• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تکلیف نالہ مت کر اے درد دل کے ہوں گے
رنجیدہ راہ چلتے، آزردہ ہم نشیں بھی
کس کس کا داغ دیکھیں یارب غم بتاں میں
رخصت طلب ہے جاں بھی، ایماں اور دیں بھی
جاوید ہاشمی کی ملتان کے ضمنی الیکشن میں شکست کی خبر سن کر میر تقی میر کے مندرجہ بالا اشعار ذہن میں آئے۔ میرے خیال میں اس شکست کا فیصلہ تو دیوار پر لکھا ہوا تھا۔ جس انداز میں موصوف نے اپنی پارٹی جوکہ دھرنوں میں مصروف تھی کے راز افشا کرنے شروع کئے وہ انداز عوام کی اکثریت نے مسترد کردیا۔ بہت لوگوں نے اسے بے وقت کی راگنی قرار دے کر اس پر غور بھی نہیں کیا۔ اور سونے پر سہاگہ مسلم لیگ ن کے کارکنوں نے شیخ رشید کا ان کے ہوٹل میں محاصرہ کرکے کیا۔ یہ تمام چیزیں شکست خوردہ ذہن کی عکاسی کرتی ہیں۔ جب انسان کو اپنی شکست سامنے نظر آرہی ہوتی ہے تو وہ ڈوبتے ہوئے آدمی کی طرح چاروں طرف ہاتھ پیر مارتا ہے مگر اسے کنارہ نہیں ملتا اور وہ گہرے پانیوں میں ڈوب جاتا ہے۔ سیاست میں کوئی چیز حتمی نہیں ہوتی۔ آج کے ہارنے والے کل جیت بھی سکتے ہیں اور غلام محمد بلور کے کیس میں ایسا ہوا ہے۔ وہ انتخاب پی ٹی آئی سے ہار گئے تھے مگر ضمنی انتخاب میں جیت گئے۔ جہاں تک جاوید ہاشمی کی سیاسی شخصیت کا تعلق ہے تو ان کا اپنا ایک مقام ہے جوکہ انہوں نے بے وقت اور غلط فیصلوں کی بدولت خراب کیا۔ اول تو انہیں مسلم لیگ ن جس کے لئے انہوں نے قربانیاں دیں تھیں چھوڑنی ہی نہیں چاہئے تھی اور اگر چھوڑ دی تھی تو دوسری پارٹی میں شمولیت سے پہلے کچھ دوستوں سے مشورہ کرلیتے۔ آجکل لوگوں کا سیاسی شعور کافی بڑھ گیا ہے اور وہ پارٹیاں بدلنے والے لیڈروں کو پسند نہیں کرتے۔ ہاشمی صاحب کے کیس میں ان کے حلقے کے لوگوں نے یہ ثابت کردیا ہے کہ اب لوگوں کا سیاسی شعور کافی بیدار ہوگیا ہے اور وہ نعرے بازی کی سیاست سے مرعوب نہیں ہوتے، جاوید ہاشمی کی شکست کے برے اثرات مسلم لیگ ن کی سیاست پربھی منفی انداز میں مرتب ہوںگےمسلم لیگ ’’ن‘‘ کا گراف عوام کی نظروں میں کافی گرا ہے اور اب اس نقصان کی تلافی میں کافی عرصہ اور محنت درکار ہے پی ٹی آئی کی یہ جیت ان کی پارٹی کا گراف بڑھانے کے لئے کافی ہے مگر انہیں یہ فتح بڑے تحمل اور سکون سے برداشت کرنی چاہئے کیونکہ ایسے موقعوں پر ایک چھوٹی سی غلطی بھی رائی کا پہاڑ بنا دیتی ہے اور تمام شکست خوردہ عناصر ایک جگہ جمع ہوکر سازشوں میں مصروف ہوجاتے ہیں اور ہمیشہ نہیں تو اکثر ان کی شرارتیں رنگ لاتی ہیں۔ اور لوگ چھوٹی سی غلطی جس میں تکبر بھی شامل ہے سے جیتی ہوئی بازی ہار جاتے ہیں۔ بہرحال میری دعا ہے کہ جو کچھ بھی ہو ملک اور قوم کی بہتری کے لئے ہو۔
