• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یوں تو دنیا کی تاریخ میں مختلف ادوار میں کئی لیڈرز پر "غداری "کے الزامات لگتے رہےہیں لیکن اس لفظ کی تاریخ اور حقیقت صدیوں پرانی اور اس کاحسب نسب فوجی اصطلاح سے جاملتا ہے، وقت کے ساتھ ساتھ "غداری" کی سرایت میں وسعت اور گہرائی اس قدر آئی ہے کہ فوج ہی نہیں بلکہ کارزار سیاست سمیت ہرمیدان میں "غداری "کا لفظ سرعام ہوکر بےنیام اوربدنام ہوچکاہے،
قارئین دراصل "غداری "کا لفظی مطلب اعتماد کو ٹھیس پہنچانا یا اہم مقاصد دشمن کو آشکار کرکے دھوکہ دہی کا مرتکب ہوناہے جبکہ واضح تعریف یہ ہےکہ اپنے عہدے یا منصب کی حیثیت اور ذمہ داریوں میں غفلت برتتے ہوئے اس قدر آگے چلے جانا کہ قوم اور وطن کےلئے بدترین حتی کہ بقا کو نقصان کا باعث بن جائے۔ آج کی ہائی ٹیک دنیا نے "غدار" کےکام کو مزید آسان کردیاہے قوم وملک کےمفاد پر مبنی خفیہ رازوں کو فاش کرنے سے لے کر دشمن کو اپنے وطن کی حساس ترین معلومات کو مختلف ذرائع سے "لیک " کرنا بھی غداری کے ارتکاب کی بدترین مثال ہیں۔
جاپانیوں میں تاریخی طور پر مشہور ہے کہ جس درجے کی غلطی ہوگی سزا بھی اسی درجے کی ملے گی،یعنی ہاتھوں سے کی گئی غلطی کی سزا انگلی کاٹنا یا ہاتھ کاٹنا جبکہ عوامی و قومی راز کی افشا طرازی یا قوم سے دھوکہ دہی "غداری" کے زمرے میں آئےگا جس کی سزا "موت" ہے،بعین اسی طرح جیسےاسلام میں بھی معمولی جرم کی سزا معمولی، چوری یا ہاتھ سےسرزد جرم کی سزا انگلی سے ہاتھ کاٹنے اور قتل کی سزا قصاص یا دیت ہے جبکہ معاف کرنے کو عظیم بدلہ قرار دیاگیاہےتاہم قرآن نے غداروں اور منافقین کو ناقابل معافی قرار دیا ہے، ابھی چند دن پہلےایک عالمی مباحثے میں سننے کا اتفاق ہوا کہ شمالی کوریا کے سربراہ وطن کی حفاظت کے اہم امور پراجلاس میں مصروف تھے ،ایٹمی و سیکورٹی ایشوز پر فیصلے لئے جارہے تھے،اچانک نظر وزیردفاع پر پڑی جو اونگھ رہے تھے،کابینہ نے اپنےوزیر کوذمہ داریوں سے عہدہ برا ہونے کی بجائے خواب خرگوش کے مزے لینے پرابدی نیند کی سزا کا تعین کردیا۔
قارئین کرام ،بنیادی بیانیہ صرف ایک سطر سے واضح ہےکہ غداری ایک سنگین ترین جرم ہے جس کی سزا موت ہے،اور دل چسپ بات یہ بھی کہ جس دشمن کےلئے غداری کا ارتکاب کیا جاتاہے وہ بھی مطلب نکلنے کےبعد اپنے خریدے ہوئے" غدار" کو موت ہی کے عظیم خراج سے نوازتاہے۔