• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بہت گھٹن ہے کوئی صورت بیاں نکلے
اگر صدا نہ اٹھے کم سے کم فغاں نکلے
فقیر شہر کے تن پر لباس باقی ہے
امیر شہر کے ارماں ابھی کہاں نکلے
ساحر لدھیانوی کے مندرجہ بالا اشعار پاکستان کا ساتھ دینے کے الزام میں جماعت اسلامی کے امیر مولانا مطیع الرحمٰن کو سزائے موت کی خبر پڑھ کر ذہن میں آئے۔ بنگلہ دیش میں قائم کی گئی جنگی جرائم کی کٹھ پتلی عدالت عوامی لیگ کے مخالفین کو چن چن کر سزائیں دے رہی ہے۔اس سے پہلے پروفیسر غلام اعظم کو 100 سال کی سزا سنائی گئی تھی جن کا جیل میں انتقال ہو گیا ۔ ہماری حکومت کی اس معاملے پر خاموشی اور یہ مؤقف کہ یہ بنگلہ دیش کا اندرونی معاملہ ہے، کسی حد تک جواب طلب ہے۔ یہ لوگ مشرقی پاکستان کے باشندے تھے۔ بنگالی ہوتے ہوئے بھی پاکستان اورحکومت پاکستان کے وفادار تھے اور ان کی کوشش اور خواہش یہ تھی کہ ملک نہ ٹوٹے۔ ملک ٹوٹ گیا، بنگلہ دیش بن گیا۔ یہ بنگالی بھی اپنے بنگال کے باشندے بن گئے پھر چالیس سال بعد جنگی جرائم کی عدالت بنی اور ان لوگوں کو جنھوں نے اس وقت پاکستان اور پاکستانی افواج کا ساتھ دیا تھا، گرفتار کیا گیا، فرد جرم عائد کی گئی اور اب ایک ایک کرکے سزائیں سنائی جارہی ہیں۔ یہ جماعت اسلامی کے تیسرے رہنماء کو سزا ملی ہے۔ ہماری حکومت نے ابھی تک اس سلسلے میں کوئی سیاسی بیان نہیں دیا۔ مجھے خارجہ امور سے زیادہ واقفیت نہیں ہے مگر پھر بھی عام شہری کی حیثیت سے میرے ذہن میں یہ خیال ابھرتا ہے کہ ان لوگوں کو پاکستان اور پاکستانی افواج کا ساتھ دینے پر سزائیں دی جا رہی ہیں۔ کیا ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اگربنگلہ دیش کو یہ شہری منظور نہیں ہیں تو یہ ہمیں دے دیئے جائیں۔ انہوں نے ہمارا ساتھ دیا تھا، انہیں جنگی قیدی سمجھا جائے۔ پوری دنیا میں جنگی قیدیوں کے تبادلے ہوتے ہیں، چونکہ یہ لوگ اس وقت پاکستان کے ساتھ تھے تو ہم ان کو اب بھی پاکستانی تصوّر کرتے ہیں، انہیں جنگی قیدی سمجھ کر ہمارے حوالے کیا جائے۔ اگر ہم چاہیں گے تو ہم خود مقدمہ چلا لیں گے۔ غیروں کے ہاتھوں پاکستان دوستوں کا جنگی جرائم میں نہ تو مقدمہ ہمیں منظور ہے اور نہ ہی کوئی سزا۔ اگرہم نورالامین کو کراچی میں دفنا سکتے ہیں تو جماعت اسلامی کے امیر کو بھی پاکستان میں رکھ سکتے ہیں۔ میرا حکومت کو مشورہ ہے کہ اپنے وزارت خارجہ کے ماہرین کو یہ ٹاسک دے اور اس پرکوئی پالیسی بیان فوری طور پر بنایا جائے اور جماعت اسلامی کے رہنمائوں کو پاکستان لایا جائے، ان کی رہائش اور روزگارکی فکرحکومت کو نہیں کرنی پڑے گی، جماعت اسلامی (پاکستان) ان کو سنبھال لے گی۔ مجھے امید ہے کہ اس موضوع پر کوئی مثبت قدم اٹھایا جائے گا۔ میرا پاکستان کے دانشوروں کو بھی یہ مشورہ ہے کہ وہ اس موضوع پر زیادہ سے زیادہ سوچیں اور دیکھیں اور اس مسئلے کا کوئی سیاسی حل نکالیں۔
اب میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کی شاندار کارکردگی پر ٹیم کے تمام کھلاڑیوں، کپتان اور منتظمین کو دلی مبارک باد پیش کرتا ہوں، خاص طور پر یونس خان کوجنھوں نے کئی ریکارڈ توڑے اور کئی برابر کئے، بہت بڑی کامیابی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس عظیم کھلاڑی کو بورڈ کی سیاست کی وجہ سے ڈراپ کر دیا گیا تھا اور شاید اس کے ان فٹ ہونے کا بہانہ بنایا گیا تھا۔ اس ملک میں میرٹ کی دھجیاں ہر شعبے میں ادھیڑی جاتی ہیں۔ابھی میں یہ سطور لکھ ہی رہا تھا کہ ٹی وی پر واہگہ (لاہور بارڈر) پر اندوہ ناک حادثے کی خبر نشرہوئی۔ خودکش حملہ آور نے 63 معصوم اور بے گناہ شہریوں کی جانیں لے لیں جن میں کراچی کے 7مکین، رینجرز کے کیپٹن سمیت 5اہلکار، 13خواتین اور 4 بچّے شامل ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اخباری بیان کے مطابق تین دہشت گرد تنظیموں نے دھماکے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ کتنی عجیب بات ہے؟ وکیل ہونے کی حیثیت سے میرا ذاتی خیال ہے کہ یہ ان تینوں تنظیموں کا کام نہیں،یہ کسی غیرملکی ایجنسی کا کام ہو سکتا ہے چونکہ ان تنظیموں کی پشت پناہی بیرونی طاقتیں کر رہی ہیں اس لئے انہوں نے شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے ذمہ داری اپنے سر لے لی تاکہ ان کے بیرونی آقائوں پر شک نہ ہو یا خبروں میں ان کا تذکرہ نہ ہو۔ ان کے آقائوں نے اپنا یہ کام ان سے بھی خفیہ رکھا ہو گا۔ بہرحال یہ قیاس آرائیاں ہیں اور حقیقت سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔ حقیقت تو اب ہماری تفتیشی ٹیمیں معلوم کریں گی اور معاملے کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کریں گی۔ بات یہ ہے کہ جو شخص اس دنیا سے چلا گیا اس کے لئے تو قیامت آگئی اور اپنے پیچھے لواحقین کو رنجیدہ چھوڑ گیا۔ غریب آدمی کے گھر میں جب نعش آتی ہے اور گھر کا واحد کمانے والا اچانک دنیا سے رخصت ہوجاتا ہے تو لواحقین کو ایک تو اس بات کا غم ہوتا ہے کہ اپنا پیارا بچھڑ گیا اور اب وہ دوبارہ نہیں آئے گا، دوسرا بڑا غم یہ ہوتا ہے کہ اب صبح کا ناشتہ، دوپہر کا کھانا اور رات کا کھانا کون کما کر لائے گا؟ یتیم بچّے کیسے پلیں گے اور مکان کا کرایہ کہاں سے آئے گا؟ ایک غم تو مرنے والے کا اور دوسرا غم اپنے معاشی قتل کا، اس پرغریب مرنے والے کا پورا خاندان روتا ہے۔ دھماکے کرنے والے ظالموں کو اگر تصویر کا یہ رخ دکھایا جائے تو شاید ان کے دل میں رحم آجائے مگر کہتے ہیں کہ ظالم کے دل میں نہ خدا کا خوف ہوتا ہے اور نہ ہی رحم، وہ اندرونی طور پر بہت بزدل ہوتا ہے اور شاید اسی بزدلی کی وجہ سے چھپ کر حملے کرتا ہے۔ ڈی جی رینجرز (پنجاب) کا بیان اخبارات میں شائع ہوا ہے کہ حملہ آور سیکورٹی حصار کی وجہ سے پریڈ کے اندر داخل نہیں ہو سکا اور اس نے خود کو باہر ہی پارکنگ ایریا میں اڑا لیا۔ سیکورٹی اداروں کو چاہئے کہ وہ اپنے اس حصار کو پارکنگ ایریا میں بھی لے جایا کریں کیونکہ تقریب کے اختتام پر لوگ سیکڑوں کی تعداد میں اکٹھے باہر نکلتے ہیں۔ان راستوں پر بھی سیکورٹی حصار قائم ہونا چاہئے۔ سیکورٹی کے انتظامات داخلی اور خارجی راستوں پر یکساں کئے جائیں۔ بے نظیر بھٹو صاحبہ کی شہادت بھی جلسہ گاہ سے واپس جاتے ہوئے ہوئی تھی۔ واپسی کے راستوں کی خاص طور پر حفاظت کریں کیونکہ لوگ تقاریب اور جلسہ گاہ میں ایک ایک کرکے آتے ہیں مگر واپسی پر اکٹھے نکلتے ہیں، تو واپسی پر سیکورٹی سخت ہونی چاہئے۔ میں نے سیکورٹی کے معاملات پر کوئی تربیت نہیں لی مگر جیسے پاکستان میں کسی شخص کو کوئی کام نہ آتا ہو وہ مشورہ ضرور دیتا ہے بالکل اسی طرح میں نے بھی مشورہ دے دیا ہے۔ ماہ محرم کے تقدّس کی وجہ سے پہلے دس روز سیاسی سرگرمیاں کافی حد تک تھم گئی تھیں اور ان سرگرمیوں کے تھمنے کا سب سے زیادہ فائدہ نواز لیگ اور ان کے وزرا جو پہلے کہیں چھپ گئے تھے، لے رہے ہیں اور اپنی عارضی فتح پر بہت خوش ہیں۔ انہیں معلوم نہیں کہ محرم کے بعد دوبارہ جلسوں کا سلسلہ شروع ہوجائے گا جو جلوسوں میں تبدیل ہوگا اور یہ دھرنے پہیہ جام، ہڑتالوں میںبھی بدل سکتے ہیں۔ 30نومبر کے بعد سیاسی فضا تیزی سے تبدیل ہوگی اور دسمبرسیاسی تبدیلی اور کڑے فیصلوں کا مہینہ ہوگا۔ یہ حکومت اگرچہ اپنی مدت پوری کرنے کی پوری کوشش کررہی ہے اور ابھی عوام کو پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں کمی کا ایک بہت اچھا پیکج دیا ہے، پنجاب میں زائد وصول شدہ بجلی کے بلوں کی واپسی کا فارمولا بھی بن رہا ہے، اس کے باوجود عوام کے دل میں حکومت بدلنے کی خواہش بیدار ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ لوگ اپنی بے بسی اور مایوسیوں پر حکومت وقت کو موردالزام ٹھہرا کر اس کی تبدیلی کے خواہشمند ہوں یا پھردھرنوں اور کامیاب جلسوں کا اثر ہے، کچھ تو ہے…! آخر میں فراق گورکھ پوری کے حسب حال اشعار قارئین کی خدمت میں پیش کرتا ہوں:
یہ تو نہیں کہ غم نہیں
ہاں میری آنکھ نم نہیں
موت اگرچہ موت ہے
موت سے زیست کم نہیں
تازہ ترین