• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جس طرح کارپوریٹ سیکٹر نے انسانی زندگی کے ہر شعبے کو اپنے نرغے میں جکڑا ہوا ہے، تعلیم وتدریس کا شعبہ بھی ایک مکمل منافع بخش کاروبار کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ اسی طرح طب کا میدان تھیوری سے لیکر پریکٹیکل اور ٹریننگ سے لیکر پریکٹس تک دنیا بھر میں ایک زبردست کارپوریٹ بزنس بن چکا ہے۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی پرائیویٹ میڈیکل کالج اور ٹیچنگ اسپتال بھی ہیں۔ پاکستان میں مسیحائی کایہ زیست پرور پیشہ ایک مکروہ کاروبار اور گورکھ دھند ہ بن چکا ہے۔ سرمایہ نگلنے والے پیشہ ورناگوں نے اس ملک کی مادرپدر آزادی سے فائدہ اٹھا کر بڑی بے دردی سے اسے تختۂ مشق بنا رکھا ہے۔ اپنے نا جائز مال کو ضربیں دینے والے بے رحم کاروباریوں نے پاکستان بھر میں میڈیکل کالجز کا جال بچھا رکھا ہے۔ ان حضرات میں زیادہ تر سرکاری اور پرائیویٹ اسپتالوں کے اعلیٰ مرتبت ڈاکٹر اور سرجن شامل ہیں جنہوں نے اپنی بیویوں، بیٹوں یا بہوئوں کے نام پر میڈیکل کالج اور ٹیچنگ اسپتال کھول رکھے ہیں۔ طبی رموز سے ناواقف ایک عام کاروباری بھی جب میڈیکل کالج کا آغاز کرتا ہے تو وہ کسی ٹیوشن اکیڈمی کی طرح میڈیکل سائنس کے چند ریٹائرڈ پروفیسرز کو ماہانہ تنخواہ پر بھرتی کر لیتا ہے جن کی قابلیت کا پیمانہ یہ ہوتا ہے کہ ان کے سرکاری اسپتالوں کے ڈاکٹروں سے زیادہ سے زیادہ تعلقات ہوں۔ یہی وہ پروفیسرز ہوتے ہیں جو اپنے ذاتی رسوخ کی بناء پر اس طرح کے میڈیکل کالجز کا کسی یونیورسٹی سے الحاق اور پی ایم ڈی سی سے رجسٹریشن کروا دیتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ دوچار اسپتالوں سے کاغذی الحاق بھی جس کے بعد یہ اسپتال ’’ٹیچنگ اسپتال‘‘ کا درجہ حاصل کر لیتے ہیں۔ ٹیچنگ اسپتال ہیلتھ سسٹم میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں اور کسی بھی میڈیکل کالج کیلئے آئینی طور پر ضروری قرار دیئے گئے ہیں۔
کسی مہذب معاشرے میں مکمل ٹیچنگ اسپتال کے بغیر میڈیکل کالج کا تصور بے معنی ہے۔ میڈیکل سسٹم میں یہ ایک’’فلاحی طبی مرکز ‘‘ ہوتا ہے جو بلامعاوضہ یا برائے نام فیس پر عوام الناس کیلئے مختص ہوتا ہے۔ قانون کے مطابق میڈیکل کالج کیلئے ضروری ہے کہ اس سے ملحقہ ٹیچنگ اسپتال کی اپنی الگ بلڈنگ ہو، طلبہ کیلئے وسیع جگہ، لائبریریاں اور لیبارٹریاں وغیرہ موجود ہوں۔ اسپتال اور کالج ایک ہی شہر میں واقع ہوں جن کا درمیانی فاصلہ 25کلومیٹر سے زیادہ نہ ہو۔ ٹیچنگ اسپتال کم از کم 500 بیڈز پر مشتمل ہو جس میں تمام طبی شعبے اور فیکلٹیز موجود ہوں۔ یہ ٹیچنگ اسپتال شہر کی ایسی جگہ واقع ہو جہاں عوام کو پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولت میسر ہو مگر صورتحال اس کےبرعکس ہے کہ محدودے چند پرائیویٹ کالجوں ہی ٹیچنگ اسپتال کیلئے ان قانونی شرائط پر پورے اترتے ہیں۔ کہیں تو دُور دراز جنگل میں کالج اور اسپتال قائم ہیں اور کہیں چھوٹے چھوٹے پرائیویٹ اسپتالوں کو ٹیچنگ اسپتالوں کا درجہ دیدیا گیا ہے۔ قانون میں یہ شرط بھی موجود ہے کہ ٹیچنگ اسپتال کے آدھے بیڈز پر مفت علاج معالجہ کی سہولت ہونی چاہئے۔ یہ قانون غریب عوام کو سہولتیں دینے کیلئے بنایا گیا تھا مگر اس قانون کا اطلاق کہیں بھی نظر نہیں آتا۔ لاہور کے کچھ مہنگے ترین پرائیویٹ اسپتال پی ایم ڈی سی کے کاغذوں میں تو ٹیچنگ اسپتال کے طور پر کام کر رہے ہیں مگر ان میں نہ تو مریضوں کا مفت علاج کیا جاتاہے اور نہ ہی آئوٹ ڈور میں کسی مریض کو مفت چیک کیا جاتا ہے۔ یہ ایک کھلا تضاد ہے جسکے بارے میں پرائیویٹ سیکٹر کے اداروں کیلئے پی ایم ڈی سی کی آنکھیں بند ہیں اور تمام قواعد و ضوابط کو پامال کیا جا رہا ہے اور پی ایم ڈی سی دانستہ طور پر نجی میڈیکل کالجز مافیا کا حصہ بنی ہوئی ہے ۔
اس وقت تک ملک بھر میں 53 پرائیویٹ میڈیکل کالج بن چکے ہیں جبکہ صرف 39سرکاری ہیں۔ گزشتہ دو عشروں میں میڈیکل کالجز کی تعداد میں خاطرخواہ اضافہ ہوا ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر میں تو یہ ایک خالص کاروبار ہے، سرکاری سیکٹر میں بھی صرف کالجز کی تعداد پر ہی زور دیا گیا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اگر گزشتہ آٹھ دس برسوں میں اتنے میڈیکل کالجز کھلے ہیں تو اتنے ہی ٹیچنگ اسپتال بھی ان کیساتھ کھولے جاتے لیکن بد قسمتی سے معاملہ اس کے برعکس ہے بلکہ ہوا یہ ہے کہ نئے میڈیکل کالجوں کیلئے نئے ٹیچنگ اسپتال بنانے کے بجائے پہلے سے موجود کئی اسپتالوں کو ان کے ملحقہ میڈیکل کالجوں سے علیحدہ کر کے انہیں نئے میڈیکل کالجز سے منسوب کر دیا گیا۔ ڈسٹرکٹ لیول پر بھی پہلے سے موجود اسپتالوں کی بھی کچھ ایسی ہی کہانی ہے جنہیں کاغذوں میں ٹیچنگ اسپتال کا درجہ دیکر کسی نئے میڈیکل کالج کا نام دیدیا گیا ہے۔ ڈسٹرکٹ اسپتالوں کو ٹیچنگ اسپتال بنانے کا اصل مقصد تو یہ ہونا چاہئے تھا کہ ان اسپتالوں کی اَپ گریڈیشن ہوتی، نئی عمارتیں اور وارڈز بنائے جاتے، نئے شعبے قائم ہوتے، نئی مشینری نصب ہوتی، مختلف کالجز اور یونیورسٹیوں کے طلباء وطالبات کی وہاں تربیت کا بندوبست کیا جاتا، اعلیٰ اور تربیت یافتہ عملہ بھرتی کیا جاتا، نادار مریضوں کیلئے تمام ممکن سہولیات اور مفت ادویات کی دستیابی کا بندوبست کیا جاتا، تب جاکر ہی یہ کہا جاسکتا تھا کہ یہ نچلے درجے کا اسپتال اب ایک مکمل ٹیچنگ اسپتال بھی ہے۔ پرانے اسپتال پر ٹیچنگ اسپتال کا محض بورڈ لگا دینے سے اور ڈاکٹروں کا کیڈر تبدیل کر دینے سے کوئی اسپتال ٹیچنگ اسپتال کا درجہ حاصل نہیں کر سکتا۔ پرائیویٹ سیکٹر میں تو اس سے بھی برا حال ہے جہاں ایسے اسپتال بھی ٹیچنگ اسپتال کا درجہ رکھتے ہیں جن میں ایک بھی پروفیسریا کنسلٹنٹ باقاعدہ کام نہیں کر رہا اور نہ ریگولر کلاسز ہو رہی ہیں مگر پی ایم ڈی سی کے کاغذوں کی حد تک ان اسپتالوں میں میڈیکل کی تعلیم جاری ہے۔ اندازہ کریں کہ یہ اسپتال کس طرح عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہیں کہ جو مریض لاکھوں روپے خرچ کر کے پرائیویٹ اسپتال میں اپنا علاج کرواتا ہے‘ کیا وہ کسی سیکھنے والے طالبعلم کو اپنے آپ کو ہاتھ بھی لگانے دے گا، وہ مریض پرائیویٹ علاج کیلئے لاکھوں روپے اسلئے خرچ کرتا ہے کہ ان کی پسند کا پروفیسر اسکا علاج کرے۔ ان اسپتالوں میں بھاری بھرکم تنخواہیں پانے والے بااثر پروفیسر صاحبان ہی اکثر وبیشتر ان سے ملحقہ میڈیکل کالجز کے مالکان بھی ہوتے ہیں۔ لاہور میں ایسے ٹیچنگ اسپتال بھی موجود ہیں جہاں جنرل سرجری اور جنرل میڈیسن تک کے فعال شعبے موجود نہیں۔ میڈیکل کے سیکٹر میں چین، روس اور کیوبانے بھی بیرون ممالک کے سٹوڈنٹس کیساتھ خالصتاً کاروباری رویہ اپنا رکھا ہے۔ ان ممالک میں پاکستانی ڈاکٹروں کو انگریزی میں تعلیم دیکر کلینکل روٹیشن کیلئے انہیں واپس پاکستان روانہ کر دیا جاتا ہے۔ایسے طالبعلموں کو پاکستان کے سرکاری اسپتال جب منہ نہیں لگاتے تووہ پرائیویٹ اسپتالوں سے کلینکل ٹریننگ کے جعلی سرٹیفکیٹ حاصل کر لیتے ہیں۔ بیرون ممالک کی طبی جامعات کو علم ہوتا ہے کہ پاکستانیوں کے کلینکل ٹریننگ کے یہ سرٹیفکیٹ نقلی ہیں مگر وہ فیسوں کے حصول کیلئے انہیں قبول کر لیتے ہیں اور میڈیکل کی ڈگریاں تھما کر انہیں پاکستان واپس بھیج دیتے ہیں۔ پاکستان میں پی ایم ڈی سی ایسے ڈگری ہولڈرز سے مُک مکا کر کے ایک چھوٹا سا نام نہاد امتحان لیکر انہیں رجسٹرڈ بھی کر لیتا ہے اور پریکٹس کی اجازت بھی دے دیتا ہے۔
پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) آئین کی رو سے ایک خودمختار ادارہ ہے جو پاکستان میں ڈاکٹرز کی رجسٹریشن اور میڈیکل کی تعلیم کو مانیٹر کرنے کیلئے بنایا گیا ہے۔ پاکستان میں صرف وہ ڈاکٹر پریکٹس کر سکتا ہے جو پی ایم ڈی سی میں رجسٹرڈ ہو۔ اس ادارے کی اہم ذمہ داری گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ لیول پر میڈیکل کی تعلیم کو مانیٹر کرنا ہے۔ پی ایم ڈی سی کازوال سب سے پہلے پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں شروع ہوا جب اس وقت کے مشیر وزیراعظم کو اس ادارے میں مداخلت کا موقع دیا گیا اور انہوں نے بیشمار بوگس میڈیکل کالجز کوپی ایم ڈی سی میں رجسٹرڈ کروایا۔ آج کل وہ سندھ میں صوبائی پی ایم ڈی سی بنانے کی تگ ودو میں ہیں‘ اس کے ساتھ ساتھ وہ سندھ میں الگ کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز بنا کر سی پی ایس پی کے حصے بخرے کرنا چاہتے ہیں۔ موجودہ حکومت میں پی ایم ڈی سی کے حالات سدھرنے کے بجائے مزید بگاڑ کاشکار ہیں۔ 