معروف جنگجو کمانڈر ٹیپو سلطان کو شاید کبھی شکست نہ ہوتی اگر اس کی فورس میں غدار نہ ہوتے، پاکستان کےدولخت ہونے کے اہم اور بنیادی کردار مجیب الرحمان کے بارے میںروسی انٹیلی جنس کے سابق آفیسر مسٹر یوری بریزیمینوف اپنی تصنیف "ڈی سیپشن واز مائی جاب " اور ایک انٹرویو میں واضح اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ مجیب کو ہم نے اسٹیبلش کیا اور ضرورت پوری ہوگئی تو اسی کی فورس کے کمیونسٹ اپروچ کے بعض افسران کےہاتھوں اسےزندگی سے آزاد کرادیا، یہ امر بھی باعث حیرت نہیں کہ پاکستان کے اہم ترین منصب پر فائز رہنے والے اسکندر مرزا کے بارے میں کہاجاتاہے کہ اس نے زندگی کےآخری ایام برطانیہ میں گزارے، پھر گزر جانے کے بعد اسکے ہوٹل کے کمرے کابل برطانیہ کی "اعلیٰ ترین "شخصیت نے ادا کیا۔
بدقسمتی کہئے یا قوم کی بدنصیبی، وطن عزیز سے "غداری" کرنے والوں کو کبھی اور کسی بھی سطح پر سزا نہیں ملی،موجودہ حالات پر نظر ڈالیں بعض وجوہات کا زمینی حقائق سے بخوبی اندازہ لگایاجاسکتاہےکہ آئین پاکستان میں لکھا ہےکہ آئین شکن (غدار) کی سزا موت ہوگی لیکن عمل درآمد میں سنجیدگی سب کے سامنے ہے؟اپنے ائیربیسز اور شہریوں کو دوسروں کے ہاتھوں بیچنے والے کاکیا کرلیاگیا؟عام آدمی کی زندگی کو اجیرن بنانے کےلئے معاشی لائن توڑنے والوں کی سزا جزا کا کبھی سوچا تک نہیں گیا ؟ اورسونےپہ سہاگہ یہ ہےکہ اہم حکومتی وزیر جنرل ریٹائرڈعبدالقادر بلوچ نے قومی اسمبلی میں انکشاف کیاکہ ایم کیوایم کے بانی نے پاکستان کو دل سے تسلیم نہیں کیا ،تقریبا تیس سال قبل اس نےمزار قائد پر قومی پرچم جلایا اور جیل گیا تھا،لیکن کوئی ان سے پوچھے کہ اس "بانی "کو بنایا کس نے ؟کیا انہی کے ایک پیش رو اور گیارہ سال تک قابض رہنےوالےڈکٹیٹر نے مخصوص مقاصد کی خاطر اسےطاقتور اور منہ زورنہیں کیا؟ملک کے تیسرے طاقتور ڈکٹیٹر "کمانڈو" نے ہزاروں جرائم میں ملوث افراد کو این آر او نہیں دیا اور پھر نئی زندگی نہیں بخشی؟ سیکورٹی امورپر مباحثے میں ایک صاحب رائے نے کیاخوب کہا کہ اس بانی کی تیز طرار شخصیت سے ہمارے ملکی ادارے ہی نہیں پاکستان کے دشمن بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے اسی لئے تو "وہ "مقامی اسٹیبلشمنٹ کا ہونے کے باوجود عالمی اسٹیبلشمنٹ کی آنکھوں کا تارا بن گیا اور اب آئے روز پاکستان مخالف نعروں کے علاوہ پاکستان توڑنے کے ناپاک عزائم میں پرعزم ہے لیکن افسوسناک حقیقت یہ ہےکہ اسکاٹ لینڈ یارڈ چار سال سے اپنے اس شہری کے کیسز کی تحقیقات کررہاہے ثبوت ہونے کے باوجود کوئی کارروائی نہیں کی گئی اور شاید کبھی ہوگی بھی نہیں کیونکہ غدار اپنے ملک کے لئے جتنا خطرناک ہوتاہے وہ مقاصد کے حصول تک دشمن کا ہیروہی ہوتا ہے ،پروفیسر صاحب مزید بولے،ہمیں دنیا کے اس اصول کو کبھی نہیں بھولنا چاہئےکہ غداری کی سزا موت ہی ہوتی ہے اور غدار جس دشمن ملک کی منشا کےلئے یہ جرم سرزد کرتاہے وہ بھی اس کو بالآخرموت کا تمغہ ہی عنایت کرتے ہیں،واضح ہےکہ ہمارے بڑے بھی خود کچھ کرنے کی بجائے مندرجہ بالا انجام کےمنتظرہیں۔
