• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
قربان کسی پہ دولت ہستی ہے آج کل
دِل چیز کیا ہے جان بھی سستی ہے آج کل
نالوں کے احتجاج سے برہم ہے آسمان
اوجِ فلک سے آگ برستی ہے آج کل
ملک کے موجودہ سیاسی اور معاشی حالات کے تناظر میں شکیل بدایونی کے مندرجہ بالا اشعار پسند آئے۔ اس ہفتے کی سب سے افسوسناک خبر خیرپور میں ہونے والا کوچ کا حادثہ ہے جس میں قیمتی جانوں کا زیاں ہوا۔ تمام مسافر مزدور طبقے سے تعلق رکھتے تھے اور تلاش روزگار میں اپنے آبائی شہروں سے کراچی خوشی خوشی مع بیوی اور بچوں کے آرہے تھے۔کچھ توکراچی ہی کے ہوگئے تھے اور عرصہ دراز سے یہیں کام کررہے تھے اورکراچی کی معیشت کا حصہ تھے۔اس اندوہناک ٹریفک حادثے میں ان کی اچانک موت انتہائی افسوسناک ہے اور میں اپنی اور اپنی پوری پاکستانی قوم کی طرف سے متاثرہ خاندانوں کے لواحقین سے اظہار تعزیت کرتا ہوں اور خدا سے دعاگو ہوں کہ مرحومین کو اپنے جوار رحمت میں جگہ اوران کے پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ چند سطریں لکھ دینا اور ہمدردی کا اظہار کرنا بہت آسان ہے مگر جس پر بیتتی ہے اصل حال تو وہی جانتا ہے۔ جن گھروں کا کمانے والا ا س دنیا سے یوں اچانک رخصت ہوگیا وہاں غموں کا کتنا بڑا پہاڑ پورے خاندان پر گرا ہوگا اس کا اندازہ تو متاثرہ خاندان ہی کرسکتا ہے۔ حکومت سے التماس ہے کہ چونکہ مرنے والوں کا تعلق غریب خاندانوں سے تھا لہٰذا انتہائی مستعدی سے صوبائی اور وفاقی حکومت متاثرہ خاندانوں کی فوری طورپر مالی معاونت کا اعلان کرے۔ میری عمران خان سے بھی درخواست ہے کہ خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت سے متاثرہ خاندانوں کو کچھ معاوضہ دلایا جائے کیونکہ زیادہ تر لوگوں کا تعلق خیبر پختونخوا کے ضلع سوات اور بحرین سے تھا۔ حکومتوں کے پاس بہت بجٹ ہوتے ہیں اور اگر سمندر سے ایک قطرہ نکل جائے گا تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ غریبوں کا بھلاہو جائےگا۔ اس دفعہ پہلی مرتبہ نیشنل ہائی وے کے حکام کے خلاف اس اندوہناک حادثے کے سلسلے میں ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔ یہ ایک بہت اچھا قدم ہے۔ بجلی کے محکمے کے خلاف پرائیویٹ لوگ کرنٹ لگ کر مر جانے والوں کی طرف سے دعوے دائر کرتے ہیں اور عدالتوں نےبہت مثبت فیصلےکرکے لوگوں کو معاوضہ دلایا ہے۔بجلی کے محکمے کے خلاف تارگر جانے اور لوگوں کے گھروں کے سامان جل جانے پر بھی ایف آئی آر درج ہونی چاہئے۔ یہ محکمے صرف نفع لے کر اپنی کمر سیدھی کرنے پر لگے ہوئے ہیں اور غریب عوام کے مسائل کی طرف کوئی توجہ نہیں ہے۔ میری تجویز ہے کہ ہائی وے پر گاڑیاں چلانے والے ڈرائیوروں کا ہوائی جہاز کے پائلٹوں کی طرح باقاعدہ طبعی معائنہ ماہر ڈاکٹروں سے ہر ماہ ہونا چاہئے۔بہت سے ڈرائیور شوگر اور بلڈ پریشر کے مریض ہیں جنہیںا پنے مرض کے بارے میں پتہ ہی نہیں۔ لمبی مسافت سے شوگر لیول کم ہوجاتا ہے اور بلڈ پریشر بڑھا ہوا ہوتا ہے۔ اس حالت میں وہ گاڑی چلا رہے ہوتے ہیں۔ بیشتر ڈرائیوروں کی دور کی نظر کمزور ہوتی ہےمگر وہ یہ کہہ کر چشمہ نہیں لگاتے کہ لوگ ہمارا مذاق اڑاتے ہیں۔ ہمارا ایک ڈرائیور تھا وہ کھڈوں میں گاڑی مارتا تھا۔ اسے آنکھوں کے ڈاکٹر کے پاس لے گیا تو اس کا نمبر مائنس 3نکلا۔ میں نے اسے چشمہ بنواکر دیا تو وہ لگاتا ہی نہیں تھا۔ کہتا تھا کہ لوگ میرا مذاق اڑاتے ہیں۔آخر وہ ہماری نوکری چھوڑ گیا مگر اس نے چشمہ نہیں پہنا۔ تو یہ تو آنکھوں دیکھا واقعہ ہے۔ اب ایسے بے شمار واقعات ہوں گے جو کہ ہماری نظر ہی میں نہیں ہیں۔ اس لئے درخواست ہے کہ اپنے ڈرائیوروں کا نظر کا معائنہ ضرور کروائیں۔ بلڈ پریشر اور شوگر بھی چیک کروائیں کیونکہ اگر ان کاتوازن خراب ہو تو انسان کی کارکردگی بری طرح متاثر ہوتی ہےاور ایسی حالت میں گاڑی چلانے سے حادثے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ مجھے امید ہے کہ متعلقہ حکام میری مندرجہ بالا باتوں پر غورکریں گے اور وہ تمام قوانین جو کتابوں میں لکھے ہوئے ہیں ان پر عملدرآمد کروائیں گے۔ انعام ندیم کا شعر ہے