2014ء کے پی ایم ڈی سی آرڈیننس کے نفاذ کے بعد منظورِنظر لوگوں کو اہم عہدوں پر فائز کیا گیا جنہوں نے 2010ء کے بعد بڑے سرکاری اسپتالوں سے ایف سی پی ایس کی ڈگری حاصل کرنیوالے ڈاکٹرز کو پی ایم ڈی سی میں رجسٹریشن دینے سے انکار کر دیا ہے، ساتھ ہی ایف سی پی ایس کی ٹریننگ کو بھی غیرمعقول قرار دیدیا۔ اس طرح 1000 سے زیادہ ایف سی پی ایس پاس اسپیشلسٹ ڈاکٹرز ایسے ہیں جو پی ایم ڈی سی کی رجسٹریشن نہ ہونے کی وجہ سے اندرون و بیرون ملک پریکٹس نہیں کر سکتے۔ حیران کن بات تو یہ ہے کہ پی ایم ڈی سی برطانیہ اور امریکہ کی ڈگریوں کو تو مانتی ہے حالانکہ ان ممالک کے اسپتالوں کی پی ایم ڈی سی نے کبھی بھی انسپکشن نہیں کی لیکن پاکستان کے اہم ترین اسپتالوں کی ڈگریوں کو ردّی کی سی اہمیت دینے کیلئے بھی تیار نہیں ہے۔ یہی حال انڈرگریجویٹ میڈیکل ایجوکیشن کا ہے۔ موجودہ دور میں بھی پی ایم ڈی سی کی منڈی میں پرائیویٹ میڈیکل کالجز کی لوٹ سیل لگی ہوئی ہے۔ کالے دھن کا دھندہ کرنیوالوں اور پی ایم ڈی سی کی مکروہ کیمسٹری نے انسانی جانوں کو قصابوں کے بے رحم چھروں کی نوک پر رکھ دیا ہے اور میڈیکل ایجوکیشن اور اسپتالوں کے شعبۂ مسیحائی کو ایک مافیا میں تبدیل کردیا ہے جسکے سدباب میں مزید کوتاہی ایک وبائی قتل عام اور مجموعی انسانی موت کی صورت میں سامنے آسکتی ہے۔ ہم حیران ہیں کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اس اہم ترین مسئلے پر کیوں خاموش ہیں، ہم نے گزشتہ دنوں اس سلسلے میں موقف لینے کیلئے پنجاب کے سیکرٹری صحت جواد رفیق ملک سے ان کے موبائل نمبر 0920037۔0304 پر رابطہ کیا اور مسیج بھی دیا لیکن انہوں نے جواب دینا مناسب ہی نہیں سمجھا۔ مشہور ہے کہ ان کے ہاتھوں کسی کا بھلا ہوجائے تو وہ اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی بٹھا دیتے ہیں کہ پتہ کریں کہ ان سے بھلا کیسے ہو گیا۔ وزیراعظم نے ایسے ہی مہاکلاکار اور نااہل مردم بیزار افسروں کے بارے میں ہی نشاندہی کی تھی کہ ’’بیوروکریسی میں بہت سے اعلیٰ افسر مطلوبہ اہلیت، قوتِ فیصلہ اور آگے بڑھنے کی صلاحیتوں سے عاری ہیں جس کی وجہ سے عوام کے مسائل حل نہیں ہو رہے۔‘‘ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر حکومت واقعی صحت کے شعبہ میں کوئی انقلابی تبدیلی لانے میں مخلص ہے تو اسے فوری طور پر کوئی ایسا بااختیار کمیشن بنانا چاہئے جو نجی اسپتالوں اور میڈیکل کالجوں کے بارے میں عوام کی سنگین شکایات کا سختی سے نوٹس لے تاکہ آئندہ کوئی بھی نجی میڈیکل کالج اور اسپتال اپنی من مانی نہ کر سکے اور اس بات کا بھی جائزہ لے کہ کون سے نجی میڈیکل کالج اور اسپتال عالمی معیارپر پورا نہیں اترتے اور جنہوں نے معیاری تعلیم دینے کی بجائے سادہ لوح عوام کو لوٹنے کی مشینیں لگا رکھی ہیں۔ ان کالجوں کواس بات کا بھی پابند بنایا جائے کہ فیس اور داخلے کا جو میرٹ سرکاری میڈیکل کالجوں کا ہے، نجی میڈیکل کالجوں کا بھی وہی ہو۔
تازہ ترین