ایک منٹ کیلئے فرض کرلیں کہ ملک میں مدرسے بہترین انداز میں کام کر رہے ہیں، دینی اور دنیاوی تعلیم دونوں دی جاتی ہیں ،شدت پسندی پھیلانے کا الزام محض پروپیگنڈا ہے ،مدارس کا فرقہ واریت سے دور کا بھی تعلق نہیں ،مدرسوں کا نصاب جدید دور کی مشکلات اور مسائل کو مد نظر رکھ کر تشکیل دیا گیا ہے ،مدرسے معاشرے کی سب سے بڑی این جی اوز کے طور پر کام کر رہے ہیں اور ان کو دئیے جانے والے عطیات کی فراہمی اور وصولی کا طریقہ کار بھی نہایت شفاف ہے___تو پھر خرابی کہاں ہے؟ اخبارات میں ان دہشت گردوں کی فہرستیں کیوں شائع ہوتی ہیں (ملاحظہ ہو 7جنوری 2015کا دی نیوز) جنہوںنے مدرسوں میں تعلیم پائی؟ اس وقت وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے زیر انتظام 18,677 مدارس و جامعات کام کرر ہے ہیں، ان مدارس میں 108,064اساتذہ ہیںجبکہ 2,304,512طلبازیر تعلیم ہیں، اب تک فارغ التحصیل ہونیوالے علما ءکی تعداد 119,892ہے، عالمات کی تعداد 150,028جبکہ حفاظ کی تعداد 925,192ہے(یہ صرف ایک مسلک کے مدارس کے اپنے اعداد و شمار ہیں اور اس میں غیر رجسٹرڈ مدارس شامل نہیں)۔ اتنی بڑی تعداد میں علما اور صالحین پیدا کرنے کے باوجود ہمارے معاشرے میں وہ تمام گھنائونے جرائم (جن کی تفصیل لکھنے کے لئے پوری کتاب درکار ہے )کیوں ہوتے ہیں جن کا غیر مسلم معاشروں اور دیگر ملکوں کے مسلم معاشروں میںجہاں اتنی بڑی تعداد میں مدرسے کام نہیں کر رہے ،وجود نہیں ہے ؟ان لاکھوں فارغ التحصیل طلباء میں سے کتنے ایسے ہیں جنہوں نے دینی میدان میں ہی سہی کوئی ایسا کارنامہ انجام دیا ہو ،کوئی ایسی تحقیق کی ہو،جسے بین الاقوامی سطح پر پذیرائی ملی ہو؟سائنس ،طب ، انفارمیشن ٹیکنالوجی ،قانون، اکائونٹنگ ،بزنس ایڈمنسٹریشن، ان شعبوں سے اگر مدارس کے طلبا ءکا کچھ لینا دینا نہیں تو پھرمدارس سے سند حاصل کرنے کے بعد ان کے پاس اپنے خاندان کی کفالت کرنے یا معاشرے میں کوئی تعمیری سرگرمی سر انجام دینے کے کیا امکانات باقی بچتے ہیں؟
مدارس پر کئے جانے والے ان اعتراضات کے جواب عموماً یوں دئیے جاتے ہیں کہ کسی مدرسے میں شدت پسندی یا فرقہ واریت کی تعلیم نہیں دی جاتی، اگر مدرسے سے متعلق کوئی شخص ان جرائم کا مرتکب ہوتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ مدرسہ بند کر دیا جائے کیونکہ جب کسی جدید یونیورسٹی کا گریجویٹ دہشت گرد پکڑا جاتا ہے تو وہ یونیورسٹی بند نہیں کر دی جاتی ۔دوسرا،معاشرے میں مکروہ جرائم کے ذمہ دار مدارس کے فارغ التحصیل علماء نہیں، وہ تو اپنا پیٹ کاٹ کر دین کی تبلیغ کا مقدس فریضہ انجام دیتے ہیں، ان جرائم اور بے راہ روی کی وجہ یہ فرسودہ اور غیراسلامی نظام ہے جہاں ظالم کی پکڑ نہیں ، طاقت ور کے لئے کوئی قانون نہیں اور اشرافیہ کو لوٹ مار کی کھلی اجازت ہے ،جب تک اس نظام کو تبدیل نہیں کیا جاتامعاشرے میں بہتری کی کوئی امید نہیں۔اور جہاں تک دیگر شعبوں میں مہارت حاصل کرنے کا تعلق ہے تو جواب آتا ہے کہ جس طرح ہر شعبے کیلئے ماہرین کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح دین کی ترویج کیلئے علما ءکی ضرورت ہے اور یہ ضرورت مدارس پوری کر رہے ہیں جو محض خدا کی رضا اور خوشنودی کیلئے ہے تاکہ آخرت میں سرخرو ہوا جا سکے۔جواب تو بظاہر مدلل ہیں ،پھر خرابی کہاں ہے ؟
