• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
(گزشتہ سے پیوستہ)
اگر ان سفارشات پر حکومت پاکستان و حکومت سندھ سنجیدگی سے عمل پیرا ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ تھر میں نوزائیدہ بچوں اور مائوں کی اموات کو روکا نہ جا سکے بھوک اور پیاس سے بلبلاتی مخلوق کو سکون ، خوراک، پینے کا صاف پانی اور صحرا کی تپتی زمین کو نخلستان میں تبدیل نہ کیا جا سکے۔ انہوں نے اپنی تحقیق میں جغرافیائی خدوخال کے ساتھ ساتھ تھر کی بودوباش، تہذیب وثقافت، مذہب، معاشی و معاشرتی زندگی، قدرتی وسائل اور ارضی و سماوی آفات کا بھرپور تجزیہ بھی کیا۔ انہوں نے اپنی تحقیق میں یہ بات ثابت کی کہ خشک سالی اس خطے کا مستقل مقدر نہیں اگرچہ بارش قلیل ہے۔ مگر پھر بھی بھوک اور پیاس کو اس قلیل بارش سے بھی کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ اس ضلع کے جغرافیائی خدوخال کی ناہمواریوں کے باوجود ہونے والی بارش کو ذخیرہ کیوں نہیں کرلیا جاتا؟ اگرچہ قدرتی طور پر نشیبی علاقوں میں قدرتی جوہڑ اور تالاب بن جاتے ہیں جن میں جانور اور انسان اکٹھے پانی پیتے ہیں اور یہ پانی دو سے تین ماہ میں خشک ہو جاتا ہے۔ افسوس تو یہ ہے کہ اس صحرا میں ہونے والی بارش کا ایک فیصد پانی بھی ہم ذخیرہ نہیں کر سکتے ۔ تھر کی زبوں حالی اور سسکتی زندگی کی اصل وجہ قلیل بارش یا عمومی قحط کی اصطلاح نہیں بلکہ افسر شاہی کی مجرمانہ غفلت اور اس علاقہ سے متعلق سیاست دانوں کی بے حسی اور ان کی روایتی سوچ کہ اس علاقے کی زندگی کبھی تبدیل نہیں ہو سکتی اور ان کی یہ بے حسی سیاسی و افسر شاہی گٹھ جوڑ کی بنا پر جنم لینے والی انتظامی ناکامی ہے۔ مویشی تھر کی زندگی کا انمول سرمایہ تھے اور ہیں۔ کوٹری بیراج اور جمرائو کینال بننے سے پہلے اس علاقے میں چراگاہیں وافر تھیں لوگ اپنے مویشی پالتے اور خوشحال زندگی بسر کرتے بیراج اور کینال بننے کے بعد چراگاہیں کم ہو گئیں اور ان کا نعم البدل مہیا کرنے کے بارے میں نہیں سوچا گیا ۔ قلیل بارش اور چراگاہوں کی کمی نے زندگی کو مشکل تر بنا دیا جس نے بعدازاں تھر واسیوں کو ہجرت پر مجبور کیا۔ تھر کے اندر زیرزمین پانی کا وافر مقدارمیں ذخیرہ موجود ہے جس کو آر او پلانٹس کی تنصیب کے ذریعے پینے کے قابل بنایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے فوری انتظامی اصلاحات کے مستقبل اقدامات بھی تجویز کئے ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر تھر کی معاشی و معاشرتی اور سماجی زندگی کو صحت، تعلیم، روزگار کے معیارات کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ حیران کن بات ہے کہ تھر میں زیرزمین پانی تقریباً 1.5 بلین ایکڑ فٹ موجود ہے مگر اس کو نکالنے کیلئے کوئی حکومتی اقدامات نہیں کئے گئے۔ بارش کا پانی جوکہ ہر سال اکٹھا کیا جاتا ہے‘ وہ صرف 0.06 فیصد ہے جبکہ اصل ضرورت صرف 0.25 فیصد ہے۔ فطرت پانی کے بارش کی صورت میں بھی انتہائی مہربان ہے مگر ہم نے اسے اپنی نالائقی اور نااہلی کی بناء پر اس پانی کو اکٹھا نہیں کیا۔ افسوسناک بات تو یہ بھی ہے کہ ایک عورت روزانہ پانچ سے چھ کلومیٹر کا سفر پچاس سے ساتھ لیٹر نمکین اور کڑوے پانی کیلئے کرتی ہے۔
