاتےہیں جنہیں سمیٹنا خاصہ مشکل کام ہے مگر میں نے کر دیا ہے اور اصل موضوع کی طرف آتا ہوں جو کہ ہر شخص کا سوال ہے کہ ہونے والا کیا ہے؟ اگر یہ کہہ دیا جائے کہ کچھ نہیں ہوگا تو یہ بہت ہی آسان جواب ہے جو کہ مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنےوالا کوئی بھی دانشور فوراً آنکھیں بند کر کے دے سکتا ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ کافی حد تک یہی ہوا ہے کہ کچھ نہیں ہوا سوائے چین کے صدر اور قطر کےسربراہ کے دورے منسوخ ہوئے ہیں۔ ڈالر کی قیمت روپے کے مقابلے میں بڑھی ہے۔ ملک میں افراتفری اور جانوں کا ضیاع ہو رہا ہے۔ لوگ عمران خان کے دھرنوںسے محظوظ ہو رہے ہیں۔ قادری صاحب کی تقریریں عام ہو گئی ہیں۔ عوام کا سیاسی شعور بیدار ہو گیا ہے۔ دھرنے عید کے بعد بھی جاری رہنے کا امکان ہے کیونکہ قائدین 16 اور 19 اکتوبر کی تاریخیں دے رہے ہیں۔ کراچی میں پیپلز پارٹی نے 18 اکتوبر کے جلسے کو کامیاب بنانے کے لئے تجوریوںکے منہ کھول دیئے ہیں تمام بجلی کے کھمبوں پر پیپلز پارٹی کے جھنڈے لگائے جا رہے ہیں۔ مائی کلاچی کی پوری سڑک کو پیپلز پارٹی کے جھنڈوں سے مزین کر دیا گیا۔ ادھر دہشت گرد اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ میرے دیرینہ دوست فاروق اعوان پر حملہ انہیں کارروائیوں کا حصہ ہے ۔ خدا نے انہیں دشمن کے مذموم اور ناپاک ارادوں سے محفوظ رکھا۔ میری دعا ہے کہ خدا انہیں جلد صحت کاملہ و عاجلہ دے۔ اب اگر دھرنے ختم بھی ہو جائیں تب بھی تبدیلی دیوار پر نظر آرہی ہے۔ یہ بات میں نے اپنے گزشتہ کالم میں انتہائی وضاحت کے ساتھ لکھی تھی۔ ایک ہفتےمیں حالات نہیں بدلے۔عید قربان نزدیک آرہی ہے۔ اللہ کو پیاری ہے قربانی۔ اب خدا خیر کرے۔ عید کی چھٹیاں خیر و عافیت سے گزر جائیں اور دھرنے والے بھی عید گھر جا کر کریں۔ عید کے بعد حالات تبدیلی کی طرف تیزی سے بڑھیں گے۔ عدالتوں میں چلنے والی درخواستیں بھی رنگ لا سکتی ہیں۔ کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ بہرحال ہماری دعا ہے کہ جو بھی ہو ملک اور قوم کی بہتری کے لئے ہو۔ حکومتیں تو آنی جانی چیز ہیں۔ ملک قائم و دائم رہنا چاہئے آخر میں فیض احمد فیض صاحب کے اشعار قارئین کی خدمت میں پیش ہیں
سایۂ چشم میں حیران رخ روشن کا جمال
سرخیٔ لب میں پریشان تیری آواز کا رنگ
بے پیئے ہوں کہ اگر لطف کرو آخر شب
شیشۂ مے میں ڈھلے صبح کے آغاز کا رنگ
تازہ ترین