• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزارتِ صحت کی مثالی کارکردگی اور پبلک سروس کمیشن کاطاقتور میرٹ

(گزشتہ سے پیوستہ)
ہمیں بتایا گیا ہے کہ پنجاب پبلک سروس کمیشن کی جانب سے 15 جون کو اسسٹنٹ پروفیسر پتھالوجی کی 9اسامیوں کیلئے اشتہار دیا گیا۔ ضروری کارروائی کے بعد اعلان کیا گیا کہ ان اسامیوں کیلئے یکم سے تین ستمبر تک انٹرویو ہونگے۔ رزلٹ کا اعلان 6نومبر کو کیا گیا، رزلٹ میں غیرمعمولی تاخیر کی گئی۔ اس دوران اچانک کمیشن کی ویب سائٹ پر نظر آیا کہ ان ہی سیٹوں کیلئے ایک مزید انٹرویو 2اکتوبر (یعنی اصل انٹرویو کے ایک ماہ بعد) کو بھی ہوا۔ یہ غیرقانونی تھا کیونکہ کمیشن کی رولز اینڈ ریگولیشنز 2000 کے کلاز 60 کے مطابق جب ایک بار انٹرویوز کی تاریخوں کا اعلان کر دیا جائے تو ان انٹرویوز کی تاریخ تبدیل نہیں کی جا سکتی ہے اور نہ کسی امیدوار کو انٹرویو کا دوبارہ موقع دیا جا سکتا ہے۔ مزید یہ کہ اس تاریخ کو کس کا انٹرویو ہوا، یہ کسی کو معلوم نہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ کسی طاقتور سفارشی کو نوازنے کیلئے یہ غیرقانونی ڈرامہ رچایا گیا۔ جب فائنل نتیجہ سامنے آیا تو نتائج افسوسناک اور حیرت انگیز تھے۔ ایک لیڈی ڈاکٹر، جن کا انٹرویو یکم ستمبر کو تھا اور وہ اس دن ’’غیرحاضر‘‘ تھیں اور انہوں نے انٹرویو دیا ہی نہیں تھا، نہ صرف منتخب ہو گئیں بلکہ ان کا میرٹ نمبر بھی سب سے اوپر قرار پایا۔ اسکے علاوہ ایک ڈاکٹر، جن کو اپنے انٹرویو والے دن کاغذات مکمل نہ ہونے کی وجہ سے انٹرویو لینے سے انکار کر دیا گیا تھا، وہ بھی طاقتور میرٹ سے منتخب ہو گئے۔ ایک اور لیڈی ڈاکٹر، جو کہیں پر اپنے آپ کو ایم ڈی بتاتی ہیں اور کہیں پر ایم فل، اور پی ایم ڈی سی کے ریکارڈ کے مطابق ان کی پی ایم ڈی سی کے دو رجسٹریشن نمبر ہیں۔ 40586-P اور 42586-P۔ ایسا ہونا ناممکن ہے کیونکہ کسی بھی ڈاکٹر کو پی ایم ڈی سی کا نمبر ایک ہی جاری ہوتا ہے اور پھر ساری عمر وہی نمبر رہتا ہے۔ کمیشن نے نہ تو ان کا ریکارڈ چیک کیا اور نہ اس غیرقانونی رجسٹریشن کی درستگی کروانے کی ضرورت محسوس کی۔اگر متذکرہ لیڈی ڈاکٹر کی (2014ء میں حاصل کی گئی) ڈگری کو مان لیا جائے تو اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ ان سالوں میں پاکستان میں نہیں تھیں بلکہ بیرون ملک زیرتعلیم تھیں اور ان کے پاس بھی اسسٹنٹ پروفیسر کیلئے مطلوبہ تدریسی تجربہ نہیں ہے۔ متذکرہ انٹرویوز میں امیدواروں کے تجربے کو کوئی اہمیت دی گئی نہ ہی ریسرچ ورک کو۔ حیرت انگیز طور پر 25سے زیادہ ایف سی پی ایس پاس امیدواروں کو مسترد کر دیا گیا اور کامیاب امیدواروں میں آدھے ڈاکٹرز ایم فل ہیں۔ کمیشن کے رولز ضابطہ اور پی ایم ڈی سی کے ضابطہ نمبر 14 کے مطابق ایف سی پی ایس کی ڈگری لیول 3بی ہے اور پی ایچ ڈی کے برابر ہے۔ 25 سے زائد ایف سی پی ایس پاس امیدواروں کی موجودگی میں اتنے زیادہ غیرتجربہ کار ایم فل امیدواروں کے انتخاب کا کیا مطلب ہے؟ اسکے علاوہ پی ایچ ڈی، ایم فل کے بعد ہوتی ہے، ایم فل کے برابر نہیں۔ دو سالہ دورانیہ کے دوران ایم فل کو کسی صورت بھی اور کہیں پر بھی ایف سی پی ایس پر فوقیت نہیں دی جاتی (سوائے متذکرہ انٹرویوز کے)۔ سب کو معلوم ہے کہ ایم فل کی جانب وہ لوگ جاتے ہیں جو کسی وجہ سے ایف سی پی ایس نہیں کر سکتے۔ اگر ضرورت ہو تو غیرمعمولی حالات میں ایم فل امیدواروں کو اسسٹنٹ پروفیسر رکھنے پر غور کیا جا سکتا ہے۔ صرف اس صورت میں اگر اسکے پاس ایم فل کے بعد دو سال کا ٹیچنگ کا تجربہ ہو۔ متذکرہ انٹرویوز میں جن ایم فل امیدواروں کو منتخب کیا گیا ہے، ان میں سے اکثر کے پاس ایم فل کے بعد دو سال کا ٹیچنگ کا تجربہ بھی نہیں ہے۔ ایف سی پی ایس کی ڈگری پی ایچ ڈی کے برابر ہے اسلئے ایم فل کی ڈگری رکھنے والے ایف سی پی ایس پاس امیدواروں کا انٹرویو نہیں لے سکتے لیکن ہوا اس کے اُلٹ۔
