• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
16دسمبر کو آرمی پبلک اسکول میں دہشت گردوں نے معصوم بچوں کے خون کی ہولی کھیلی‘ اس سانحہ کے بعد سیاسی و عسکری قیادت نے کچھ غیرمعمولی فیصلے بھی کئے جن میں ملک میں فوجی عدالتوں کے قیام کا فیصلہ سرفہرست تھا۔اس فیصلے کو تقریباً ہر مکتبہء فکر کے صاحبانِ دانش و بینش نے سراہا، ماسوائے چند مذہبی سیاسی پارٹیوں اور کچھ بڑے وکلا کے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ فیصلہ درست ہے یا غلط؟ کیا عدالتیں انصاف مہیاکر رہی تھیں یا نہیں؟ اور اگر نہیں کر رہی تھیں تو ان کے راستے میں رکاوٹ کون تھا؟ اس کا محرک جاننے کیلئے سب سے پہلے ہم ملک کے عدالتی ڈھانچے کی خامیوں پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالتے ہیں۔ ماتحت عدلیہ انصاف کی پہلی سیڑھی ہے جہاں پر قتل، ڈکیتی، متفرق چھوٹے بڑے جرائم او ر سول مقدمات کی سماعت ہوتی ہے۔ مقدمہ عام طور پر درخواست ضمانت کے فیصلہ تک تو زور و شور سے چلتا ہے اور جونہی کسی ملزم کی ضمانت منظور ہو جاتی ہےکچھ وکلا تاریخیں لینا شروع کر دیتے ہیں، اس طرح مقدمہ لٹکنا شروع ہو جاتا ہے۔ کبھی وکیل یہ کہہ کر تاریخ لے لیتا ہے کہ اس کی تیاری نہیں ہے، کبھی ہائی کورٹ اور کبھی سپریم کورٹ میں پیشی کا عذر پیش کر دیتا ہے، کبھی ہڑتال اور میڈیکل کا بہانہ۔ پھر اگر یہ ساری حیلہ طرازیاں ختم بھی ہو جائیں تو پارٹی وکیل تبدیل کر لیتی ہے اور یوں تاریخیں لینے کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ اگر کوئی معززجج جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے وکلاء کی حاضری کو یقینی بنانے کی تاکید کر دے تو ان جج صاحب کے گریبان تک چلے جانے کو یہ وکلا اپنا قانونی حق سمجھتے ہیں۔ بعض اوقات تو عدالتوں کے اندر جب کوئی جج صاحب کئی دیگر مقدمات کی سماعت کر رہے ہوتے ہیں تو یہ وکلا باہر سے کمرۂ عدالت کو تالا لگا دیتے ہیں۔ ایسے میں ان جج صاحب کی فریاد سننے والا کوئی نہیں ہوتا اور سینئر جج صاحبان ان وکلا کیخلاف کسی قسم کی تادیبی کارروائی کرنے کی بجائے معاملہ افہام و تفہیم سے ختم کرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ بعض جونیئر وکلا تو اتنے بے لگام ہو چکے ہیں کہ انہیں کوئی پوچھنے والا بھی نہیں۔ ججز بحالی تحریک کے بعد تو ان کا انداز بہت ہی جارحانہ ہو چکا ہے۔ اگر ان حالات پر غور کیا جائے توانصاف کی فراہمی اور قانون کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ خود ایسے ’’وکلا‘‘ ہیں جو وکالت کے معزز پیشے کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔
ہمارے خیال میں کوئی بھی مقدمہ قابل ضمانت نہیں ہونا چاہئے بلکہ وہ تمام مقدمات جن کو قابل ضمانت سمجھا جاتا ہے، سمری ٹرائل کر کے ان کا فیصلہ ایک دو دن میں ہوجا نا چاہئے۔ جیسا کہ ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ ضمانت کے بعد تو وکلاء التواء اور تواریخ لینے کے بہانے ڈھونڈتے ہیں۔ جیسا کہ اکثر کہا جاتا ہے کہ ’’انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار ہے‘‘۔ قابل ضمانت مقدمات میں جب عدالت لگے اورمقدمہ پیش ہو تو اسی وقت ملزم، گواہان اور ثبوت عدالت میں پیش ہوں تو ملزم یا تو با عزت بری ہو کر گھر جائے اور یا جتنا اس کا قصور ٹھہرے اتنی سزا پائے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ جب کسی عدالت سے کسی ملزم کو سزا ہو جاتی ہے تو اس کی اپیل اعلیٰ عدالت میں چلی جاتی ہے، جہاں سے اس کی ضمانت ہو جاتی ہے اور پھر اس کا مقدمہ کھٹائی میں پڑ جاتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ اگر ماتحت عدلیہ نے زیادہ سزا دی ہے تو استغاثہ کی اہمیت کو دیکھ کر سزا کم یا زیادہ کر دی جائے اور اگر جرم ثابت نہیں ہوتا تو اس کو بری کر دیا جائے، محض ضمانت کا کیا حاصل۔ اسی طرح ایک عدالتی حکم ’’حکم امتناعی‘‘ کا بے تحاشا غلط استعمال کیا جاتا ہے۔ اصل میں تو حکم امتناعی ایک متوقع غلط کام کو روکنے کیلئے ہوتا ہے یا پھر ایک پارٹی کے حقوق متاثر ہو رہے ہوں تو ’’حالات جوں کے توں رکھے جائیں‘‘ کا حکم ہوتا ہے‘ اس کی سماعت بھی روزانہ کی بنیادوں پر ہونی چاہئے اور دو چار روز میں اس کا فیصلہ ہوجانا چاہئے جبکہ یہاں پر حکم امتناعی کی کارروائی چلتی ہے اور اصل میں اس حکم امتناعی کے ذریعے دوسرے فریق کا استحصال ہو رہا ہوتا ہے۔ اعلیٰ عدالتیں بھی اس بات کا نوٹس نہیں لیتیں۔ وکلاء کو حکم امتناعی حاصل کرنے کی جلدی ہوتی ہے اوراسکے بعد پھر وہی التواء اور تاریخیں۔ ایسے احکامات پر بھی نظرثانی کی ضرورت ہے اور جن مقدمات کی تعزیر سزائے موت یا عمرقید ہو، جو کہ کئی سال تک زیرسماعت رہتے ہیں، ان میں اگر ایک زیرحراست ملزم جو کہ حقیقتاً بیگناہ ہو، کو با عزت بری کر بھی دیا جا ئے تو اس کی زندگی کے اُن سالوں کا کیا بنا جو اس نے جیل میں گزارے، اس دوران اس کی فیملی کن حالات میں رہی‘ یہ ایک علیحدہ درد بھری داستان ہے۔
جہاں قانون کا یہ مدعا ہے کہ کسی بے گناہ کو سلاخوں کے پیچھے نہ رکھا جائے تو وہاں یہ بھی ضروری ہے کہ ملزمان اور مجرمان کھلے عام معاشرہ میں دندناتے ہوئے نظر نہ آئیں اور نہ ہی وہ مزید جرائم کر سکیں۔ ایسے میں اگر ضمانت لازم ہے تو یہ بھی لازم کر دیاجائے کہ ہر مقدمہ کا فیصلہ ایک ماہ کے اندر اندر ہو جانا چاہئے تاکہ جہاں ملزم کے گھر تک انصاف پہنچ رہا ہو، وہاں مدعی یا مظلوم کے گھر بھی انصاف پہنچ جائے لیکن کیا کیا جائے ’’مجرم قانون کا لاڈلا بچہ‘‘ ہے۔ کیا تمام رعاتیں مجرم کیلئے ہی ہیں؟ مدعی کا والی وارث کون ہے؟ پولیس چوری یا ڈکیتی کا مسروقہ مال برآمد کرانے کے چکر میں بھی بے پناہ مظالم ڈھاتی ہے۔
تازہ ترین