ہے دھند میں ڈوبا ہوا اس شہر کا منظر
کیا جانیے کب تک یہ سماں یونہی رہے گا
اب آیئے ملک کے سیاسی حالات کی طرف۔ عمران خان اب جوڈیشل کمیشن جو کہ سپریم کورٹ کے ججوں پر مشتمل ہو انکوائری کروانے کیلئے راضی ہوگئے ہیں مگر اس میں ایجنسیوں کے افراد کی شمولیت کا عندیہ بھی دیدیا ہے۔ حکومت جو بظاہر سپریم کورٹ کے جج صاحبان پر مشتمل کمیشن قائم کرنے پر راضی ہے اور اس نے بقول اخباری اطلاعات چیف جسٹس صاحب کو اس ضمن میں خط بھی لکھ دیا ہے۔ جہاں تک ایجنسیوں کے نمائندوں کی شرکت کی بات ہے اس پر حکومت نے حیرت کا اظہار کیا ہے مگر ابھی تک انکار نہیں کیا۔ ایجنسیوں کے ممبران کی سپریم کورٹ کے ججوں کے ساتھ شمولیت کوئی درست بات نہیں ہے۔ یہ ہوسکتا ہے۔ ججوں پر مشتمل کمیشن ایجنسیوں کو اپنے حکم کے تحت ٹاسک دیدے کہ اپنی اپنی آزادانہ انکوائری کرکے مع ثبوتوں کے رپورٹ پیش کریں اور کمیشن اس رپورٹ پر ایجنسیوں کے سربراہ یا نامزد افسر کا بیان ریکارڈ کریں۔ اس افسر پر دوسرے فریقین کو جرح کرنے کی اجازت ہو۔ تو یہ معاملہ اس طرح حل ہوسکتا ہے۔ باقی جہاں تک رہا ایجنسیوں کو شامل کیا جائے یہ مطالبہ درست نہیں سپریم کورٹ کے جج کے ساتھ صرف جج ہی بیٹھ سکتا ہے دوسرے لوگوں کی گنجائش نہیں ہوتی۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جب پارلیمنٹ کی طرف دھرنے والوں کی پیش رفت ہوئی تھی تو اس وقت حکومت چھ میں سے پانچ مطالبات مان گئی تھی۔ مگر اب کوئی مطالبہ نہیں مان رہی۔ یہ ایک اور بڑی سیاسی غلطی حکومت سے سرزد ہوگی۔ حکومت قادری صاحب کے دھرنے ختم ہونے سے کافی آرام میں آگئی ہے مگر انہیں اندازہ نہیں ہے کہ یہ خوشی عارضی ہے دھرنے، جلسوں میں اور جلسے جلوسوں میں بدل سکتے ہیں اور جلوس پہیہ جام ہڑتالوں میں ڈھل سکتے ہیں۔ 30نومبر کو پی ٹی آئی کا عظیم الشان جلسہ ہونے والا ہے۔ مذکورہ جلسے کا پروپیگنڈہ پہلے سے زیادہ ہے اور عمران خان ایک مرتبہ پھر پر جوش نظر آتے ہیں۔ دوسری طرف حکومت نے بھی اپنے کاموں میں تیزی پیدا کردی ہے۔ وزیراعظم کا چین، جرمنی اور لندن کا دورہ کافی اہمیت کا حامل ہے۔چین کےساتھ جن معاہدوں پردستخط ہونے تھےوہ ہوگئےہیں،آئی ایم ایف سے قرضہ منظور ہوگیا ہے۔ ان تمام باتوں پر وزیراعظم بہت خوش ہیں اور لندن سے آنے والی تصویروں سے لگتا ہے کہ ایک مرتبہ پھر وزیر اعظم کا اعتماد بحال ہوگیا ہے۔ یہ خوشی کی بات ہے مگر اس کے باوجود ڈالر کی قیمت اپنی جگہ پر ہے اور تجارتی سرگرمیوں میں کمی کا رجحان ہے۔ میری خواہش ہے کہ ملک سے بدامنی ختم ہو اور لوگ خوشحالی کی طرف بڑھیں۔ ابھی یہ سطور لکھ ہی رہا تھا کہ ٹی وی سے داعش کے بارے میں خبر نشر ہوئی۔ القاعدہ کے بعد اب داعش سے ڈرایا جارہا ہے۔اگرچہ فی الحال پاکستان میں داعش کا کوئی وجود نہیں مگر چند بھتہ خور لوگ انٹرنیشنل نام لے کر مقامی لوگوں پر اپنی دہشت پھیلانا چاہتے ہیں اورکافی حد تک کامیاب ہورہے ہیںکیونکہ میڈیا پر اس طرح کی خبریں نشر ہورہی ہیں جن سے ان کی اہمیت میں اضافہ ہوتا ہے۔ ہمارے ارباب اختیار کو چاہئے کہ ان چیزوں کا سختی سے نوٹس لے تاکہ افواہیںجنم نہ لےسکیں۔ آخر میں احمد فراز کے اشعار موقع کی مناسبت سے پیش کرتاہوں
منزلیں ایک سی آوارگیاں ایک سی ہیں
مختلف ہو کے بھی سب زندگیاں ایک سی ہیں
کوئی قاصد ہو کہ ناصح، کوئی عاشق ہو کہ عدو
سب کی اِس شوخ سے وابستگیاں ایک سی ہیں
تازہ ترین