• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ تین چار برسوں میں شہر کی فضائوں اور درسگاہوں کی ہوائوں میں جس لفظ کی بازگشت تواتر سے سنائی دی وہ مشہور زمانہ ’’ڈینگی مچھر‘‘ تھا جس نے ہر مکتبہ فکر کے لوگوں بالخصوص افسران کے مزاج شاہی کو بھی اعصاب شکن اور تھکا دینے والے عذاب میں مبتلا کر دیا، خدا بھلا کرے خادم اعلیٰ کا جو جس کام کے پیچھے پڑتے ہیں، اسے پایۂ تکمیل تک پہنچا کر ہی دم لیتے ہیں۔ انہوں نے ’’ڈینگی مچھر‘‘ کے ساتھ ساتھ ان مہاکلاکار افسران کا بھی اس طرح کچومر نکالا کہ اکثر نے لاہور سے ہجرت کر کے اسلام آباد کی پرسکون فضائوں میں ہی ڈیرہ جمانے میں عافیت سمجھی اور بیشتر حضرات ابھی تک اس گوشہ ء عافیت میں ’’اچھے دنوں‘‘ کے انتظار میں بیٹھے ہیں۔ اب خدا خدا کر کے انہیں خضرحیات گوندل کی صورت میں مثبت‘ محنتی اور غیرمعمولی صلاحیتوں کے حامل چیف سیکرٹری مل گئے ہیں، قوی اُمید ہے کہ وہ حکمرانوں کی طاقتور انڈر19 ٹیم جنہوں نے حکمرانوں کی نہ صرف ساکھ کو بے پناہ متاثر کیا بلکہ سینئر افسروں کیساتھ تضحیک آمیز سلوک بھی روا رکھا، کا ازالہ کرینگے اور معاملات درست سمت کی طرف لے جائیں گے۔ اب تو ہمارے برق رفتار خادم اعلیٰ کے ’’سیاسی خادمین خاص‘‘ بھی اپنی شاندار کارکردگی دکھانے کی خاطر سارا سارا دن ہاتھوں میں دُوربینیں پکڑے اور پمفلٹ تقسیم کرتے گلی کوچوں‘ سڑکوں‘ کارخانوں ‘ قبرستانوں‘ محلوں کی چھتوں اور بالخصوص سرکاری اداروں کا طواف کرتے نظر آتے ہیں۔
ابھی ہم ’’ڈینگی مچھر‘‘ کے عذاب سے نکلے نہیں تھے کہ دہشت گردی نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی اور آج تعلیمی اداروں میں موت کا سا سناٹا ہے، نہ استاد نہ بچے، خالی درودیوار ہماری گڈگورننس کا منہ چڑا رہے ہیں کہ ہر حادثے کے بطن سے ہمیں ہمارا اصل چہرہ اور کارکردگی نظر آتی ہے۔ ہم ہمیشہ کام کرنے کیلئے حادثوں کے منتظر رہتے ہیں۔ ہر حادثے کے بعد جن وسائل کے نہ ہونے کا ہم رونا روتے ہیں، وہ وسائل بھی آ جاتے ہیں اور پھرتیوں سے وقتی طور پر مسائل کو حل کرنے کی تمام عملی تدابیر بھی بروئے کار لانے کے طریقے آ جاتے ہیں‘ پھر ’’چار دن کی چاندنی پھر اندھیری رات ہے‘‘ وہی اللہ توکل چلتے تعلیمی ادارے جہاں درودیوار پر برستی یتیمی، نہ گارڈ، نہ چوکیدار، نہ پورے درودیوار، نہ پورا عملہ، نہ ترتیب، نہ اچھا فرنیچر، نہ وقت دینے والا استاد، نہ اچھی ٹیچر ٹریننگ، نہ صاف پانی، نہ طبی سہولیات، نہ کمپیوٹر لیب، نہ کمپیوٹر استاد، ٹوٹا فرنیچر، گندے کمرے، جہاں پرائیویٹ اداروں میں داخلوں سے محروم رہ جانے والے بچے کھچے بچے اور بھاری بھرکم فیسیں نہ دے سکنے والے طلبہ پناہ لینے آ جاتے ہیں اور پھر خالی ڈگریاں لیکر زمانے کے بے رحم ہاتھوں میں دھکے کھانے نکل پڑتے ہیں کہ گورنمنٹ اداروں کے بچے نہ بورڈ اور یونیورسٹی کے پوزیشن ہولڈر ہوتے ہیں اور نہ ہی وہ اتنے لائق فائق ہوتے ہیں کہ وہ پرائیویٹ اداروں سے نکلنے والی کھیپ کا مقابلہ کر سکیں۔
