• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ جو غدار ہے اپنی ہی صف اول میں
غیر کے ہاتھ کی تلوار نہ ہونے پائے
(مصطفیٰ زیدی)
جہاد کے نام پر معصوم پھول جیسے بچوں اور خواتین اساتذہ اور بےگناہ افراد کے خون سے ہولی کھیلنے والوں کے بھیانک جرم نے پوری قوم کو متحد کر دیا ہے اور ہنگامی بنیادوں پر عوام نے اور حکومت نے دہشت گردوں سے نمٹنے کی ٹھان لی ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ میں اپنے انہی کالموں میں گزشتہ ایک سال سے بار بار تقاضا کر رہا تھا کہ فوجداری قانون میں تبدیلی کر کے فوجی عدالتوں کی طرز پر سمری طریقہ اختیار کیا جائے اور اسٹریٹ کرائم اور ڈکیتیوں اور دہشت گردی کی وارداتوں سے نمٹنے کے لئے مؤثر نیا عدالتی نظام دیا جائے۔ اس نظام کو لانے کے لئے ضابطہ فوجداری جو کہ 200 سال پرانا قانون ہے میں ترامیم کی ضرورت ہے۔ خیر اچھا ہوا۔ اللہ نے میری سن لی اور فوجی عدالتوں کے قیام کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اس کے لئے آئین میں ترمیم کر کے ان عدالتوں کے قیام کی منظوری دی جا سکتی ہے اور اب جب تمام سیاسی پارٹیوں نے مشترکہ طور پر فوجی عدالتوں کے قیام کی منظوری دیدی ہے تو یہ کام زیادہ مشکل نہیں رہا۔ تمام سیاسی جماعتیں مشترکہ طور پر آئینی ترمیم کو منظور کر لیں گی اور اس طرح فوجی عدالتیں دہشت گردوں کے کیسوں کے لئے قائم ہو جائیں گی جو کہ جلد اور مؤثر فیصلے کریں گی اور اس طرح دہشت گردی کی وارداتوں میں کمی آنے کا امکان بڑھ جائے گا نواز شریف کے پچھلے دور میں 1998 میں بھی ایسی عدالتیں قائم ہوئی تھیں اور ایک پھانسی لگ بھی گئی تھی لیکن اس کے فوراً بعد ’’محرم علی کیس‘‘ اور ’’لیاقت کیس‘‘ میں سپریم کورٹ نے بنیادی انسانی حقوق سے متصادم ہونے پر اور غیر آئینی ہونے پر ان عدالتوں کو کام کرنے سے روک دیا تھا۔ مگر اب چونکہ آئین میں ترمیم کے بعد پوری سیاسی قیادت کی منظوری سے ان عدالتوں کا قیام ہو رہا ہے تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ کوئی رکاوٹ نہیں آئے گی اور عدالتیں قائم ہو کر اپنا کام خوش اسلوبی سے کریں گی۔ پہلے فیز میں یہ عدالتیں دہشت گردوں سے نمٹ لیں۔ دوسرے فیز میں میرا مشورہ ہے کہ کرپشن کو روکنے کے لئے بھی اسی طرح کی عدالتیں بنائی جائیں اور کرپٹ سیاست دانوں کے کیس ان عدالتوں میں بھیجے جائیں جس سے بہت جلد کرپشن میں بھی کمی آئے گی اور اس ملک کے غریب عوام جن کے بجٹ کا ایک ایک پیسہ کرپشن کی نذر ہو جاتا ہے سکھ کا سانس لیں گے۔ مجھے امید ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ میری سابقہ تجویز کی طرح اس تجویز پر بھی عمل در آمد شروع ہو جائے گا اور کرپٹ لوگ پناہ گاہیں ڈھونڈتے پھریں گے۔ فوجی عدالتوں کے قیام پر پہلے کچھ سیاسی پارٹیوں کو تحفظات تھے لیکن اسی یقین دہانی کے بعد کہ ان عدالتوں کو کسی سیاسی مقاصد کے لئے استعمال نہیں کیا جائے گا اور سخت قسم کے دہشت گردوں کے کیس ان عدالتوں کو بھیجے جائیں گے تو تمام پارٹیوں نے ہاں کر دی اور اس تجویز کی منظوری دیدی۔ عوام کا دل ابھی بھی ٹھنڈا نہیں ہو رہا۔ اب وہ سرعام پھانسیوں کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ پرائم منسٹر نواز شریف کے پچھلے دور میں سرعام پھانسیوں کا حکم بھی ہوا تھا مگر اس وقت کے چیف جسٹس نے سوموٹو نوٹس لےکر آئین کے آرٹیکل 13 کے تحت سرعام پھانسیوں کو رکوا دیا تھا۔ ضیاالحق کے دور میں ایک بارہ سالہ بچے کے ساتھ زیادتی کے بعد قتل کرنے کے ملزمان کو سرعام پھانسی دے گئی تھی جسے ہزاروں لوگوں نے دیکھا اور سراہا تھا۔ اسلامی قانون میں تو یہ ہے کہ قتل کے ملزم کو اس کے مدعیوں کے سامنے پھانسی دی جائے۔ اگر دہشت گردوں کو سرعام پھانسی دینے کا انتظام ہو جائے تو عوام کا یہ مطالبہ بھی پورا ہو جائے گا۔ سعودی عرب میں موت کی سزا سرقلم کرکے دی جاتی ہے اور یہ سرعام دی جاتی ہے تاکہ لوگوں کو عبرت ہو اور جو شخص جرم کی تیاری کر رہا ہے وہ رک جائے۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب میں جرائم کا ریٹ دوسرے تمام ممالک سے کم ہے۔ وہاں جو لوگ منشیات کے جرم میں پکڑے جاتے ہیں ان میں اکثربےچارے غریب پاکستانی ہوتے ہیں جنہیں یہاں کے ایجنٹ استعمال کر کے بھیج دیتے ہیں اور وہ جب گرفتار ہو کر سزائے موت کی سزا پاتے ہیں تو ان کی نعش وصول کرنے والا بھی کوئی نہیں ہوتا۔ 16 دسمبر کا پشاور سانحہ آج بھی لوگوں کے دلوں میں تازہ ہے جب لاہور ہائیکورٹ اور کراچی ہائیکورٹ نے پھانسی کی سزائوں پر چند دن کے لئے حکم امتناعی دیا تھا جس سے عوام میں بے حد تشویش پیدا ہو گئی تھی۔ خدا کا شکر ہے کہ وہ حکم ختم ہو گیا۔ اب تاخیر حکومت کی طرف سے ہے۔ لوگ تو ہر وقت اچھی خبر سننے کے منتظر ہیں۔ میں لوگوں کی معلومات کے لئے یہ واضح کر دوں کہ یہ پھانسیاں کوئی نئی سزائیں نہیں ہیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو سیشن عدالت یا اسپیشل کورٹ نے سزائے موت کا حکم سنایا تھا۔ قانون کے مطابق سیشن جج صاحب کی سنائی ہوئی ہر موت کی سزا کو ہائیکورٹ کے دو جج صاحبان کنفرم کرتے ہیں اس کے بعد سپریم کورٹ میں اپیل کی اجازت کی درخواست (Leave to Appeal) داخل ہوتی ہے۔ یہ درخواست یا اپیل مسترد ہونے کے بعد صدر پاکستان کے پاس رحم کی درخواست داخل کی جاتی ہے۔ جب یہ درخواست بھی مسترد ہو جاتی ہے تو پھر متعلقہ عدالت سے بلیک وارنٹ ہوم ڈیپارٹمنٹ حاصل کرتا ہے اور ان وارنٹوں کی تعمیل میں ایک مجسٹریٹ اور ڈاکٹر صاحب کی موجودگی میں سزا پر عمل در آمد ہوتا ہے۔ یہ جتنے لوگ بھی پھانسی کے منتظر ہیں یہ مندرجہ بالا تمام مراحل طے کر کے آئے ہیں۔ ان کی اپیلیں تمام فورمزپر مسترد ہو چکی ہیں چونکہ 2008 میں پھانسیوں پر عملدرآمد روک دیا گیا تھا اس لئے اتنی تعداد میں لوگ جمع ہو گئے۔ اب پابندی ہٹا لی گئی ہے اور کام شروع ہو گیا ہے۔ آخر میں مصطفیٰ زیدی کے اشعار قارئین کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔
نظر پہ شام کی وحشت، لبوں پہ رات کی اوس
کسے طرب میں سکوں، کسی کو غم میں سیری ہے
بس ایک گوشے میں کچھ دیپ جگمگاتے ہیں
وہ ایک گوشہ جہاں زلف شب گھنیری ہے
تازہ ترین