2014ء میں پیدا کئے گئے تمام حالات درحقیقت انتظامی ڈھانچے میں مرکزیت کا سبب ہیں۔ چونکہ اختیارات کو یونین کونسل اور بنیادی مرکز صحت کی سطح تک منتقل نہیں کیا گیا لہٰذ ا دوردراز صحرائی علاقوں میں بسنے والی آبادی کو ذرائع آمدورفت اور سفری سہولیات میں مسائل کا سامنا درپیش ہے۔ سرکاری افسران و اہلکاروں کی نااہلی‘ کرپشن اور نالائقی کی واضح مثالیں پائی گئی ہیں لیکن اسکے باوجود احتساب کا کوئی نظام وضع نہیں کیا گیا۔ سیاسی و انتظامی افسران کے درمیان گٹھ جوڑ کی بنیاد پر اس ڈھانچے میں اپنی کوئی کارکردگی نظر نہیں آئی۔ بیوروکریٹس بھی صحرائی گِدھوں کی طرح کرپشن اور کک بیکس میں بری طرح پھنسے ہوئے ہیں۔ ضلع تھر بنیادی طور پر خط سرطان (23.5ڈگری) سے تھوڑا سا اوپر واقع ہے لہٰذا درجہ حرارت میں تھوڑا سا بھی اضافہ بارش کو مزید کم اور خشک سالی میں اضافہ کر سکتا ہے۔ گلوبل وارمنگ کے تھر کے موسمی حالات پر بہت برا اثر ڈال سکتے ہیں جس سے خوراک اور چارے میں مزید کمی واقع ہو سکتی ہے۔ ماں اور بچے کی اموات اس وقت تھر کا سب سے بڑا مسئلہ ہے لہٰذا اموات کو روکنے کی وجوہات معلوم کرنے کے بعد ہر تحصیل میں بحالی سنٹر قائم کئے جائیں جہاں نوزائدہ، نومولود بچوں کے ساتھ ساتھ غذائی قلت کی شکار مائوں کو روزانہ کی بنیاد پر ناپ تول کر کیلوریز کے مطابق خوراک دی جائے۔ غذائی کمی کو پورا کرنے کا کم از کم معیار 2350 کیلوریز روزانہ کے حساب سے خواتین اور بچوں کو ان کے معیار کے مطابق دودھ اور خاص نمکول دئیے جائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ یہ اموات کا سلسلہ نہ رک سکے۔ تربیت یافتہ ڈاکٹرز کیلئے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن سے رابطہ کیا جائے۔ کمشنر میرپور خاص نے اس وقت تھر میں ایمرجنسی کا نفاذ کیا ہوا ہے مگر جمعہ 12 بجے سے لیکر سوموار تک افسران اور عملہ چھٹی پر ہوتا ہے، حتیٰ کہ ڈپٹی کمشنر تھر کا دفتر بھی بند ہوتا ہے‘ یہ سب کچھ تھر کے محروم عوام کے ساتھ ایک سنجیدہ مذاق سے کم نہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ تھر میں پیدا ہونیوالی صورتحال پر قابو پانے کیلئے وہاں کے ہسپتالوں، بنیادی مرکز صحت اور ڈسپنسریوں کی تمام خالی آسامیوں کو فی الفور پُر کیا جائے‘ دُور دراز علاقوں میں ڈاکٹروں کو ہسپتال پیکیج پر تعیناتی کو یقینی بنایا جائیگا۔ مٹھی سے ڈپلو سمیت نوکوٹ، مٹھی، اسلام کوٹ، نکرپارکر تک سپلائی لائنز کو فوری بحال کیا جائے‘ یہ تمام پانی کی لائنیں تالابوں سے منسلک ہیں۔ فی الحال خشک اور خوراک اور جانوروں کیلئے چارہ کو ضلعی افسران کمیٹی ہر یونین کونسل سطح تک فراہمی کو یقینی بنائے۔ ضلع کی 44یونین کونسلز کو متحرک کرنے کیلئے اختیارات کو نچلی سطح پر فوری طور پر منتقل کیا جائے تاکہ دوردراز ریگستانی علاقوں میں موجود آبادی کو یونین کونسل کے سیکرٹری کے ذریعے خوراک و چارہ فراہم کیا جا سکے او رصحت کی بنیادی سہولیات فراہم کی جا سکیں۔ صحرائی صورتحال سے نجات کیلئے کوٹری بیراج سے نیچے 30 ملین ایکڑ فٹ پانی ہر سال بحیرۂ عرب میں چلا جاتا ہے جبکہ صرف 8.5 ملین ایکڑ فٹ پانی سندھ ڈیلٹا کی ضرورت ہے۔ باقی ماندہ پانی میں سے صوبہ سندھ کے حصہ کے مطابق صحرائے تھر کینال کو پانی دیا جائے جس سے چھوٹی چھوٹی رابطہ نہریں نکال کر جال بچھا دیا جائے۔ تھر کی پہاڑیاں گرینائٹ اور چائنہ مٹی معدنی کے ذخائر سے بھرپور ہیں‘ تھرواسیوں کو روزگار کے ذرائع دینے کیلئے فوری طور پر فیکٹریوں کے قیام کو عمل میں لایا جائے، یہ عمل اقتصادی خوشحالی کا ضامن ہو گا۔ دُور دراز آبادی کو اکٹھا کرنے کیلئے چھوٹی چھوٹی آبادیوں کے گروپس بنا دئیے جائیں جن کو یونین کونسلز سے منسلک کر دیا جائے جہاں یونین کونسل کا سیکرٹری تمام سہولیات اور خوراک پہنچانے کا ذمہ دار ہو۔ تھر میں اوسطاً ہر سال 100 ملی میٹر بارش ہوتی ہے جس سے ایک ملین لٹر پانی اکٹھا ہو سکتا ہے لہٰذا فوری طور پر جہاں جہاں سے قدرتی پانی کے راستے بنے ہوئے ہیں وہاں کم قیمت پر پونڈ جنہیں تھرزبان میں ترائی کہتے ہیں، بنائے جائیں۔ بارش کے پانی کی زیرزمین سیپیج کو روکنے کیلئے درخت لگائے جائیں۔ ان بارشی تالابوں کو ہر سال مون سون کے موسم میں مرمت کرنے کے طریقہ کار وضع کئے جائیں اور پانی کے ذخیرہ کو یقینی بنایا جائے۔ وہاں کے لوگوں کو پانی اکٹھا کرنے کی تراکیب اور تالابوں کی صفائی کیلئے ان کی فوری تربیت کی جائے۔ حکومت سندھ کے ذرائع کے مطابق زیرزمین پانی تقریباً 1.5 ملین ایکڑ فٹ موجود ہے مگر اس کی پی ایچ ویلیو 7.1 ہے اور 8.6 کے درمیان ہے جبکہ نمکیات کی تعداد 3ہزار سے لیکر 5ہزار پی پی ایم (پارٹس پر ملین) ہے۔ چھاچھرو تحصیل میں تو یہ تعداد 9ہزار پی پی ایم تک پہنچ چکی ہے۔ اسی طرح پانی میں فلورائیڈ آئیز کی تعداد 13 پی پی ایم ہے جبکہ اسے ایک پی پی ایم ہونا چاہئے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ آر او پلانٹس کو یقینی بنایا جائے‘ بائیوسیڈ فلٹر پلانٹس لگائے جائیں‘ فلورائیڈ آئینز کے تدارک کیلئے پلانٹس لگائے جائیں‘ اس تمام کام کیلئے پی وی سولر ٹیکنالوجی استعمال کی جائے تو ہم تھر کے بہت سارے گمبھیر مسائل پر قابو پا سکتے ہیں۔
تازہ ترین