• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
شکوہ جور کرے کیا کوئی اس شوخ سے جو
صاف قائل بھی نہیں صاف مکرتا بھی نہیں
آج غفلت بھی ان آنکھوں میں ہے پہلے سے سوا
آج ہی خاطر بیمار شیکبا بھی نہیں
تھر میں ہونے والی روزمرہ کی ہلاکتوں کے تناظر میں فراق گورکھپوری کے مندرجہ بالا اشعار یاد آئے۔ ہر روز اخبارات میں تھر سے متعلق امدادی رقوم کے خرد برد ہونے کی خبریں جلی حروف میں شائع ہوتی ہیں۔ کبھی مٹی والی گندم چھاپہ مار کر پکڑی جاتی ہے کبھی دوائیں اور اسپتالوں کی صورت حال پر مختلف چینلوں پر ڈاکومنٹری فلمیں دکھائی جاتی ہیں مگر یہ خبر شائع نہیں ہوتی کہ اینٹی کرپشن ڈپارٹمنٹ نے کوئی مقدمہ قائم کیا یا کسی کی کوئی گرفتاری عمل میں آئی یا کوئی انکوائری مکمل ہوئی پچھلے دنوں بہت گرم خبر تھی کہ جناب منظور وسان صاحب نے کوئی بڑی اعلٰی رپورٹ تیار کی ہے اورکرپٹ عناصر کو نامزدکیا ہے اور وہ رپورٹ چیئرمین بلاول صاحب کو پیش کی جائے گی۔ مختلف اخبارات میں رپورٹ کے مندرجات بھی شائع ہوگئے لیکن فوراً ہی منظور وسان صاحب کی تردید آگئی کہ انہوں نے کوئی رپورٹ پیش نہیں کی اور ٹرانسپیرنسی کی جو تھوڑی سی امید پیدا ہوئی تھی اس پر بھی پانی پھر گیا۔ اسی طرح سیکورٹی آلات اور کیمروں کی خریداری اور اس میں ہونے والے گھپلوں کی خبریں بھی شائع ہوتی ہیں مگر کبھی کوئی کیس رجسٹر ہونے کی یا گرفتاری کی خبر شائع نہیں ہوتی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اینٹی کرپشن حکام مارشل لا لگنے کا انتظار کررہے ہیںکیونکہ سیاسی حکومت کے دبائو میں ان کے لئے کام کرنا نہ صرف مشکل ہے بلکہ ناممکن ہے۔ اپنے ہی آقائوں کے خلاف انکوائری اور پھر گرفتاری کسی دیوانے کا خواب تو ہوسکتا ہے مگر کسی ذی شعور اینٹی کرپشن افسر کی سوچ نہیں ہو سکتی۔ میں نے ٹی وی پر مناظر دیکھے کہ فوجی جوان تھر کے فاقہ زدہ لوگوں میں راشن تقسیم کررہے ہیں۔ میرے خیال میں سول انتظامیہ پر اعتماد ختم ہونے کے بعد لوگوں کی جانیں بچانے کے لئے مسلح افواج نے یہ ذمہ داری بھی قبول کی تاکہ ضرورت مند وں تک ان کا حق پہنچ جائے۔ آپ سوچئے کہ یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہماری سول انتظامیہ پر امدادی سامان کی منصفانہ تقسیم کے لئے بھی اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ عمران خان اور علامہ طاہر القادری کے جلسوں میں جوش و خروش سے حصہ لے رہے ہیں کیونکہ لوگوں کو اپنے دل کی بات لیڈروں کی زبانی سننے کا موقع ملتا ہے اور وہ اپنے دل کی بھڑاس یوں نکلتی دیکھ کر خوش ہوتے ہیں اور جوق در جوق عمران خان کے جلسوں میں شریک ہوکر تمام سابقہ ریکارڈ توڑتے ہیں۔ مرکزی حکومت اگرچہ اپنی کارکردگی بڑھانے اور اسے ٹرانسپیرنٹ بنانے کے لئے سرگرداں ہے مگر عام آدمی نہیں سمجھتا کہ مرکزی حکومت کا عمل دخل کہاں سے شروع ہوکر کہاں ختم ہوتا ہے اور صوبائی حکومت کہاں مطلق العنان ہوتی ہے۔ صوبائی حکومتوں کی طرف سے فنڈ کا غلط اور ناجائز استعمال کا اثر مرکزی حکومت پر بھی پڑتا ہے۔ مرکزی حکومت کے پاس نیب کا محکمہ ہے اگر وہ دل سے چاہیں تو صوبوں میں کرپشن کرنے والے لوگوں کے خلاف ریفرنس داخل کرسکتے ہیں۔اخباری رپورٹوں پر انکوائری کا آرڈر کرسکے ہیں۔ پہلے چیف جسٹس افتخار چوہدری صاحب اخباری خبروں پر کرپشن سے متعلق سوموٹو نوٹس لیتے تھے اور نیب نے ان کے حکم سے کئی انکوائریاں کیں اور اس طرح بہت سے ریفرنس ان لوگوں کے خلاف داخل ہوئے جو مقدس گائے تصور کئے جاتے تھے۔ اسٹیل مل، نیشنل بینک اور کئی دوسرے محکمے بشمول اولڈ ایج بینفٹ وغیرہ اس میں شامل ہیں جن کے افسران ابھٓی تک عدالتوں کے چکر کاٹ رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سوموٹو حکم کے تحت کی جانے والی انکوائریوں میں ایف آئی اے نے کئی ایسے لوگوں کو بھی رگڑ دیا جن کا ان کیسوں سے واسطہ نہیں تھا۔ بہرحال ایف آئی اے کو بھی چاہئے کہ وہ عدالتوں کے احکامات بجا لاتے ہوئےدرست کارکردگی کا مظاہرہ کریں۔ صرف اپنی جان چھڑانے کیلئے بے گناہ لوگوں کو نہ پھنسائیں۔ چند گناہگاروں کو بچانے کے لئے صاف ستھرے افسران پر کیچڑ نہ اچھالیں ہم تو صرف مشورہ دے سکتے ہیں باقی کام اینٹی کرپشن کے محکمے، ایف آئی اے اور نیب کا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان محکموں پر بے حد سیاسی دبائو ہوتا ہے مگر انصاف کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو عبور کرنے والے افسران کو لوگ مدت تک اچھے نام سے یاد کرتے ہیں۔ میں نے بھی نہ جانے کیوں اس فضول گھسے پٹے موضوع پر لکھنا شروع کردیا ہے۔ شاید تھر میں ہونے والی بچوں کی ہلاکتوں کی خبریں پڑھ کر اور ٹی وی پر دیکھ کر طبیعت جذباتی ہوگئی۔ اس موضوع پر جتنا بھی لکھا یا کہا جائے وہ بھینس کے آگے بین بجانے والی بات ہے ۔ بہرحال میں نے سوچا کہ میں بھی اپنے حصے کی شمع جلا جائوں۔ کچھ نہ کچھ کبھی نہ کبھی کسی نہ کسی پر شاید اثر ہوجائے۔
عمران خان کے 30؍نومبر کے جلسے کے بہت چرچے ہیں اور حفاظتی اقدامات کے طور پر حکومت بھی مستعد نظر آتی ہے۔ مگر حکومت کو پریشان نہیں ہونا چاہئے کیونکہ عمران خان آہستہ آہستہ وزیر اعظم کے استعفٰی کے مطالبے سے یوں واپس ہورہے ہیں جس طرح گرمیوں کے موسم سے سردیوں کا موسم آتا ہے۔ اب وہ لمبی لمبی تاریخیں دے رہے ہیں۔ دسمبر کے پروگراموں کا بھی اعلان کردیا ہے اور اب یہ نعرہ کہ اگلا سال الیکشن کا سال ہے پس پشت چلا گیا ہے۔ اب تقریروں کا موضوع آہستہ آہستہ تبدیل ہو رہا ہے اور کسی حد تک حکومت کی فوری تبدیلی کے امکانات منہدم ہوگئے ہیں۔ سیاسی تجزیہ نگار افغان صدر کی پاکستان آمد اور جی ایچ کیو میں جانا، فوجی تربیت کا معاہدہ اور بارڈر پر تعاون کی یقین دہانیاں، جنرل راحیل شریف کا کامیاب دورہ امریکہ اور ان کو ایوارڈ ملنا، آپریشن ضرب عضب کی کامیابی اور متاثرین کی گھروں کو واپسی کے کام کی ابتدا پر تمام عناصر مل کر حکومت کی قائمی اور جاری رہنے کے اشارے دے رہے ہیں۔ علامہ طاہر القادری صاحب واپس تشریف لے آئے ہیں میں نے اپنے کالموں میں لکھا تھا کہ وہ محرم کے بعد ضرور واپس آئیں گے سو وہ آگئے ہیں مگر اس دفعہ انقلاب کا نعرہ شاید وہیں چھوڑ آئے ہیں یا ابھی پھر اس نعرے پر تازہ دھار لگائیں گے۔ آخر میں مجروح سلطان پوری کے اشعار پیش خدمت ہیں۔
دشمن کی دوستی ہے اب اہل وطن کے ساتھ
ہے اب خزاں چمن میں نئے پیرہن کے ساتھ
مجروح قافلے کی میرے داستاں یہ ہے
رہبر نے مل کے لوٹ لیا راہزن کے ساتھ
تازہ ترین