یہ نکتہ بھی قابل غور ہےکہ اپنے راز یا معلومات دوسرے یا دشمن ملک کو دینا غداری ہے تو ملک میں ڈس انفارمیشن پھیلانا جس سے ملک میں انتشار و فساد پھیلے چاہے وہ قومی سوچ ،مذیبی سوچ، سماجی سوچ یا معاشرے کی اقدار کے خلاف نفرت پرمبنی سوچ ہی کیوں نہ ہو ،آخرکس زمرے میں آئے گی؟ پاکستان کی تاریخ تو اسی طرح کے انگنت واقعات سے بھری پڑی ہے جہاں کسی نہ کسی واقعہ یا حادثے کے پس منظر یا پیش منظر میں کسی کےملوث ہونے یا نہ ہونے کی بحث میں پڑکر غداری کے میڈل عنایت کردئیے جاتے ہیں،لیکن حقیقی کرداروں اور فن کاروں سے آنکھیں چرا لی جاتی ہیں۔تازہ مثال چاہئے توہرسال پاکستان اور کینیڈا کے درمیان پلٹنے ،جھپٹنے والے مولانا کی تین ستمبر کو "کروڑوں کے مجمع" سے پرجوش خطاب کی ریکارڈنگ نکال کرسن لیں،موصوف نے ایک ہی جھٹکے میں شریف برادران کو کچھ مہیاکردہ "ثبوت" لہرا کر "غدار"ثابت کرنے کی کوشش کی،ساتھ ہی موجودہ آرمی چیف اور انٹیلی جنس اداروں کو یہ "ثبوت "فراہم کرنے اور ایکشن کا مطالبہ بھی کردیا، غداری ثابت کرنےکاکیاہی عجب انداز ہےوہ بھی ایک بدیسی کا؟ دوسری طرف یہ بےلذت سچ بھی ہےکہ ماضی اور حال میں اپنےملک سےغداری کےمرتکب کو پکڑنا تو کجا دشمن کے پکڑے گئے جاسوس غداروں کو بھی باعزت رہا کردیا جاتاہے اور سربجیت جیساخطرناک جاسوس کا بھارت واپسی پر بطور ہیرو نہرو خاندان کےچشم وچراغ راہول گاندھی خود استقبال کرتے ہیں، حال یہ ہے کہ بلوچستان کی علیحدگی کی سازش سمیت فاٹا،کراچی اور خیبرپختون خوا کو لہولہو کرنے کی سازش کا اقرار کرنے والےرا کےایجنٹ کلبھوشن یادیو کی گرفتاری پر ملک کے منتخب اور مینڈیٹ کے مطابق قوم کو جوابدہ وزیراعظم دشمن کےعزائم کی مذمت تو دور کی بات اس سنگین عالمی جرم پربات تک نہیں کرتے،مسٹر مودی کو ٹیلی فون کرتے ہیں لیکن قبیح فعل پر Protest تک نہیں کرتے، سچ یہی ہے کہ جس ملک میں محض غداری کا ٹیگ لگانے کا ٹرینڈ ہو وہاں "غدار" نہ صرف بکثرت پائے جاتے ہیں بلکہ اس سے بھی برا یہ کہ جہاں "غداروں " کو سزا نہیں دی جاتی وہاں "غدار" خود رو موذی جنگلی پودوں کی مصداق مسلسل پیدا ہوتے ہی رہتے ہیں۔


.
تازہ ترین