• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ملیں اسی لئے ریشم کے ڈھیر بنتی ہیں
کہ دختران وطن تار تار کو ترسیں
چمن کو اس لئے مالی نے خوں سے سینچا تھا؟
کہ اس کی اپنی نگاہیں بہار کو ترسیں
(ساحر)
اس سال چودہ اگست ایک نئے جوش و ولولے سے منایا گیا۔ خصوصی طور پر بگٹی اسٹیڈیم کوئٹہ کی تقریب بہت ہی پروقار اور قابل دید تھی اور اس میں شامل لوگوں کا جوش اور ولولہ اور ان کی پاکستان سے محبت صاف دکھائی دے رہی تھی۔ بلوچستان کی حکومت اور فوجی آپریشن کی وجہ سے آج غیر ملکی ایجنسیوں کے ملک دشمن ایجنٹ اپنے آقائوں سے منہ چھپاتے پھر رہے ہوں گے اور بھرپور شرمندگی سے مختلف حیلے بہانے بنا کر اپنے آقائوں کو سمجھانے کی کوشش کر رہے ہوں گے اور بتا رہے ہوں گے کہ ’’سب ٹھیک ہو جائے گا، صرف ایک دن ہی کی تو بات ہے۔‘‘ ان ایجنٹوں کی نشاندہی اور خاتمہ ضروری ہے اور اس میں صرف اور صرف محب وطن پاکستانی ہی فوج اور حکومت کی مدد کر سکتے ہیں۔ یہ لوگ ہمارے درمیان موجود ہیں اور یہ سیاسی بحثیں بھی کرتے ہیں۔ یہ کھلم کھلا پاکستان کے خلاف بولتے بھی ہیں۔ ان عناصر کی نشاندہی کرنا ہمارا فرض ہے اور ان کو کیفر کردار تک پہنچانا حکومت اور سیکورٹی اداروں کا فرض ہے۔ جشن آزادی کی تقاریب اور لوگوں کا ولولہ دیکھ کر دل خوشی سے باغ باغ ہو گیا۔ قائداعظم محمد علی جناح نے ہمیں اسلام کے نام پر خطہ زمین حاصل کر کے دیا اور انگریزوں سے ہمیں آزاد کروایا۔ ہندوستان کی تقسیم ہوئی اور دنیا کی سب سے بڑی ہجرت ہوئی جس میں تقریباً ایک کروڑ لوگوں نے حصّہ لیا۔ جو لیڈر آزادی حاصل کرتا ہے اس کا دوسرا بڑا کام اپنے لوگوں کو ایک قوم بنانا ہوتا ہے۔ قائداعظم نے یہ کام شروع ہی کیا تھا کہ زندگی نے انہیں مہلت نہ دی اور ان کی وفات کے بعد ہم پنجابی، پٹھان، بنگالی اور اب مہاجر، بلوچ، ہزارہ اور سرائیکی میں بٹ گئے جبکہ ہم سب پاکستانی ہیں۔ پاکستان ہماری پہچان ہے۔ 1971ء میں بنگال ہم سے جدا ہو گیا جبکہ 14؍اگست 1947ء کو بنگالیوں نے بھی ہندوستان سے بڑے پیمانے پر ہجرت کی تھی اور تکالیف برداشت کی تھیں۔ مگر نہ جانے پھر ایسا کیا ہوا کہ ہمارے بنگالی بھائی نہ صرف ہمیں چھوڑ گئے بلکہ انہوں نے ڈھاکہ، چٹاگانگ اور وہاں دوسرے شہروں میں بسنے والے پنچابیوں، بہاریوں اور مغربی پاکستان کے باشندوں کے خون کی ندیاں بہا دیں، ان کی جائیدادیں اور مال و اسباب چھین لیا، ان کے پیاروں کو نظروں کے سامنے قتل کر دیا، عزتیں لوٹیں اور اب 45؍سال بعد یکے بعد دیگرے جماعت اسلامی کے رہنمائوں کو ان کی کٹھ پتلی عدالتیں موت اور عمر قید کی سزائیں دے کر تختۂ دار پر چڑھا رہی ہیں۔ یہ سب کچھ ہماری اپنی غلطیوں، عقل و فہم کی کمی اور وقت کی نبض پر ہاتھ نہ رکھنے کی وجہ سے ہوا۔ بہرحال یہ پرانی باتوں کو یاد کرنے کا موقع نہیں ہے مگر یوں لکھ دیا کہ اپنی سابقہ کوتاہیوں پر نظر رکھ کر اپنے حال اور مستقبل کو درست کر لیں تاکہ ایسا نہ ہو کہ پھر منیر نیازی کے بقول ’’ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں۔