• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اسوج کا مہینہ ہے ، خزاں پابہ رکاب ہے ، جان لیواحبس جاں بلب ہے ، راتوں کی فرحت بخش ٹھنڈک اور طوالت بتدریج بڑھ رہی ہے ۔ ہم دیہاتی اسے مونگ پھلی کا موسم کہتے ہیں ، جوار کے دن اور باجرے کی رُت کہتے ہیں ۔ نسبتاً آسودہ دیہات کو چھوڑ کر ، باقی علاقوں میں اب بھی وہی چلن ہے ، جو کبھی یہاں بھی تھا ۔ بھادوں ہی سے باجرے کی حفاظت کیلئے کھیتوں میں مچانوں کا ایک سیلاب سا امڈ آتا ۔ تاحد نظر پھیلی سروقد باجرے کی سر سبز فصل کے درمیان جا بجا اونچی مچانیں ، جیسے بے گھر مہاجرین کی بستی آباد ہو گئی ہو ۔ ہماری پرانی موسیقی اور لوک گیتوں میں اس دلفریب رُت کی جڑیں بہت گہری ہیں ۔ موسمی تغیرات کا مزا جوں پر اثر مسلمہ ہے ۔ ایسے میں موسم کے اعتبار سے ذہن کے نہاں خانوں میں چھپا کوئی بھولا بسرا نغمہ یاد آ جائے تو نفسا نفسی کے عالم میں بھی جلتی روح جیسے کسی ٹھنڈی آبشار تلے آ جاتی ہے ۔ آپ آزما کر دیکھ لیں ، آلام زمانہ سے فرار کا یہ صدری نسخہ ہے ۔ بس یو ٹیوب تک رسائی کی دیر ہے ۔ جادوئی الفاظ غالباً طالب جالندھری کے ہیں ، جنہیں ماسٹر عبداللہ نے کیف آفریں سُروں میں پرویا اور بہت پہلے ، ملکہ ترنم نے جوانی میں اپنی لافانی آواز سے انہیں امر کر دیا، بعد ازاں فریدہ خانم نے بھی ۔ گیت کے چند مصرعے سنیے ۔
تیرے باجرے دی راکھی، ماہیا میں نہ بہندی وے
ماہیا میں نہ بہندی وے ، اَڑیا میں نہ بہندی وے
جے میں سیٹی مار اڈاواں ، میری سرخی لہندی وے
جے میں تاڑی مار اڈاواں ،میری مہندی لہندی وے
جے میں اڈی مار اڈاواں ، جھانجھر ڈگ ڈگ پیندی وے
زمانہ بیت گیا ، ان نغموں کی اہمیت کم نہ ہوئی ۔ خصوصاً جس کا بچپن یا جوانی دیہات میں گزری ہو ، وہ آج بھی ماضی کے ان گیتوں کے سُروں کی پھوار اپنے قلب پر محسوس کرتا ہے ۔ دل کو گداز عطا کرنے والی خوبصورت یادوں کی بارات سی اتر آتی ہے ۔
باجرے کی راکھی کا ذکر تھا ۔کھیت میں مضبوط اور لمبی لکڑیاں ٹھونک کر ان کے اوپر ڈنڈوں اور گھاس پھوس کا چھت ڈالا جاتا اور فصل کی حفاظت کرنے والا علی الصبح اس منھہ(مچان) پر سوار ہو جاتا۔ دن بھر باجرا کھاتے پرندوں خصوصاً چڑیوں کو بھگانے کیلئے ہر طرف شور برپا رہتا ، حتیٰ کہ شام ڈھلے پنچھی اپنے گھروں کو لوٹتے اور راکھی کرنے والے بھی ۔ پانی کا کورا گھڑا منھے کے نیچے پڑا ہوتا اور باجرے کی راکھی پر مامور مردوزن اور بچوں کا لنچ انہیں وہیں پہنچایا جاتا۔ باجرے کے خوشوں پر بیٹھ کر اپنی چونچوں سے دانے چگنے والے پرندوں کو اڑانے کیلئے ٹین ڈبے کھڑکائے جاتے ، بارود کے پٹاخے چلائے جاتے اور رسی سے بنی ’’بندوق‘‘ (کھبانی) سے پتھر پھینکے جاتے ۔ ساتھ ساتھ پرندوں کو للکارنے کی ’’ہو ڈاری ہو‘‘کی صدائیں بھی جاری رہتیں ۔ جونہی کوئی پتھر یا پٹاخہ پھینکا جاتا ، پرندوں کے غول فضا میں اڑ کر ایک دلنشیں منظر پیش کرتے اور کسی دوسرے کھیت پر جا کر لینڈ کر جاتے ۔ اس موسم سے قبل خربوزوں کی رُت میںہم دن بھر کھیتوں میں خیمہ زن رہتے ۔ اس خاموش فضا میں گرمیوں کی شکر دوپہریں خیموں میں گزارنے کی حسین یادوں کے نقوش کبھی نہیں مٹ سکیں گے ۔ رات کو گیدڑوغیرہ سے خربوزوں کو بچانے کیلئے صلیب کی شکل میں دو ڈنڈے زمین میں گاڑکر اورانہیں پرانی قمیص پہنا کر ’’ڈراوا‘‘ تیار کیا جاتا تاکہ جانور اسے آدمی سمجھ کر فصل کے نزدیک نہ آئیں ۔ یہی اسلوب مونگ پھلی کی فصل کو بچانے کیلئے بھی اپنایا جاتا۔ باجرے کی فصل اٹھانے کے بعد کئی ماہ تک زمیندار اور کاشتکار گھرانوں میں لنچ باجرے کی روٹی ، گھر کے مکھن اور لسی پر مشتمل ہوتا، جس کی لذت اور فرحت ایسا لنچ کرنے والا ہی جانتا ہے ۔ تب گندم کا استعمال صبح ناشتے کیلئے دیسی گھی کے پراٹھوں اور رات کے کھانے تک محدود ہو جاتا۔ چونکہ زندگی انتہائی مشقت طلب تھی ، سو کولیسٹرول وغیرہ کا کوئی مسئلہ نہیں ہوتا تھا ۔
باجرے کی فصل کی حفاظت کا مسئلہ برصغیر تک محدود نہیں ۔ دنیا بھر میں جہاں جہاں بھی باجرا کاشت ہوتا ہے ، وہاں چڑیاں اور دیگر پرندے اس کو کھانے کیلئے پہنچ جاتے ہیں ۔ ہم نے کہیں پڑھا ہے کہ برطانیہ کا ایک زمیندار رچرڈ میڈالیور اپنے دو سو ایکڑ پر پھیلے فارم میں باجرے کو کبوتروں اور چڑیوں سے بچانے کیلئے ڈرون کا استعمال کرتا ہے ۔ اس کے پاس چالیس کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے اڑنے والا ننھا سا سکس روٹر ہیلی کاپٹر ہے ۔ یہ ریموٹ کنٹرول سے چلتا ہے اور پرندوں کو بھگانے کیلئے اس میں سائرن نصب ہے ۔ مراد یہ ہے کہ ساری دنیا میں کوئی بھی اپنے باجرے کو چرند پرند کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑتا ۔ باشعور قومیں اپنی فصلوں اور مفادات کی حفاظت میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتیں کہ قومی مفادات بھی فصلوں کی طرح ہوتے ہیں ۔
آج اڑی حملے کے بعد پاک بھارت کشیدگی کی بنیاد بھی مفادات کی حفاظت کی جنگ ہے ۔ مودی سرکار کے پاکستان پر بے بنیاد الزامات کے پیچھے بھی یہی حکمت کار فرما ہے ۔ اس نازک وقت میں ہمیں بھی زندہ قوموں کی طرح اپنے مفادات کی حفاظت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرنا چاہئے اور تمام ریاستی اداروں کو یکجا ہوکر ہر محاذ پر بھارت کے خلاف ڈٹ جانا چاہئے ۔ اس سلسلے میں ہمیں سب سے پہلے اپنا گھر درست کرتے ہوئے اپنے مفادات کی فصل اجاڑنے والے ہر طرح کے چرند پرند کو یہاں سے بھگانا ہوگا۔بھارت کے ان لغو الزامات میں کوئی صداقت نہیں کہ پاکستان دہشت گردوں کی نرسری ہے اور اس کے ریاستی ادارے ان کی پشت پناہی کرتے ہیں ۔ تاہم حقائق کا سامنا کرتے ہوئے ماننا پڑے گا کہ اگر دنیا میں ان الزامات کو پذیرائی حاصل ہے تو اس کی وجہ ہماری چند کمزوریاں ہیں ۔ ہمیں جہادی کلچر سے جان چھڑانا ہو گی اور دہشت گردوں اوران کے ہمدردوں کیخلاف بلا امتیاز آپریشن کر کے انہیں ختم کرنا ہوگا۔ ہم جب تک افغان مہاجرین کو یہاں سے چلتا نہیں کریں گے اور ایسے الزامات کا سبب اور بہانہ بننے والے عناصر سے قطع تعلق کر کے انہیں قابو نہیں کریں گے، ہم پر الزامات کو پذیرائی حاصل رہے گی ۔ ہمیں اپنے مفادات کی فصل کوبھارتی گیدڑوں سے بچانے کیلئے کسی ’’ڈراوے ‘‘ کی بجائے پوری استقامت اور جرأت سے وہاں خود کھڑ ے ہوکر اپنے مفادات کی راکھی کرنا ہوگی، جو ہم اچھی طرح کر سکتے ہیں۔
ایک اور بات ، اب ہمیں اپنے حال پر رحم کرتے ہوئے برادر پڑوسی ملک افغانستان کو بتا دینا چاہئے کہ …تیرے باجرے دی راکھی، ماہیا میں نہ بہندی وے…


.
تازہ ترین