جس ملک میں دو سال میں چھ سیکرٹری ایجوکیشن بدل دئیے جائیں اور جہاں سیاست ایڈمنسٹریشن کی رگوں میں اپنی طاقت اور رعونت کا زہر گھول دے، وہاں تازہ دماغوں کی آبیاری ممکن نہیں۔ دنیا کی تاریخ میں ہنگامی نوعیت کے حالات میں بھی کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ افسران پورا پورا مہینہ چھٹی والے دن بھی صبح و شام کی تفریق کئے بغیر مسلسل کام اور کام کریں۔ اصول اور قاعدہ ہے کام کے وقت پر کام اور آرام کے وقت آرام ورنہ مسلسل کام کرنے سے مشینیں بھی ٹوٹ جاتی ہیں۔ آرام کے بعد کام کرنے کی صلاحیت بڑھتی ہے۔ ہڈحراموں اور نکموں کو تو کوئی فرق نہیں پڑتا مگر اس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا، والے افسران بھی لمبی چھٹی کی درخواستیں لئے پھرتے ہیں اور اس جبری مشقت کے ہاتھوں بیزار نظر آتے ہیں اور میڈیا والے دورانِ میٹنگ خادم اعلیٰ کی ڈانٹ پھٹک سے بے خوف نیند کے جھونکے لیتے افسران کی تصاویر دکھا دکھا کر اپنی ریٹنگ بڑھاتے اور ’’بریکنگ نیوز‘‘ چلاتے نظر آتے ہیں۔ تعلیمی اداروں کے تو حالات یہ ہیں کہ یہاں تدریسی سرگرمیوں کے علاوہ ہر غیرتدریسی سرگرمی بڑی تندہی سے انجام دی جاتی ہے۔ اساتذہ اور طالب علم سارا سار ا دن مختلف آئٹم مثلاً ڈینگی، رشوت ستانی، کرپشن، صفائی، یوتھ فیسٹیول کے فوٹوسیشن کرتے اور کرواتے نظر آتے ہیں۔ خدا بھلا کرے، دورِ جدید کے اس کیمرے کا جس کے ذریعے خادم اعلیٰ کو براہِ راست تصاویر ارسال کر کے سب اچھا ہے کی رپورٹ دی جاتی ہے۔ سکولوں اور کالجوں میں تو ڈینگی ایک لطیفہ بن کر رہ گیا ہے۔ پہلے تو صرف ڈینگی سیمینار، لاروا پکڑنا، زیرو پیریڈ، پمفلٹ تقسیم کرنا، لوگوں کے گھروں اور چھتوں کی صفائی چیک کرنا ہی کم نہیں تھا، اب تو قومی میچوں کے موقع پر لڑکیوں اور لڑکوں کو بسیں بھر بھر کر جبری تالیاں بجانے کیلئے لے جانا بھی تعلیم کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔ حتیٰ کہ امتحانات کے دوران بھی بچوں کو جبری طور پر سارا سارا دن اور بعض اوقات رات کو بھی جبری مشقت کیلئے بھجوا کر علمی تشنگی مٹانے کا سامان فراہم کیا جاتا ہے۔ کبھی یوتھ فیسٹیول کے نام پر بچوں کی تعلیم کا بیڑا غرق کیا جاتا ہے، کبھی ہفتہ انسداد رشوت ستانی، کبھی لیپ ٹاپ کی تقسیم کے نام پر سیاسی دُکانداری چمکانے کیلئے بچوں کو جبری شمولیت کیلئے مجبور کیا جاتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ یہ سارے عظیم کام دو مہینے کے اس حصے میں ہوتے ہیں جب تعلیمی سرگرمیاں اپنی عروج پر ہوتی ہیں۔ جس ملک میں پورا تعلیمی سیشن ہی دو مہینے پر مشتمل ہو اور اسی دو مہینے میں یہ تمام اللے تللے بھی اپنے پورے جوبن پر ہوں اور انتظامیہ‘ اساتذہ اور تعلیمی اداروں کے رزلٹ کے اکیڈمک کیلنڈر کا زمینی حقائق سے دُور تک کا واسطہ نہ ہو اور جسے بورڈ اور یونیورسٹی کے شیڈول سے ہم آہنگ کرنے کی زحمت ہی گوارا نہ کی گئی ہو، وہاں سو فیصد حاضری اور اچھے رزلٹ کے خواب دیکھنا حماقت کے سوا کچھ نہیں۔ جس ملک میں لیبز پر پیسہ خرچ کرنے کی بجائے کھلونوں کی طرح چیٹنگ کرنے کیلئے نوجوان نسل کے ہاتھوں میں لیپ ٹاپ پکڑا دئیے جائیں اور ان کی لیبز کو اساتذہ سے محروم کر کے انہیں کمپیوٹر عیاشی کیلئے کھلی چھوٹ دیدی جائے، وہاں کے درودیوار اسی طرح سے آباد ہوتے ہیں جیسے اب ہیں۔ اس ملک میں وسائل کی کمی ہے نہ ہو سکتی ہے کہ یہ اللہ کے نام پر بنی ہوئی مملکت خداداد ہے اور یہ ملک اب تک اللہ کے سہارے ہی چل رہا ہے ورنہ اسے تباہ و برباد کرنے اور پتھر کے زمانے میں پہنچانے کیلئے حکام بالا نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
تازہ ترین