پاکستا ن میں چار بڑے مسالک کے الگ الگ مدرسے ہیں ۔بریلوی، اہل حدیث، دیو بندی اور شیعہ، اس بات کا تصور ہی محال ہے کہ کسی ایک مسلک کا استاد کسی دوسرے مسلک کے مدرسے میں بطور معلم خدمات انجام دے سکے،یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی شیعہ عالم کسی دیو بند مدرسے میں بطور پروفیسر تعینات ہو۔ اسی طرح جو بچہ پہلے دن جس مدرسے میں بھیجا جاتا ہے یہ بات اسی روز طے ہو جاتی ہے کہ وہ اسی مسلک کے مدرسے کا عالم بن کر نکلے گا ، ایسا کوئی ماحول یا کوئی طریقہ کار نہیں کہ ایک طالب علم کو یہ موقع دیا جائے کہ وہ تمام مسالک کا مطالعہ کرے ،ان کا تقابلی جائز ہ پیش کرے ،ایسے کسی موضوع پر مقالہ لکھے اور پھر علمی انداز میں کسی نتیجے پر پہنچے کہ فلاں مسلک درست ہے لہٰذا میں اسی کا پیرو کار ہوں،دیو بندی مسلک سے فارغ التحصیل علماء آج تک اسی پر کاربند ہیں اور بریلوی مکتبہ فکر والے مدرسے میں داخلہ لینے والے بریلوی عالم ہی بن کر نکلتے ہیں ، آج تک اس کا الٹ نہیں ہوا حالانکہ جس عمر میں ان کا مدرسے میں داخلہ کروایا جاتا ہے اس وقت ان کا کوئی مسلک نہیں ہوتا!نتیجہ صاف ظاہر ہے ، اوائل عمری سے ہی آزاد سوچ ختم ہو جاتی ہے اور پھرخیالات میں اس قدر سختی آ جاتی ہے کہ مخالف مکتبہ فکر کے حامل شخص کو کافر کہنے سے کم پر بات نہیں ٹلتی۔
ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں جدید تعلیمی اداروں کے طلباء کا پاکستان کے ’’نا انصافی‘‘ پر مبنی نظام اور امریکہ اور مغرب کے بارے میں عمومی ’’ورلڈ ویو‘‘قریباً ویسا ہی ہے جیسا کسی مدرسے کے سخت گیر طالب علم کا ،مگر اس میں دو فرق ہیں ۔پہلا ،کالج کے طالب علم کیلئے اس کا کیریئر اہم ہوتا ہے ،خاندان کی کفالت کی ذمہ داری ہوتی ہے ،ماں باپ نے بچے کو ڈاکٹر انجینئر بنانے کا خواب دیکھا ہوتا ہے،اسلئے شدت پسندی کی راہ میں اس کا کیریئر حائل ہو جاتا ہے جبکہ مدرسے کے فارغ التحصیل طلباء کو تو قانون ،طب ،سائنس ،خلا بازی یا معیشت کی تعلیم ہی نہیں دی جاتی لہٰذا ان بیچاروں کیلئے کیریئرکی چوائس ہی ختم ہو جاتی ہے ۔ دوسرا،مدرسے کے طالب علم کا ورلڈ ویو اس مرحلے پر کالج کے اسٹوڈنٹ سے مختلف ہو جاتا ہے جہاں وہ یہ سمجھنے لگتا ہے کہ’’ ظلم ،نا انصافی اور کفر ‘‘پر کھڑے اس نظام کو بدلنے کا کوئی جائز ،قانونی اور پر امن طریقہ ممکن نہیں لہٰذا ایسے حالات میں ہتھیار اٹھانا درست ہے، دوسری طرف کالج کا اسٹوڈنٹ بھلے اس نظام کو برا بھلا ہی کیو ں نہ کہے ،بہر حال اسے الٹانے کیلئے تشدد کی راہ اپنانے پر مائل نہیں ہوتا کیونکہ اسے تمام تر خرابیوں کے باوجود نظام کے ثمرات بھی دکھائی دیتے ہیں (بے شک وہ اسکا برملا اعتراف نہیں کرتا)۔یہاں سے وہ راہ شروع ہوتی ہے جو کسی بھی ایسے شخص کو جو نظام الٹانے کفلئے تشدد کو صحیح سمجھتا ہے،دہشت گرد بناتی ہے ،معاشرے میں اس کیلئے سازگار ماحول،اسلحے کی دستیابی، تربیت ،ذہن سازی اور محفوظ پناہ گاہیں آسانی سے میسر ہوتی ہیں سو اسے شدت پسند سے دہشت گرد بننے میں دیر نہیں لگتی۔یہ بات درست ہے کہ کسی تعلیمی ادارے سے دہشت گردوں کے برآمد ہونے کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ وہ ادارہ بند کر دیا جائے مگر یہ تو دیکھا جائے کہ ان تمام دہشت گرد وں کی زیادہ تعداد کہاں سے اور کیوں برآمد ہو رہی ہے ؟ اور پھر کسی بھی ادارے کا یہ کہنا،چاہے مدرسہ ہو یا عام کالج کہ وہ کسی قسم کی اسکروٹنی کروانے کو تیار نہیں ،کہاں کی منطق ہے !
یہ بات یقیناً قابل قدر ہے کہ مدرسے کے تعلیمیافتہ افراد خدا کے دین کی ترویج کیلئے بغیر کسی دنیاوی طمع و لالچ کے نکلتے ہیں اور ان کا مقصد اللہ کی رضا پانا ہوتا ہے مگر اس دین کی تبلیغ کیلئے جس بس میں بیٹھ کر وہ نکلتے ہیں اس بس کو بھی کسی نے چلانا ہے ،اگر وہ بیمار ہوں تو کسی ڈاکٹر نے ان کا علاج بھی کرنا ہے اور جب انہیں بھوک لگے تو کوئی کسان ہل چلا کر ان کیلئے گندم بھی پیدا کرے ،گویا دین کیساتھ دنیا کے معاملات چلانے بھی ضرور ی ہیں اور یہی خدا کا حکم ہے ۔حیرت کی بات یہ ہے کہ جن دنیاوی شعبوں میں ان مدرسوں میں تعلیم ہی نہیں دی جاتی ان شعبوں سے متعلق فتویٰ دینے کی اتھارٹی پر یہ مصر ہوتے ہیں ،عجیب منطق ہے!