• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کی ہر بڑی سیاسی پارٹی برسراقتدار آنے سے پہلے ہی بلند و بانگ دعوے کرنا شروع کر دیتی ہے کہ وہ ملک کو سوئٹزرلینڈ اور لاہور کو پیرس بنا دے گی مگر بدقسمتی سے جب وہ جاتی ہے تو ملک نائیجیریا اور لاہور تورابورا بن چکا ہوتا ہے۔ موجودہ حکومت کو برسراقتدار آئے کئی سال گزر چکے ہیں لیکن ابھی تک دعوے کرنے کا عمل جاری ہے جبکہ حقیقی میدان میں کوئی خاص کارکردگی نظر نہیں آرہی۔ صحت اور تعلیم کسی بھی قوم کیلئے دونہایت بنیادی شعبے ہوتے ہیں اور انہیں درست کئے بغیر کوئی کچھ نہیں کر سکتا لیکن موجودہ صاحبانِ اقتدار ان دونوں شعبوں میں بری طرح ناکام نظر آتے ہیں۔ اس ناکامی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ خود حکمرانوں کو ان دونوں شعبوں کا ذاتی طور پر کوئی علم نہیں اور بلکہ مزید ستم یہ کہ حکمران ان دونوں شعبوں کو بھی تجارتی نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں اور انہیں منافع کمانے کا ذریعہ سمجھتے ہیں اسی لئے سرکاری شعبہ روز بروز تنزلی کا شکار اور پرائیویٹ شعبہ راتوں رات ترقی کر رہا ہے۔ یہاں پر پرائیویٹ شعبے کو من مانیاں کرنے کی کھلی چھوٹ ہے کیونکہ ان لوگوں کا تعلق برسراقتدار پارٹیوں سے ہوتا ہے۔ یہ لوگ حکومتی عہدیداروں کو اپنے شیشے میں اتار کر من پسند منصوبے بنواتے ہیں اور مرضی کا منافع کماتے ہیں۔ ان لوگوں نے بڑے شہروں میں پرائیویٹ ہسپتال، میڈیکل کالج اور لیبارٹریاں قائم کر رکھی ہیں لیکن وہاں کی فیسوں کا سن کر عام آدمی کے اوسان خطا ہو جاتے ہیں۔ جس چیز کی قیمت سو روپیہ ہوتی ہے، یہ اسے دو ہزار میں بیچتے ہیں۔ لیبارٹری ٹیسٹوں، ڈاکٹروں کی فیسوں اور آپریشنز کے چارجز اس قدر زیادہ ہیں کہ صرف امیر لوگ ہی انہیں برداشت کر سکتے ہیں اور نادار لوگ صرف حسرت سے انہیں دیکھ ہی سکتے ہیں۔ حکومت اس میدان میں کچھ بھی نہیں کرتی حالانکہ حکومت کا فرض ہے کہ وہ عام آدمی کے حقوق کا تحفظ کرے اور پرائیویٹ سیکٹر کو ریگولیٹ کرے، انہیں من مانے نرخ مقرر کرنے سے روکے اور ایسے نرخ مقرر کرے جو حقیقت کے قریب ہوں جس میں مناسب منافع بھی ملے اور زیادہ سے زیادہ لوگ بھی اس سے استفادہ بھی کر سکیں۔ کوئی زمانہ تھا جب لوگوں کو سرکاری اداروں پر بہت زیادہ اعتماد تھا، لوگ سرکاری ہسپتالوں سے ٹیسٹ اور علاج کروانا زیادہ بہتر سمجھتے تھے لہٰذا بزنس کرنے والوں نے اعلیٰ عہدیداروں سے ملکر ایسی پالیسیاں بنوائیں جن سے سرکاری ادارے ویران ہو گئے اور عوام کی نظروں میں اپنی وقعت کھو گئے۔ آج حالت یہ ہے کہ لوگ بڑے بڑے سرکاری اداروں کی عام خون کی رپورٹس پر بھی اعتماد نہیں کرتے اور جب وہ اپنے مریضوں کو ان ہسپتالوں میں لیکر جاتے ہیں تو وہاں انتظامی بدحالی کی وجہ سے اس قدر دھکے کھانے پڑتے ہیں کہ لوگ وہاں سے کھسک جانے اور کسی پرائیویٹ ادارے سے اپنا علاج کروانے میں ہی غنیمت سمجھتے ہیں جہاں پہنچتے ہی دھکم پیل سے تو نجات مل جاتی ہے لیکن منافع خوری کا شکنجہ انہیں اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ اب جو صاحب ِ ثروت ہوتا ہے، وہ تو خوش رہتا ہے لیکن غریب اور مڈل کلاس کے لوگ اپنا گھربار بیچ کر ہی اپنی جان بچانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ انگریزی طریقہ علاج ایک تو ویسے ہی مہنگا ہے اوپر سے ہمارے منافع خور کاروباری حضرات نے اسے اور بھی زیادہ مہنگا بنا رکھا ہے۔ بس اللہ سے یہ دعا مانگنی چاہئے کہ وہ ہمیں بڑی بڑی بیماریوں سے بچائے رکھے ورنہ جس کو یہ بیماریاں بھگتنا پڑتی ہیں وہ تو فقیر ہو جاتا ہے اور بارہا ایسا بھی ہوتا ہے کہ مریض بھی نہیں بچتا اور اسکے خاندان والوں کے پاس سر چھپانے کا ٹھکانہ بھی نہیں رہتا۔ ہمارے ملک میں بیشمار بیماریاں پائی جاتی ہیں لیکن بعض تو باقاعدہ وبائی شکل اختیار کر چکی ہیں اور خاندانوں کو اجاڑتی جا رہی ہیں، مثلاً ہیپاٹائٹس کا مرض غریب لوگوں میں بہت تیزی سے پھیل رہا ہے۔ گھروں کی کفالت کرنے والے افراد اس کا شکار ہو رہے ہیں اور نتیجتاً گھروں کے گھر افلاس او رفاقوں پر مجبور ہو رہے ہیں۔ اس کی تشخیص اور علاج اس قدر مہنگا ہے کہ غریب آدمی کے بس کی بات نہیں اور سرکاری ادارے بہت کم افراد کو مکمل سہولتیں فراہم کر پا رہے ہیں اور اکثریت تو دھکے کھا کر موت کے منہ میں چلی جاتی ہے۔ یہ مرض نوجوان لوگوں میں بھی بکثرت پایا جاتا ہے جس سے ان کے کیرئیر کے سارے منصوبے چکناچور ہو جاتے ہیں۔ کسی چھوٹی موٹی ملازمت کیلئے بھی جب ان کا میڈیکل ٹیسٹ ہوتا ہے تو یہ ہولناک انکشاف ہوتا ہے کہ اس میںہیپاٹائٹس کے جراثیم پائے جاتے ہیں لہٰذا وہ اَن فٹ قرار دیدیا جاتا ہے۔ اگر کسی کو بیرونِ ملک کوئی موقع مل ہی جاتا ہے تو منفی میڈیکل ٹیسٹ کی وجہ سے وہ اَن فٹ قرار پاتا ہے جس سے اس شخص کو بیماری کے انکشاف کے ساتھ ہی ایک شدید ذہنی اذیت الگ ملتی ہے۔ اس طرح کے امراض ہمارے معاشرتی ڈھانچے میں مکمل جہالت اور حکومتی عدم توجہ کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ ہمارے ملک کا انفراسٹرکچر بیماریاں پیدا کرنے کی مشین ہے۔ آج بھی ہمارے ہاں ستر فیصد آبادی پینے کے صاف پانی سے محروم ہے۔ گنداپانی سینکڑوں ایسی بیماریاں پیدا کرنے کا باعث ہے جن کا علاج ممکن ہے بشرطیکہ عوام کو صاف پانی فراہم کرنے پر توجہ دی جائے۔
تازہ ترین