جاوید ہاشمی کو اب تھوڑا عرصہ سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرکے اپنی صحت پر توجہ دینی چاہئے۔ آجکل لوگ ایک ہی سوال پوچھتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ دھرنوں کا کیا ہوگا۔ دھرنے کیا اپنی موت خود مرگئے ہیں یا ابھی ان میں کوئی دم خم باقی ہے؟ میں گزشتہ روز اسلام آباد گیا تھا اور دوپہر کو سپریم کورٹ سے نکل کر ڈی چوک کی طرف روانہ ہوا۔ دن کے وقت بالکل سکون اور سناٹا تھا۔ کچھ نوعمر لڑکے آنے جانے والی گاڑیوں کو چیک کررہے تھے اور گاڑی سواروں سے ان کے شناختی کارڈ بھی طلب کرتے تھے۔ خیمے ویران پڑے تھے۔ ایک خیمے میں باربر شاپ بنی ہوئی تھی لوگ اپنے بال کٹوا رہے تھے ایک خیمے پر لکھا تھا انقلابی ناشتہ تیس روپے میں، انڈا، پراٹھا اور چائے۔ ایک خیمے پر لکھا تھا کپڑے تیس روپے میں استری کروائیں۔ مگر کوئی خاص رونق نہیں تھی۔ شاید دوپہر کا وقت تھا اس لئے۔ وہاں محفل رات کو جمتی ہے۔ مگر جیسا کہ دیکھنے سے محسوس ہوا کہ دھرنے دم توڑ چکے ہیں۔ اب ان کے رہنما بھی جلسوں پر زیادہ زور دے رہے ہیں اور قادری صاحب نے تو اپنے لوگوں کو انتخابات کی تیاری کا عندیہ بھی دیدیا ہے۔ گویا کہ وہ جو پرانی تقریریں تھیں کہ نواز شریف سے استعفٰی لئے بغیر اسلام آباد سے واپس نہیں آئیں گے اور انقلاب کے بغیر واپسی نہیں ہے۔ وہ تمام دعوے دم توڑ گئے ہیں۔ عمران خان کی تقریروں میں بھی تبدیلی قابل غور ہے۔ اب وہ فوری استعفٰی کا مطالبہ نہیں کررہے۔ بلکہ اپنے جلسوں کے لئے نومبر کے آخری اور تیسرے ہفتے کی تاریخیں دے رہے ہیں اس کا مطلب ہے کہ ابھی وہ نومبر تک استعفٰی لینے کے موڈ میں نہیں ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ وہ سپریم کورٹ میں نااہلی کیس کے فیصلے کے منتظر ہیں۔ ابتدائی سماعت تو ہو رہی ہے۔ کافی لوگوں کا خیال ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے ہی سے کوئی صورت حال واضح ہوگی کیونکہ بظاہر لانگ مارچ اور دھرنے تو ناکام ہوگئے ہیں اور حکومت کی تبدیلی کے کوئی آثار دھرنے اور لانگ مارچ کے نتیجے میں نظر نہیں آرہے۔ دوسری طرف یہ بھی محسوس کیا جارہا ہے کہ حکومت نے تمام کینٹینر اسلام آباد کی سڑکوں سے ہٹا لئے ہیں۔ پولیس کی نفری میں بھی خاطر خواہ کمی کردی ہے۔شاہراہوں کو عام ٹریفک کے لئے کھول دیا ہے۔ جس سے یہ احساس پیدا ہوا ہے کہ حکومت اور دھرنے والوں کی کوئی آپس میں انڈر اسٹینڈنگ ہوگئی ہے۔ یا ایمپائر نے کھیل کو ختم کرنے کا عندیہ دیدیا ہے اور اب یہ لوگ جلسوں کے ذریعے EXIT لے رہے ہیں۔ جلسے تو بے حد کامیاب ہیں اور اب دیکھئے کراچی میں 18؍اکتوبر کو ہونے والا جلسہ بھی کافی بڑے پیمانے پر ہوا ۔ آخر میں فیض صاحب کے اشعار قارئین کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔ ؎
دامن درد کو گلزار بنا رکھا ہے
آئو اک دن دل پرخون کا ہنر تو دیکھو
صبح کی طرح جھمکتا ہے شب غم کا افق
فیض، تابندگی دیدہ تر تو دیکھو
تازہ ترین