• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ادب اور صحافت کا مطالعہ کرنے کیلئے اسے جاننا، سمجھنا اور محسوس کرنا بنیادی تقاضے ہیں، صحافت کا راستہ ایک دشوار گزار اور منزل اس سے بھی دشوار ترین منزل ہے ہم نے جو دیکھا، سمجھا ہوگا اور محسوس کیا اسے کتنی کامیابی کے ساتھ دنیا تک پہنچایا ہے، حمید اختر نے یہی فعل کر دکھایا ہے زندگی کی طوالت اہم نہیں زندگی کا معیار بھی ضروری ہے، حمیداختر زندہ تھے تو بھی زندہ تھے، کومے میں تو جب بھی زندہ تھے اور اب وہ ہماری نظروں سے اوجھل ہیں تو بھی زندہ ہیں۔
میں حمید اختر صاحب سے بہت قریب بھی رہا ہوں اور ’’دور‘‘ بھی رہ گیا، یہ ان قربتوں کے چند لمحات، دن اور ماہ و سال کا بیان یا بیانیہ ہے جب ہماری آنکھوں کو ابھی اجالوں کی تھوڑی بہت پہچان تھی، دراصل دانشور کیلئے دو باتیں ضروری ہوتی ہیں ایک علم اور دوسرے بھی علم۔ وہ علم جو یوں سامنے رہے جیسے کتاب کھلی ہو اور یہ بظاہر سادہ بات اتنی آسانی سے حاصل نہیں ہوجاتی۔ حمید اختر زندگی بھر اپنی کمٹمنٹ کے ساتھ جئے اور کبر سنی کے باوجود کالم نگاری، سیکولرازم اور ترقی پسند کے فروغ کیلئے نہ صرف پاکستان بلکہ دور دراز کا سفر بھی کرتے رہے۔ حمید صاحب کا انتقال محض صحافت کا نقصان نہیں سیکولرازم کا نقصان ہے، انسان دوستی کا نقصان ہے، وہ ایسا شخص نہیں تھا جو بغیر ’’زندہ‘‘ رہے موت کی آغوش میں چلاگیا ہو وہ ایک اعلیٰ مقاصد کیلئے زندہ رہے اور ان کا ہدف ایسا تھا کہ اس نے دنیا و مافیا کو حتیٰ کہ اپنی ذات کو بھی درمیان سے نکال دیا تھا ذات کی نفی اور کمٹمنٹ انہیں سیاسی تجزیوں اور تبصروں کی جرات بھی عطا کرتی تھی جو آج کے خوشامدانہ دور میں مشکل سے ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔
حمید اختر کے انتقال کے بارے میں اگر یہ کہا جائے کہ یہ واقعہ ایک عہد کے خاتمے کے مترادف ہے تو یہ جملہ رسمی سا لگے گا لیکن حقیقت یہ ہے کہ ترقی پسندوں کے اولین قافلے کے سپہ سالاروں نے جس عہد کا آغاز کیا تھا کل ان کے انتقال سے اختتام کو پہنچ گیا، ایک ہمدرد کی آواز خاموش ہوگئی ایک زندگی سے معمور کالم مرگیا ہمہ خوبیوں اور اوصاف سے متصف حمید اختر ہمہ مقاصد اور جدوجہد کے اہم ترین شارح و شاہد تھے، وہ سرخ سویرے کے راہرو ہی نہیں بلکہ راہ بھی تھے جو اپنے لئے نہیں اوروں کیلئے جینے کو ترجیح دیتے تھے اور احساس جگاتے تھے کہ زندگی کا عزم اور حوصلہ تختہ دار پر بھی رقص کرتا ہے جیل کی کالی کوٹھری میں بھی اسکی گونج سنائی دیتی ہے۔
حمید اختر ایک فلمساز بھی تھے، وہ ان فلمسازوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے زمانے کے تغیرات کو محسوس کیا اور اسے سمجھا اور اپنی فلموں (سکھ کا سپنا اور پرائی آگ) میں اسے برتا بھی۔ میں ان کی فلم پرائی آگ میں معاون اعلیٰ ہدایتکار تھا میں نے بارہا یہ دیکھا کہ انہوں نے اصولوں کو کبھی صیلب پر چڑھنے نہیں دیا۔
