• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہمیں کافی عرصہ سے قارئین کی طرف سے کہا جا رہا تھا کہ ایف بی آر کے ٹوٹل آڈٹ کے غیرمنصفانہ قانون پر بھی حکمرانوں کی آنکھیں کھولیں کہ کس طرح اس کالے قانون سے پسند و ناپسند اور طاقتور میرٹ والے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں اور کس طرح مجبور ٹیکس گزار اس کے شکنجے میں پھانس لئے جاتے ہیں‘ اس کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ ہم نے ہمیشہ حکمرانوں کو باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ جب تک ٹیکس کے نظام کو عام فہم اور عوام دوست نہیں بنایا جاتا‘ اس کے اہداف حاصل کرنا ناممکن سی بات ہے۔ ہم تو حیران ہیں کہ ایف بی آر کے حکام ملک کے ماحول‘ حالات اور اقدار کو مدنظر رکھنے کی بجائے آئی ایم ایف کی ناقابل عمل اور ناانصافی پر مبنی ڈکٹیشن کو اپنے ٹیکس گزاروں پر زبردستی مسلط کرنے کی کوشش کیوں کرتے ہیں جس کی وجہ سے ٹیکس گزار اپنا جائز ٹیکس دینے کی بجائے ایف بی آر کے افسران کی ملی بھگت سے ان گورکھ دھندوں سے بچائو کے طریقے اختیار کرتے ہیں جن سے ملک کو ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ ہم تو یہ چاہتے ہیں کہ ایف بی آر اپنے ٹیکس گزاروں سے ٹھوس اور قابل عمل رائے لیکر کوئی ایسی پالیسی بنائے جس سے ٹیکس گزاروں کو ایسی سہولتیں اور مراعات دی جائیں کہ وہ نہ صرف ٹیکس دینے پر فخر محسوس کریںبلکہ اُلٹا ٹیکس نہ دینے والے پچھتائیں کہ وہ ٹیکس ادا نہ کر کے ایف بی آر کی مراعات اور سہولتوں سے محروم ہو رہے ہیں۔ ایسی مثالی پالیسی سے ٹیکس چوری کا خاتمہ ہو جائیگا اور ایف بی آر کا ٹیکس وصولی کا ٹارگٹ بھی مقررہ وقت پر پورا ہو جایا کریگا۔ ایف بی آر کا ٹوٹل آڈٹ کا قانون کسی فرد یا تنظیم کے اکائونٹس‘ ریکارڈ اور دستاویزات سے کیا جاتا ہے جس میں عام طور پر اس فرد یا تنظیم کے معیار کو جانچنے کے علاوہ دیگر لوازمات جن میں اس کی مالی پوزیشن، بنک اکائونٹس کو خصوصی طور پر مدنظر رکھتے ہوئے اس کی رپورٹ تیار کی جاتی ہے۔ ٹیکس آڈٹ دراصل ٹیکس ریٹرن کو جانچنے کیلئے تیار کیا جاتا ہے جس میں اکائونٹس بکس، وائوچر اور ریکارڈ چیک کیا جاتا ہے تاکہ معلوم ہو سکے کہ ٹیکس ریٹرن میں کسی قسم کی آمدن کی چوری تو نہیں کی گئی۔ اسکے برعکس انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء کی دفعہ 177 کو صرف ایک سال کی مدت تک محدود نہیں کیا جا سکتا جیسا کہ دیگر ممالک میں کیا جاتا ہے۔ انکم ٹیکس آرڈیننس 1979ء کے سیکشن 59 میں سیلف اسیسمنٹ کی پابندی ختم کر دی گئی تھی، اگرچہ مختلف تبدیلیوں کے ساتھ پرانے آرڈیننس کی منسوخی اور نئے آرڈیننس کے آغاز تک کافی چیزیں مشترکہ ہی ہیں۔ نیا آرڈیننس 2001 ء جولائی 2002ء سے قابل عمل ہے، سیکشن 165 کے تحت ایف بی آر کو سرکاری نوٹیفکیشن‘ آرڈیننس اور رولز بنانے اور ترامیم کرنے میں خودمختار بنا دیا گیا۔ سیکشن 165، سی بی آر کو سیکشن59 کے مطابق نوٹیفکیشنز اور سرکلرز جاری کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ اس قانون کے تحت سی بی آر نے خودتشخیصی کی مختلف سکیمیں جاری کی ہیں جن کی رُو سے ہر سال گوشواروں کو تفصیلی جانچ پڑتال کیلئے منتخب کیا جا سکتا ہے جبکہ انکم ٹیکس کی تمام پالیسیوں کو برقرار رکھا گیا ہے اور ان تمام پالیسیوں کے مختلف معیار مقرر کئے گئے ہیں۔ خودتشخیصی اسیسمنٹ میں مختلف اسکیمیں متعارف کرائی گئیں لیکن خودتشخیصی کے دائرے میں آنیوالے مشتبہ کیسوں پر کارروائی کیلئے لفظ ’’ٹوٹل آڈٹ‘‘ کے استعمال کا آغاز کر دیا گیا۔ لفظ ’’ٹوٹل آڈٹ‘‘ انکم ٹیکس آرڈیننس 1979ء کے قانون میں خاص طور پر سیکشن 59 کے متن میں کبھی استعمال نہیں کیا گیا جبکہ اس سے پہلے سال 1986-1987ء خودتشخیصی اسیسمنٹ میں استعمال کیا جاتا تھا۔ حد تو یہ ہے کہ سیلف اسیسمنٹ اور ٹوٹل آڈٹ میں کسی طرح بھی توازن نہیں ہے‘ سیکشن 59 آف انکم ٹیکس آرڈیننس 1979ء میں سے باہر نکالے گئے کیسز لاہور ہائیکورٹ میں تاحال زیرسماعت ہیں۔ آڈٹ کا تصور بھی کئی تبدیلیوں اور ترامیم سے گزرنے کے بعد سامنے آیا۔ انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء کی دفعہ 177 کو آڈٹ کیلئے شامل کیا گیا۔ انکم ٹیکس آرڈیننس کے سیکشن 177 کی دفعات آئین پاکستان کے آرٹیکل 2/A اور 25کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ سیکشن 177 قانون کے مطابق ناقابل عمل ہے جو کسی بھی طرح سے صاف و شفاف نہیں ہے۔ اس کے علاوہ سیکشن 177 اور 120 میں بھی تضاد پایا جاتا ہے۔ اس کو اس طرح بھی کہا جا سکتا ہے کہ سیکشن 177 دراصل بدعات کی ایجاد ہے اور اس میں کسی بھی تشخیص کے تقدس کے ساتھ دیگر الفاظ میں مکمل طور پر کمی آئی ہے۔ سیکشن 176 کے مطابق ٹیکس گزار تمام اکائونٹ اور کھاتے وغیرہ حکام کے حوالے کر دیتے ہیں جن کے چکر میں ان سے بے جا وضاحتیں اور جواب طلبیاں کی جاتی ہیں جوکہ سراسر ناانصافی ہے۔ اس طرح ٹیکس گزاروں پر زیادہ سے زیادہ دبائو بنایا جاتا ہے۔ ابتدائی طور پر سیکشن 177 فنانس آرڈیننس 2001ء کے ذریعے شامل کر لیا گیا تھا اور بعض الفاظ فنانس آرڈیننس 2002ء کے ذریعے بدل دئیے گئے تھے۔ سیکشن 177 میں بذریعہ فنانس آرڈیننس ترمیم 2009ء میں کی گئی تھی۔ ایف بی آر مختلف ادوار میں انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء کے سیکشن 177 میں اپنی من پسند ترامیم لاتا رہا۔ ٹیکس گزار انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء کی دفعہ 114 کے تحت ہر سال اپنی آمدنی کا گوشوارہ داخل کرنے کا پابند ہے۔ گوشوارہ داخل کرنے کی صورت میں اس کو خودتشخیصی دفعہ 120(1) کے تحت قبول کر لیا جاتا ہے۔ گوشوارے میں کمی بیشی کی صورت میں دفعہ 114(2) اور دفعہ 120(3) کے نوٹسز جاری کئے جاتے ہیں۔ انکم ٹیکس آرڈیننس کی دفعہ 120(4) کے تحت ایسے کسی بھی گوشوارے کو نامکمل سمجھا جا سکتا ہے جس میں لوازمات پورے نہ کئے گئے ہوں۔ اسکے علاوہ تمام گوشواروں کو مکمل تسلیم کیا جاتا ہے اور گوشوارے کو خودتشخیصی نظام کے تحت محکمہ میں داخل کرنے کے روز سے ہی خودتشخیصی نظام کے تحت قبول کر لیا جاتا ہے۔ خودتشخیصی نظام کے تحت داخل شدہ گوشوارے میں کمشنر دفعہ 120 یا دفعہ 121 کے تحت پانچ سال کے اندر اندر اس میں ترمیم کر سکتا ہے اور ٹیکس بڑھا سکتا ہے۔ کمشنر جتنی بار چاہے اس میں تبدیلی یا آمدنی میں اضافہ کر سکتا ہے۔ کسی قطعی اطلاع پر جوکہ آڈٹ یا کسی اور ذرائع سے موصول ہو اور جس سے ثابت ہو کہ آمدنی کو چھپایا گیا ہے یا آمدنی کی تشخیص کم ظاہر کی گئی ہے یا ٹیکس گزار کو زیادہ ریفنڈ دیدیا گیا ہے، کمشنر دفعہ 122(5A) کے تحت کسی بھی خودتشخیص شدہ گوشوارے کو کھول سکتا ہے۔ دفعہ 122 کی موجودگی میں آڈٹ کرنے کیلئے دفعہ 177 قطعی طور پر غیرفطری معلوم ہوتی ہے اور اس کو انکم ٹیکس آرڈیننس میں رکھنے کا کوئی جواز نہیں بنتا جبکہ دفعہ 122 کمشنر کو اجازت دیتی ہے کہ وہ آڈٹ کیلئے اکائونٹس کی کتابیں و دیگر مواد طلب کر سکتا ہے اور ان کی جانچ پڑتال کر سکتا ہے۔ جب کسی ٹیکس گزار کا کیس ٹوٹل آڈٹ کی دفعہ 177 کے تحت منتخب کر لیا جاتا ہے تو اسکا ریفنڈ روک لیا جاتا ہے تاوقتیکہ اسکے کیس کا فیصلہ نہ ہو جائے۔ اس ریفنڈ کیلئے ٹیکس گزاروں کو ٹیکس محتسب کے ہاں شکایات درج کروانا پڑتی ہیں۔ اس طرح کیس کی سلیکشن کو بنیاد بنا کر ٹیکس گزاروں کی ریفنڈ کی رقوم کو روک لیا جاتا ہے جبکہ اسکے برعکس اگر محکمہ نے ٹیکس گزاروں سے واجبات وصول کرنے ہوں تو ان کو مختلف طریقوں سے ہراساں کیا جاتا ہے‘ ان کے بنک اکائونٹس سے رقم نکلوا لی جاتی ہے‘ اسکے علاوہ ان کی جائیدادیں ضبط اور انہیں جیلوں میں بھجوا دیا جاتا ہے۔ آڈٹ کیلئے منتخب کئے گئے کیسوں پر آج تک ہائیکورٹ نے دفعہ 177 پر کوئی واضح فیصلہ نہیں دیا جس سے ٹیکس گزاروں کے مسائل میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ لاہور ہائیکورٹ نے کسی بھی ٹیکس گزار کے ٹیکس آڈٹ کی سلیکشن کیلئے کمشنر کو اختیار دیتے ہوئے پابند بنایا تھا کہ وہ آڈٹ میں کیس منتخب کرنے کی وجوہات بتائے۔ فنانس ایکٹ 2010ء میں ایک دفعہ 214-C کا اضافہ کیا گیا ہے جس میں ایف بی آر کو کسی بھی ٹیکس گزار کو ٹوٹل آڈٹ کیلئے منتخب کرنے کا اختیار بذریعہ کمپیوٹر بیلٹنگ دیا گیاہے۔ یہاں یہ بات بڑی اہم ہے کہ اس سلیکشن میں بھی محکمہ بھرپور کردار ادا کرتا ہے اور من پسند کیسز کی لسٹیں بنا کر ایف بی آر کو روانہ کر دی جاتی ہیں جن میں سے ٹوٹل آڈٹ کے کیسز کی سلیکشن ہوتی ہے۔ چونکہ ایف بی ا ٓر کے گوشواروں کو ٹوٹل آڈٹ میں شامل کرنے کا طریقہ کار درست نہیں ہے جس کی وجہ سے بہت سے کیسز ٹوٹل آڈٹ میں منتخب ہونے سے بچ جاتے ہیں لہٰذا یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ محکمے کے پاس ٹوٹل آڈٹ کیلئے منتخب کئے گئے کیسز برائے سال 2011ء تا 2013ء تاحال التواء میں پڑے ہیں۔ اسی طرح آڈٹ افسران کو ٹارگٹ دیا جاتا ہے کہ وہ ہر ماہ 40فیصد کیسوں کو پایۂ تکمیل تک پہنچائیں‘ چاہے انہیں اس کیلئے یکطرفہ کارروائی ہی کیوں نہ کرنی پڑے۔ اِن حالات میں ٹوٹل آڈٹ کیسز کی تکمیل نہایت ہی مشکل کام ہے جس سے ٹیکس گزاروں کی پریشانی میں اضافہ ہوتا ہے اور ان کے وکلاء کو معلومات کی فراہمی میں بھی دِقت پیش آتی ہے۔ چونکہ آڈٹ افسران اپنی مرضی کا ٹیکس لگا دیتے ہیں جس سے اپیلوں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اسلئے افسران شنوائی کا موقع دینے کو تیار نہیں ہوتے اور جو ٹیکس گزار کاغذات اور دستاویزات دینا چاہتا ہے، اسے موقع نہ ملنے کی وجہ سے یکطرفہ کارروائی اور ڈرانے دھمکانے کا سلسلہ مسلسل جاری رہتا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی ٹیکس گزار کوئی قانونی جواز یا عذر پیش کرتا ہے تو اس کا جواب دینا بھی مناسب نہیں سمجھا جاتا، یہی وجہ ہے کہ ٹیکس گزار کیلئے ایسے حالات پیدا کر دئیے جاتے ہیں جن سے اس پر ناجائز ٹیکس کا بوجھ بڑھ جاتا ہے۔ حکومت آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کو یہ تاثر دینا چاہتی ہے کہ ہماری اکانومی میں اضافہ ہو رہا ہے جبکہ حالات اسکے بالکل برعکس جا رہے ہیں۔ اگر ہم آڈٹ سسٹم کا تقابلی جائزہ ترقی یافتہ ممالک سے کریں تو وہاں آڈٹ کیلئے منتخب کئے گئے کیسز کی تعداد بہت کم ہے اور ایک آڈٹ افسر سال بھر میں تقریباً 6کیس مکمل کرتا ہے مگر پوری ا سکروٹنی کرنے کے بعد۔ اگر اس تناظر میں دیکھا جائے تو ہمارے ملک میں کل داخل شدہ گوشواروں کا 12.5 فیصد ٹوٹل آڈٹ کیلئے منتخب کیا جاتا ہے جوکہ ٹوٹل آڈٹ کیسوں کی بہت زیادہ تعداد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر ٹیکس گزاروں کیساتھ زیادتی اور ان پر ناجائز ٹیکس کی بھرمار ہو جاتی ہے جبکہ کچھ ہوشیار ٹیکس گزار رشوت ستانی سے کام لیکر اپنا ٹیکس بچانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں یوں آڈٹ کیلئے تشکیل دیا گیا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے لہٰذا ایف بی آر کو چاہئے کہ وہ ان مسائل کی جانب فوری توجہ دے تاکہ اس غیرمنصفانہ نظام سے جو بھی ٹیکس گزار متاثر ہو رہے ہیں ان کا ازالہ کیا جا سکے۔
تازہ ترین