• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جلدی میں منہ سے لفظ جمالو نکل گیا
کہنا یہ چاہتا تھا کہ تم مہ جمال ہو
اک بار ہم بھی رہنما بن کے دیکھ لیں
پھر اس کے بعد قوم کا جو کچھ بھی حال ہو
دلاور فگار کے مندرجہ بالا اشعار آج کل کے سیاسی حالات دیکھ کر یاد آگئے میں نے اپنے پچھلے کالم میں دھرنے ختم ہونے کی پیش گوئی کردی تھی اور ڈی چوک کا دوپہر کے وقت آنکھوں دیکھا حال یعنی کہ منظر نامہ بھی پیش کردیا تھا۔ میری پیش گوئی آدھی سچ ثابت ہوئی اور علامہ طاہر القادری صاحب نے ڈی چوک سے دھرنا ختم کردیا۔ اب عمران خان بضد ہیں کہ ان کا دھرنا جب تک زندگی ہے قائم رہے گا۔ خدا انہیں طویل عمر دے۔ اگر انہیں حکومت مل گئی تو پھر دھرنے کا کیا ہو گا؟ مولانا بھاشانی کے بارے میں لطیفہ مشہور تھا کہ ایک دن انہیں خواب میں حکومت مل گئی تو انہوں نے بھاشانی مردہ باد کے نعرے لگانے شروع کردیئے۔ میں نے اپنے گزشتہ کالم میں لکھا کہ دھرنے والوں نے بڑے بڑے جلسوں کے ذریعے دھرنے سے Exit لیا تاکہ فیس سیونگ ہو جائے۔ عمران خان کا دھرنا محرم میں خود بخود ختم ہو جائے گا کیونکہ محرم میں گانے بجانے کے پروگرام نہیں ہوتے۔ عمران خان کچھ دن بنی گالہ میں آرام کریں گے اور پھر محرم کے بعد تازہ دم ہو کر آجائیں گےابھی تک سیاسی فضا صرف اسلام آباد اور پنجاب کی حد تک گرم تھی۔ اب اس کی حدت سندھ میں بھی آگئی ہے کراچی میں متحدہ کی پی پی پی سے علیحدگی کافی معنی خیز ہے۔ متحدہ کراچی، حیدرآباد، میرپور خاص ، نواب شاہ اور سکھر میں اردو بولنے والے لوگوں کی بڑی پاپولر جماعت ہے اور اس کا ووٹ بینک بہت بڑا ہے۔ متحدہ کی پیپلز پارٹی سے علیحدگی خطرے کی گھنٹی ہے کیونکہ جب متحدہ سخت اور کڑے فیصلے کرتی ہے تو سیاسی حالات ایک دم پلٹا کھاتے ہیں۔ کراچی میں اگر ہڑتالوں اور پہیہ جام کا سلسلہ شروع ہو گیا تو پھر عمران خان اور قادری صاحب کی الیکشن کے بارے میں پیش گوئیاں درست ثابت ہو جائیں گی۔ دونوں رہنما اگلے سال کو الیکشن کا سال کہہ رہے ہیں خدا خیر کرے ۔ ایسے حالات میں تیسری قوت کی مداخلت کے امکانات بڑھ جاتے ہیں ۔ ادھر سپریم کورٹ نے بھی صادق اور امین کا معیار مقرر کرنے کا عندیہ دیدیا ہے۔ وزیراعظم نااہلی کیس میں جسٹس جواد ایس خواجہ کا بیان کافی اہمیت کا حامل ہے۔
تمام اخبارات نے شہ سرخیوں سے سپریم کورٹ کے جج صاحبان کے ریمارکس شائع کئے ہیں۔ عدالت نے کہا کہ آدھی پارلیمنٹ بھی نااہل ہو جائےتو پروا نہیں۔ صادق اور امین کا معیار مقرر کریں گے یہ بیان انتہائی اہم نوعیت کا ہے۔ وزیراعظم نااہلی کیس کا حوالہ دیتے ہوئے عدالت نے کہاکہ کوئی جھوٹا شخص عوام کی نمائندگی نہیں کرسکتا یہ دیکھنا پڑے گا کہ بیان پارلیمنٹ کے اندر دیا ہے یا باہر۔ میں نے اپنے گزشتہ کالم میں لکھا تھا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ کافی حد تک سیاسی حالات پر اثر انداز ہو سکتا ہے اور حکومت میں تبدیلی کا سبب بھی بن سکتا ہے ان عدالتی ریمارکس سے میرے خیال کو تقویت ملتی ہے دھرنوں کی ناکامی اور جلسوں کی کامیابی نے سیاسی ماحول میں ملا جلا رجحان پیدا کردیا ہے۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ جلسے مسلسل دھرنوں کی وجہ سے کامیاب ہو رہے ہیں۔ بہرحال یہ ایسی ہی بحث ہے جیسے کہ ’’مرغی پہلے پیدا ہوئی یا انڈہ‘‘ ملک کے لا لینڈ آرڈر اور سیاسی حالات بیک وقت تیزی سے تغیر پذیر ہیں۔ ایم کیو ایم کی سندھ اور آزاد کشمیر کی حکومتوں سے علیحدگی، علامہ طاہر القادری اور جناب عمران خان کے یکے بعد دیگرے کامیاب جلسے کراچی میں ہونے والی قتل اور جرائم کی وارداتوں میں اچانک اضافہ، کوئٹہ میں بے گناہ ہزارہ افراد کی شہادت، مولانا فضل الرحمٰن کے جلسے میں خود کش حملہ آور کا ناکام حملہ۔ قوم پرست جماعتوں کی سندھ میں ہڑتال، ایم کیو ایم کا خورشیدشاہ کے بیان پر یوم سیاہ، خورشید شاہ پر توہین عدالت کا مقدمہ رجسٹر کرنے کیلئے عدالت میں درخواست سندھ حکومت میں برطرف ہونے والے اساتذہ کا احتجاج اور اسی طرح کے دیگر واقعات یہ صاف صاف اشارے دے رہے ہیں ۔
حکومت کس طرح تبدیل ہو گی یہ وہ سوال ہے جو ہر شخص پوچھتا ہے اٹھارویں ترمیم سے پہلے تو پاکستان کے آئین میں آرٹیکل 58(2)B تھا جسے صدر مملکت کسی بھی وقت استعمال کر کے منتخب حکومت کو گھر بھیج دیتے تھے۔ 90کی دہائی میں آرٹیکل 58(2)B کا بے دریغ استعمال ہوا اور چار مرتبہ حکومتوں کو کرپشن اورنااہلی کے الزامات کے تحت فارغ کیا گیا۔ مزے کی بات یہ ہےکہ یہ میوزیکل چیئرز کا کھیل بن گیا تھا کرپشن اور نااہلی کے تحت برطرف ہونے والی حکومت دوبارہ پہلے سے زیادہ نشستیں لے کر برسراقتدار ا ٓجاتی تھی اور سابقہ دور میں جو کرپشن اس سے رہ گئی ہوئی تھی سارے مالی نقصانات اور الیکشن کے اخراجات بھی پورے کر لئے جاتے تھے۔ 99میں مشرف کی حکومت آنے کے بعد تھوڑا وقفہ آیا مگر 2008 سے دوبارہ باریاں لینے کا وہی سلسلہ جو 90کی دہائی میں تھا شروع ہو گیا۔ پہلی حکومت کو عوام نے پانچ سال تک رو رو کر برداشت کیا اور بیلٹ کے ذریعے حکومتی ایوانوں سے بیدخل کیا شومئی قسمت دیکھئے کہ اب کے بار استحصالی قوتوں نے صوبے بانٹ لئے اٹھارویں ترمیم کے بعداب صوبوں میں بھی کافی بجٹ ہے اور کافی رقم ہے۔ ترقیاتی کام زوروں پر ہو سکتے ہیں۔ ن لیگ نے پنجاب لے لیا۔ پی پی پی کو سندھ مل گیا۔ ANP،خیبرپختونخوا میں ہار گئی اور عمران خان کو موقع مل گیا۔ بلوچستان قومی پارٹیوں کے حوالے کردیا گیا گویا کہ مل بانٹ کر کام کرو۔ عوام مشکل سے دوچار ہیں کیونکہ پچھلے پانچ سال کا حشر دیکھنے کے بعد عوام میں سکت نہیں ہے کہ اب مزید پانچ سال دیکھیں۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ عدالتی احکامات کے تحت دو کام ہو سکتے ہیں ایک تو یہ کہ الیکشن کمیشن کی دھاندلیاں ثابت ہو جائیں اور اس کے نتیجے میں سارا الیکشن کالعدم قرار دیدیا جائے اس طرح مرکزی اور صوبائی حکومتیں خود بخود ختم ہو جائیں گی۔ دوسری صورت یہ ہے کہ صادق اور امین کا Tester لگا کر دیکھا جائے کہ کتنے ممبران ایل بی ڈبلیو ہوتے ہیں اور اس طرح اسمبلی اپنی حیثیت کھو دیگی۔ ممبران کے انتخابات کالعدم قرار پائیں گے ۔بہرحال یہ سب قیاس آرائیاں ہیں جن کا فی الحال کوئی سر پیر نہیں۔ مگر چونکہ یہ ملک پچھلے 68 سال سے خدا کے سہارے چل رہا ہے لہٰذا یہاں کسی بھی وقت کوئی بھی معجزہ رونما ہو سکتا ہے میری دعا ہے کہ جو کچھ بھی ہو ملک اور قوم کی بہتری کے لئے ہو۔ عوام کے معاشی حالات درست ہوں، امن و امان کی صورت حال ٹھیک ہو، لوگوں کو میرٹ پر روزگار ملے، اقربا پروری بند ہو، رشوت ستانی ختم ہو، احتساب کا عمل تیز ہو، وی آئی پی کلچر کا خاتمہ ہو، سڑکوں کو وی آئی پی موومنٹ کے لئے بند کرنے کا رواج ختم ہو۔ آخر میں احمد ندیم قاسمی کی غزل کے حسب حال اشعار قارئین کی خدمت میں پیش ہیں
ہر لفظ میں ماضی کے کئی گیت گندھے ہیں
تاریخ کی اِک گونج ہے گویائی ہماری
مِٹ کر بھی ہیں دھرتی کے رگ و پے میں رواں ہم
دیکھو تو ذرا انجمن آرائی ہماری
تازہ ترین