حمید اختر نے اس وقت آنکھیں کھولیں جب ہندوستان میں جدوجہد آزادی کا جذبہ نقطہ عروج پر تھا اور اس جگہ آنکھیں کھولیں جسے بھگت سنگھ کا پنجاب کہتے ہیں جسے آج بھی حریت کے متوالوں کا مرکز کہا جاتا ہے وہ بائیں بازو کے دانشوروں کی طرح تقسیم ہند کو اپنی زندگی کا سب سے بڑا حادثہ قرار دیتے تھے ان کے خیال میں 1937 سے 1947 کے درمیان جو کچھ بھی ہوا وہ مذہبی جنگ نہیں تھی بلکہ اقتدار کے حصول کی جنگ تھی جس کے لئے سبھی اپنے اپنے مفاد کیلئے لڑرہے تھے ان کے لئے دیس، وطن اور مذہب صرف اقتدار حاصل کرنے کا ذریعہ تھا۔
حمید اختر جانتے تھے کہ صحافت عوام کے غم سے ہی زندہ رہ سکتی ہے اگر اسے عوامی مسائل سے دور کردیا گیا تو اس دشت کی سیاہی میں چاہے جتنے سنگ میل سر کرلئے جائیں نتیجہ صفر ہی رہے گا یہی وجہ تھی کہ وہ اپنے کالموں میں سماجی اور عصری مسائل جس طرح پیش کرتے تھے کسی اور صحافی کے پاس نظر نہیں آتا، انہوں نے صحافت میں بھی ترقی پسندی کو رمز و ایمائے کی دولت سے مالا مال کیا۔ حمید اختر نے کبھی دنیاوی مناصب اور شہرت کی عام مقبولیت کا تعاقب نہیں کیا ان کی علمی و صحافتی زندگی اور شخصی زندگی دونوں میں ایک رکھ رکھائو ملتا ہے، ان کا اٹھ جانا ترقی پسندی، صحافت اور معاشرہ کا بہت بڑا نقصان ہے۔
ہمارے ہاں عام طور پر فن کار کے فن کی طرف زیادہ توجہ دی جاتی ہے اور شخصیت کی طرف کم، حالانکہ فنکار کی اپنی شخصیت ہی اس کے فن کو سمجھنے کیلئے بہترین کسوٹی ہوتی ہے صحافت (بالخصوص آزاد صحافت) موجودہ زمانے میں ضمیر اور ضرورت کے درمیان کشا کش کے مسئلے سے دوچار ہے، خوشامد، چاپلوسی اور غیبت کے ذریعے روزی کمانے والوں کا صحافت میں میلہ سا لگا ہوا ہے جبکہ صحافت کا سب سے بڑا مقصد سچ کی تشہیر و تبلیغ ہے لیکن دنیا کے ایک ’’عالمی بازار‘‘ میں تبدیل ہونے کی ضرب صحافت پر بھی پڑی ہے لیکن حمید اختر کی زندگی اور شخصیت کا سب سے حسین اور خوبصورت پہلو یہ تھا کہ انہوں نے صحافت کو مقدس اور باوقار بنادیا اسے بازار کی بداخلاقی اور بلیک میلنگ سے بچایا، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی 88 سالہ زندگی کو وہ ہمہ گیریت عطا کی ہے کہ پاکستان نے اسے تاریخ میں رقم کرلیا ہے۔
وہ ایک انسان تھے ان کو فرشتہ ثابت کرنا مقصود نہیں ہے (اور ایسا وہ خود بھی نہیں چاہتے تھے) لیکن یہ بات شک و شبہ سے بالاتر ہے اور اس پر کوئی دوسری رائے نہیں کہ ان میں جتنی خوبیاں تھیں وہ کسی انسان میں کم ہی جمع ہوتی ہیں، میرے اور ان کے بہت سے دوست احباب مشترکہ تھے اس لئے میں جانتا ہوں کہ وہ اپنے دوستوں سے کس قدر محبت کرتے تھے اس سلسلے میں کئی واقعات بھلائے نہیں بھولتے جنہیں میں آئندہ کیلئے اٹھا رکھتا ہوں لیکن سچائی یہی ہے کہ وہ نجابت، شرافت، نیک نفسی اور احترام آدمیت کی وراثت رکھتے تھے۔ شرعی حکام کے پابند نہیں تھے لیکن خمیر میں نیکی بھری پڑی تھی۔ میں نے حمید اختر کی فعال زندگی سے یہ سبق سیکھا ہے کہ آدمی نظر بدل سکتا ہے نظریہ نہیں بدل سکتا۔
زیست کا مجھ پہ یہ حق ہے کہ میں جینا سیکھوں
موت کا کیا ہے جب آئے گی تو مرجائوں گا
آج جب میں یادوں کو سمیٹنے اور کاغذ پر منتقل کرنے بیٹھا ہوں تو دل سے ایک ہی آواز آرہی ہے کہ وہ ایک مثالی شخص تھے وہ نہ صرف یاد آتے رہیں گے بلکہ فیض صاحب کے ساتھ رہ رہ کر یہ کہنے پر مجبور کرتے رہیں گے۔
جنہیں جرم عشق پہ ناز تھا وہ گناہ گار چلے گئے
تازہ ترین