لاہور میں بہت سے سینئر اور تجربہ کار پروفیسروں کی موجودگی کے باوجود، انٹرویو لینے والے بورڈ میں صرف ایک ایف سی پی ایس پروفیسر تھے۔ اکثر ممبر نہایت جونیئر اور ایم فل تھے یعنی ایم فل پاس ممبران نے پی ایچ ڈی کے برابر تعلیم یافتہ امیدواروں کا انٹرویو کیا۔ یہ کون سا انصاف اور قانون ہے؟ مجموعی طور پر تمام منتخب ہونے والے امیدوار نہایت جونیئر اور کم تجربہ کار تھے اور تمام مسترد امیدوار ان سے زیادہ تعلیم یافتہ، زیادہ سینئر اور زیادہ تجربہ کار تھے۔ ایسے امیدوار جو عمومی طور پر زیادہ بہتر تھے اور بہتر تعلیمی کارکردگی دکھاتے ہوئے صرف ایک اس انٹرویو والے دن وہ فیل ہو گئے اور جو امیدوار منتخب ہوئے، وہ اس انٹرویو والے دن ’’سپرمین‘‘ بن گئے تھے؟ عجیب اور افسوسناک خبر تو یہ بھی ہے کہ ایک اور ڈاکٹر کو طاقتور میرٹ پر لاہور کے ایک میڈیکل کالج میں تعینات کیا گیا ہے۔ ان کے پاس ایم فل کے بعد دو سال کا مطلوبہ تجربہ ہی نہیں ہے جو اسسٹنٹ پروفیسر کی پوسٹ کی اہلیت کے لئے لازمی ہے۔ مگر وہ مذکورہ بالا کالج میں اسسٹنٹ پروفیسر تعینات ہو گئے ہیں لیکن ساتھ ہی سی ایم ایچ میڈیکل کالج لاہور میں ’’ایف سی پی ایس‘‘ کی ٹریننگ بھی مکمل کر رہے ہیں یعنی ایک وقت میں دو جگہ موجود ہوتے ہیں۔ یو ایس ایچ کے ریکارڈ کے مطابق متذکرہ ڈاکٹر 2004ء میں ایم بی بی ایس کے امتحان میں ’’میڈیسن‘‘ کے مضمون میں فیل ہو گئے تھے لیکن اس کے باوجود سپلی والے آگے نکل گئے جبکہ پہلی کوشش میں کامیاب ہونیوالے پیچھے رہ گئے۔
اس ملک میں یہی کچھ ہونا ہے؟ یہ میرٹ پالیسی ہے؟ ان سب انٹرویوز میں نہ کہیں پر کوئی میرٹ نظر آیا اور نہ کوئی قانون۔ تمام قوانین بھی توڑے گئے اور میرٹ بھی نظر انداز کیا گیا۔ یہ صرف چند مثالیں ہیں، تمام انٹرویوز میں بیشمار بے ضابطگیاں ہیں۔ خادم اعلیٰ اور محکمہ صحت کو فوری طور پر اس کا نوٹس لینا چاہئے اور ایک ایسی بااختیار کمیٹی بنانی چاہئے کہ جو افراد بھی اس سنگین بدعنوانی میں ملوث ہیں، انہیں عبرتناک سزا دی جائے اور ان تقرریوں کو غیرقانونی دیکر ازسرنو قطعی میرٹ پر انٹرویو کئے جائیں جو بھی منتخب ہو اسے ہی تعینات کیا جائے اور باقی تمام ایسی تقرریوں کو کالعدم قرار دیکر ’’طاقتور میرٹ‘‘ پر منتخب ہونے والے ڈاکٹروں کو ہمیشہ کیلئے نااہل قرار دیا جائے تاکہ تعلیم یافتہ اورسینئر ڈاکٹرز میں پھیلنے والی بے چینی کا خاتمہ ہو اور انصاف ملے۔ عمومی طور پر، انٹرویو میں ناکام قرار پانے والے اکثر امیدوار ایسے ہیں جو کئی کئی برس سے کنٹریکٹ اور ایڈہاک پر مختلف کالجوں میں ٹیچنگ کی خدمات سرانجام دے رہے ہیں اور کامیاب قرار دئیے جانے والے کئی ڈاکٹر ان کے شاگرد ہیں۔ کامیاب قرار پانے والے 2ڈاکٹر ابھی ایف سی پی ایس کی ٹریننگ کر رہے ہیں۔ مطلب یہ کہ انہوں نے ابھی ایف سی پی ایس کی ٹریننگ مکمل کر کے ایف سی پی ایس کا امتحان دینا ہے مگر کمیشن کی کمال فنکاری دیکھئے کہ انہوں نے ان کو 25 سے زیادہ ایف سی پی ایس پاس امیدواروں سے بہتر قرار دیدیا ہے۔
تازہ ترین