• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یونہی بیٹھے رہو بس درد دل سے بے خبر ہوکر
بنو کیوں چارہ گر تم، کیا کرو گے چارہ گر ہوکر؟
فلک کی سمت کس حسرت سے تکتے ہیں، معاذ اللہ!
یہ نالے نارسا ہوکر، یہ آہیں بے اثر ہوکر (مجاز)
معذوروں کے عالمی دن پر پاکستان میں نابینائوں کے جلوس پر پنجاب پولیس کے آنکھوں والے اندھے اہلکاروں نے جو تشدد کیا اس پر ہر ذی شعور انسان کی آنکھ پر نم ہے، پورا ملک سراپا احتجاج ہے۔ معذوروں کی تو آنکھیں نہیں تھیں مگر پولیس والے اندھے تھے ۔ نو آبادیاتی نظام کی انگریز کی تربیت یافتہ پولیس اس جمہوری ملک میں 65سال گزر جانے کے بعد ابھی تک جمہوریت کے معنی نہیں سمجھی جبکہکرپٹ سیاستدان اپنی لوٹی ہوئی دولت کو بچانے کیلئے چوبیس گھنٹے جمہوریت کا راگ الاپتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جمہوریت کو کسی صورت نقصان نہیں پہنچنا چاہئے۔ حکومت کوئی بھی پارٹی کرے مگر جمہوریت قائم رہنی چاہئے۔ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے، جب ظلم معاشرے میں بڑھ جائے اور نابینا انسانوں پر پولیس اندھا دھند لاٹھیاں برسانے لگے تو پھر مظلوموں کے نالے خود بخود عرش بریں تک پہنچ جاتے ہیں۔خدا کے ہاں دیر ہے، اندھیر نہیں۔ میری دعا ہے کہ خدا ان عقل کے اندھے اہلکاروں کو عقل سلیم عطا فرمائے اور وہ اپنے فرائض حکومت کے ملازم ہوکر ادا کریں،کسی شخص واحد کی خوشنودی کیلئے اندھا دھند کام نہ کریں۔
مجاز کے مندرجہ بالا اشعار میں نے حسب حال پاکر عوام کیلئے لکھ دیئے تاکہ وہ بھی محظوظ ہولیں۔ اگر پولیس کے اہلکار چند لمحوں کیلئے اپنی آنکھیں بند کرلیں اور اپنے ساتھیوں سے کہیں کہ وہ انہیں دھکے دیں اور ڈنڈے برسائیں تو شاید وہ ان نابینا انسانوںکا دکھ تھوڑی سی دیر کیلئے محسوس کرسکیں۔ وہ نابینا حکومت سے کچھ بھی نہیں مانگ رہے تھے، وہ نہ تو عمران خان کی طرح کنٹینر پر بیٹھے تھے اور نہ ہی قادری صاحب کی طرح کوئی عالیشان تقریر کررہے تھے۔ وہ تو اپنی فریاد لیکر آئے تھے۔ اقتدار کے ایوانوں میں اپنی گزارشات پہنچانا چاہتے تھے مگر شاید یہ ان کے نصیب میں نہیں تھا۔ نصیب میں صرف دھکے ہی تھے سو وہ مل گئے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ظلم پھر ظلم ہے، بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔ اگر حالات اسی طرح چلتے رہے تو پھر لوگ خود ’’میرے عزیز ہموطنو‘‘ کو دعوت دیں گے کہ بھائی کسی طرح آئو اور ہمیں بچائو۔ کہتے ہیں کہ نابینائوں کی فریاد جلد سنی جاتی ہے، ہم بھی دیکھتے ہیں۔ ہے کہاں روز مکافات اے خدائے دیرگیر۔ ہمارے ملک میں اداروں میں کوئی ٹریننگ پروگرام باقاعدہ نہیںہے جو کہ موثر طریقے سے بھرتی ہونے والے اہلکار کی مکمل ٹریننگ کرسکے۔صرف پیسے کمانے کی ٹریننگ دی جاتی ہے اور اس میں ہر اہلکار دوسرے سے زیادہ ایکسپرٹ ہے اور سبقت لینا چاہتا ہے۔ مقابلے لگے ہوئے ہیں کہ کون کتنے کم عرصے میں کتنا زیادہ کماتا ہے۔اگر پولیس افسران کی درست ٹریننگ ہوتی تو نابینائوں کے اس اجتماع سے کوئی آنکھوں والا پولیس افسر خطاب کرتا اور انہیں لا اینڈ آرڈر سے متعلق اپنی مجبوری اور ڈیوٹی سے آگاہ کرکے ان کے نمائندہ وفد کو متعلقہ حکام سے ملوادیتا۔مگر وہاں ایسا نہیں ہوا۔ دھکے دیئے گئے اور تشدد کیا گیا۔ بہرحال وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کو چاہئے کہ وہ فوری طور پر اس تاثر کو زائل کرنے کیلئے نابینا افراد کو چیف منسٹر ہائوس میں دعوت دیں۔ان غریبوں کو اپنے ساتھ کھانا کھانے کا شرف بخشیں اور ان کے مسائل انہیں اپنے ساتھ کھڑا کرکے سنیں۔ اس سے ان کی دلجوئی ہوجائے گی اور ان کے اگر کوئی واقعی مسائل ہیں تو وہ بھی حل ہوجائیں گے۔ نابینا لوگوں کا اچھے ڈاکٹروں سے معائنہ کرایا جائے۔ان میں سے کافی لوگ قابل علاج بھی ہوں گے مگر غربت اور وسائل کی کمی کی وجہ سے اپنا علاج نہیں کراسکتے ہوں گے۔ ان کی مدد کی جائے اور معذوروں کے عالمی دن کے موقع پر ہونے والی زیادتی کے تاثر کو زائل کیا جائے۔ اب ملکی سیاست کی طرف بھی آجائیں۔ میں نے اپنے گزشتہ کالموں میں لکھاتھا کہ دھرنےناکام ہوگئے ہیں، اب یہ جلسوں میں اور جلسے جلوسوں میں اور جلوس پہیہ جام پڑتالوں کی طرف بڑھیں گے۔ عمران خان نے مختلف تاریخوں پر شہروں کو بند کرنے کاعندیہ دیا ہے۔اس میں کامیابی کی توقع کم ہے۔ شہر بند کرنے کیلئے سیاسی پارٹیوں کی ڈنڈا بردار تنظیمیں ہوتی ہیں جو پارٹی پروگرام پر عملدرآمد کراتی ہیں۔ پی ٹی آئی کی ایسی کوئی ٹیم ابھی تک منظرعام پر نہیں آئی۔ اگرچہ نوجوانوں کی بہت بڑی تعداد پی ٹی آئی کے ساتھ ہے، مگر وہ سب پر امن جوان ہیں، ہڑتال والے نہیں۔
تازہ ترین