‘‘ خدا کا شکر ہے اس سال جشن آزادی ایک نئے جذبے اور ولولے سے منایا گیا۔ اس میں ہمارے سپہ سالار جنرل راحیل شریف اور ان کے ماتحت کام کرنے والے فوجی افسران اور جوانوں کی انتھک محنت اور قربانیوں کا حصّہ ہے۔ اس دفعہ بلوچستان، کوئٹہ اور وزیرستان میں بھی یوم آزادی کی تقاریب ہوئیں۔ وہاں کے لوگوں کا جوش و ولولہ قابل دید تھا۔ سرکاری عمارات پر تو ہر سال ہی چراغاں ہوتا ہے مگر اس دفعہ بعض نجی اداروں اور سیاسی پارٹیوں کے کارکنوں نے کثیر رقم خرچ کر کے بڑے اعلیٰ پیمانے پر آتش بازی کی۔ آتش بازی کے مناظر بہت ہی دلکش تھے۔ مجھے آتش بازی دیکھ کر امریکا کا یوم آزادی 4؍جولائی یاد آ گیا۔ اتفاق سے میں نے تقریباً چار مرتبہ 4؍جولائی کا دن امریکا میں گزارا ہے کیونکہ ہماری کورٹ کی چھٹیاں جون اور جولائی میں ہوتی ہیں اور اسی وقت میں ملک سے باہر جاتا ہوں۔ امریکا کے ہر شہر میں وہاں کی لوکل گورنمنٹ اور عوام نے سمندر کے کنارے آتش بازی کا اہتمام کیا ہوتا ہے۔ اسے ان کی زبان میں ’’فائر ورکس‘‘ کہتے ہیں۔ فائر ورکس کو دیکھنے کیلئے امریکی ہزاروں کی تعداد میں شام چھ بجے سے ہی سمندر کے کنارے جمع ہو جاتے ہیں۔ فائر ورکس دیر تک ہوتے ہیں اور لوگ ان سے بہت لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اب یہ سلسلہ یہاں بھی شروع ہو گیا ہے۔ مجھے بہت خوشی ہوتی ہے۔ وفاقی دارالحکومت میں علی الصبح 31؍توپوں کی سلامی دی گئی جبکہ تمام صوبائی دارالحکومتوں میں 21؍توپوں کی سلامی دی گئی۔ جگہ جگہ تقاریب ہوئیں اور مٹھائیاں تقسیم کی گئیں۔ کراچی میں ڈیفنس کے علاقے میں 13؍اگست کو رات 12؍بجے لوگوں کے گارڈوں نے بے پناہ ہوائی فائرنگ کی۔ خوشی کا موقع ہے مگر ایسی فائرنگ خطرناک بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ آئندہ احتیاط کریں کیونکہ گولی جب اوپر سے واپس نیچے آتی ہے تو وہ کسی بھی شخص کو لگ کر نقصان پہنچا سکتی ہے۔ خوشی کے مواقع پر حادثات کی روک تھام کیلئے انتظامات ہونے چاہئیں اور احتیاطی تدابیر استعمال کرنی چاہئیں۔ لاہور میں تین نوجوان ون وہیل پر موٹر سائیکل چلاتے ہوئے اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ خوشی ضرور منائیں مگر اپنی اور دوسروں کی جان کو خطرے میں نہ ڈالیں۔ آخر میں ایم کیوایم کے استعفوں کے بارے میں عرض کروں کہ استعفے دینے کا اقدام ضروری تھا کیونکہ کچھ اخبارات میں خبریں/افواہیں شائع ہو رہی تھیں کہ مائنس الطاف فارمولہ بن رہا ہے۔ الطاف بھائی نے کمانڈ دے کر دکھا دیا کہ مائنس الطاف فارمولہ فلاپ ہے۔ تمام اراکین نے کمانڈ کو مان کر تمام افواہوں کو ختم کر دیا۔ اب استعفے واپس لے لیں گے اور واپس اسمبلیوں میں آ جائیں گے۔ ویسے بھی مولانا فضل الرحمٰن دعا کے ساتھ دوا بھی کرتے ہیں۔ وہ الطاف بھائی کو منانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ یہ میری پیش گوئی ہے۔ آخر میں عبدالحمید عدم کے حسب حال اشعار قارئین کی خدمت میں پیش کرتا ہوں:
وہ باتیں تیری وہ فسانے تیرے
شگفتہ شگفتہ بہانے تیرے
مظالم تیرے عافیت آفریں
مراسم سہانے سہانے تیرے
تازہ ترین