• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تیرے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
میری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں
ذرا سا تو دل ہوں مگر شوخ اتنا
وہی لن ترانی سنا چاہتا ہوں
کوئی دم بھر کا مہمان اے اہل محفل
چراغ سحر ہوں بجھا چاہتا ہوں
(علامہ اقبال)
اس ہفتے کی انتہائی اہم خبر جنرل حمید گل کا اس دارفانی سے کوچ کرجانا تھا مرحوم کی پاکستان، اسلام اور امت مسلمہ کے لئے خدمات کے اعتراف میں تمام میڈیا نے ان کی وفات کی خبر کو بھرپور کوریج دی اور راولپنڈی کے ریس کورس میں 50ہزار سے زائد لوگوں نے ان کی نماز جنازہ میں شرکت کی اور سیکورٹی انتظامات کی وجہ سے تاخیر سے پہنچنے والے لوگوں نے غائبانہ نماز جنازہ ادا کی۔ مرحوم ایک عسکری دانشور تھے دوسرے الفاظ میں تھنک ٹینک تھے اور ان کی تمام تر کوششیں امت مسلمہ کی دنیا بھر میں سرخ روئی کے لئے تھیں ان کو خراج عقیدت پیش کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ان کی وفات کے بعد ان کے مشن کو جاری رکھا جائے۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالٰی مرحوم کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے اور ان کے پسماندگان کو یہ نقصان برداشت کرنے کا حوصلہ اور صبر دے۔ وزیر اعظم نواز شریف کا کراچی کا طوفانی دورہ ایک ہی دن میں ختم ہوگیا۔ آئے بھی وہ گئے بھی وہ، ختم تماشہ ہوگیا۔ تشنگی برقرار رہی۔ کوئی کام کی بات منظر عام پر نہیں آئی سوائے نیوکلیئر پاور پروجیکٹ کے افتتاح کے۔
جمعہ کے اخبارات میں دو خبریں ایک ساتھ ہی لگی ہوئی ہیں۔ ایان علی پر فرد جرم عائد کئے جانے کا امکان اور ایان علی کی بطور چیف گیسٹ کراچی یونیورسٹی کے شعبہ پبلک ایڈمنسٹریشن میں دعوت اور پھر تقریر۔ طلبہ نے سیلفیاں بنائیں۔ آپ اس بات سے یہ اندازہ لگائیں کہ اس ڈپارٹمنٹ کا معیار یہ ہے تو پھر یہ لوگ تعلیم سے فارغ ہو کر قوم کو کیا دیں گے۔ ایک اخباری اطلاع کے مطابق یونیورسٹی کی انتظامیہ کو اس سانحہ کی خبر نہ تھی اور تمام کام بالا ہی بالا ہوگیا۔ اگر یونیورسٹی کی انتظامیہ یونیورسٹی میں ہونے والے واقعات اور معاملات سے اس قدر بے خبر ہے تو پھر یقیناً وہاں بھی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ یونیورسٹی کے چانسلر کو چاہئے کہ فوری طور پر اس معاملے کی تحقیقات کرے اور ذمہ دار افراد کے خلاف کارروائی کا حکم دیا جائے۔ تعلیمی اداروں کا ایک اپنا تقدس ہوتا ہے۔ ورائٹی پروگرام کی حد تک فنکاروں کا مدعو کیا جانا تو سمجھ میں آتا ہے مگر بطور چیف گیسٹ مدعو کرکے صدارتی خطبہ دلوانا ایک نئی خبر ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ اب ہم نئے پاکستان کے ساتھ ساتھ نئے تعلیمی نظام کی طرف بھی گامزن ہیں۔ اگر حالات یہی رہے تو ہم ضرور ترقی کی منزلیں جلد از جلد طے کریں گے۔ جنرل حمید گل جیسے لوگ تو رخصت ہورہے ہیں۔ اب ایان علی کا زمانہ ہے۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟ ایک دل چسپ خبر یہ ہے کہ پنجاب حکومت نے اسپیشل پولیس کو حکم دیا ہے کہ وہ ڈینگی مچھروں کی تلاش کریں۔ اگر یہ خبر سچ ہے تو بہت ہی عمدہ خبر ہے اور اسے تو بین الاقوامی میڈیا میں زبردست کوریج ملنا چاہئے۔ بھارتی حکومت نے کبوتر کو گرفتار کیا تھا۔ ہم مچھروں کی تلاش میں ہیں۔ قانونی نقطہ یہ ہے کہ پولیس کو ڈینگی مچھر کی نشاندہی کون کرے گا اور شناخت کون کروائے گا۔ پھر اپنی تمام تر کامیابیوں کے باوجود گفتگو کا فن نہیں رکھتا اس لئے پولیس ڈینگی مچھر سے تفتیش کرنے سے قاصر ہے۔ صرف گرفتاری عمل میں لائی جاسکتی ہے۔ اگلا مرحلہ ڈینگی کی شناخت کا ہے۔ مجھے پتہ نہیں کہ اس کا ڈی این اے ہوسکتا ہے یا نہیں۔ ڈاکٹر سیمیں جمالی آج میرے ساتھ سپریم کورٹ میں تھیں۔ میں نے ان سے بھی ڈینگی کے ڈی این اے کے متعلق سوال کیا مگر انہوں نے بھی کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا۔ اب پولیس والے اپنی پتلونوں کی جیبوں سے مچھر نکال نکال کر افسران کو دکھائیں گے اور مچھروں کی زیادہ سے زیادہ لاشوں پر انہیں شولڈر پروموشن ملے گا۔ خیر یہ تو مذاق کی باتیں ہیں اور قارئین کی دل پشوری کرنے کے لئے لکھ دی ہیں سنجیدہ بات یہ ہے کہ رشید گوڈیل جوکہ اللہ کے فضل و کرم اور ڈاکٹروں کی کاوشوں سے تیزی سے روبہ صحت ہورہے ہیں ان کے قاتلوں کی کیمرہ فوٹیج کراچی پولیس نے اسکاٹ لینڈ یارڈ کو بھیج دی ہیں چونکہ ہمارے ہاں سستے اور غیرمعیاری کیمروں کی وجہ سے قاتلوں کے چہرے صاف دکھائی نہیں دے رہے۔ پولیس کو اسکاٹ لینڈ یارڈ کو پندرہ ہزار پائونڈ دینے پڑ رہے ہیں۔ غیرمعیاری کیمروں کا نصب ہونا کرپشن کا ثبوت ہے یہی وجہ ہے کہ ایف آئی اے کرپشن کے صوبائی حکومت سے متعلقہ کیسوں میں بھی ہاتھ ڈال رہی ہے۔
یہ بہت ضروری ہے کیونکہ صوبائی حکومت کے متعلقہ عہدیداروں سے سپلائرز کا گٹھ جوڑ ہوتا ہے۔ اپنے من پسندلوگوں کو بجٹ سے ٹھیکے دئیے جاتے ہیں۔ کمیشن مافیا کی وجہ سے سپلائر غیرمعیاری چیزیں مارکیٹ سے خرید کر حکومت کو سپلائی کردیتے ہیں اور فوری طور پر ان کے بل بھی پاس ہوجاتے ہیں اور رقم کی ادائیگی ہوجاتی ہے۔ ایف آئی اے درست طریقے پر ان تمام معاملات کی تفتیش کررہی ہے اور انشاء اللہ ان تمام لوگوں کو جنہوں نے پچھلے دور میں کمیشن لے کر قومی خزانے کو نقصان پہنچایا ہے انہیں کیفر کردار تک پہنچانے کا بندوبست کرے گی۔ کیمروں کے بارے میں بھی وزیر اعظم نے ہدایت کی ہے کہ معیاری ہونے چاہئیں اور غیرمعیاری کیمرے حکومت کو سپلائی کرنے اور نصب کرنے والی کمپنیوں کے خلاف کارروائی کرنی چاہئے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ایف آئی اے کو دبئی میں پاکستانیوں کی جائیدادوں کا ڈیٹا مل گیا ہے۔ اور انہوں نے لوگوں کو نوٹس بھیج کر طلب کرنا شروع کردیا ہے وہ یہی پوچھتے ہیں کہ وہاںپیسے کیسے پہنچائے۔۔ سننے میں آیا ہے کہ کچھ لوگوں نے ہائی کورٹ سے ایف آئی اے کی کارروائی کے خلاف اسٹے آرڈر کے لئے کوششیں شروع کردی ہیں مگر ایف آئی اے نے بھی ایف آئی آر کاٹنی شروع کردی ہے۔ ’’وقت کم ہے اور مقابلہ سخت‘‘ قائم علی شاہ صاحب کو اعتراض ہے کہ ایف آئی اے صوبائی کرپٹ افسروں کو کیوں پکڑ رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں صوبائی محکمہ انسداد رشوت (اینٹی کرپشن ڈپارٹمنٹ) پکڑے گا۔ صوبائی محکمہ ان کے ساتھ سگی ماں والا سلوک کرے گا۔ اب صوبائی محکمہ اینٹی کرپشن نے بھی کچھ جان پکڑی ہے مگر ان کی مجبوریاں بہت زیادہ ہیں۔ جس طرف بھی دیکھتے ہیں اپنے ہی آدمی ہیں۔ کیسے ہاتھ ڈالیں۔ اسی کشمکش میں قیمتی وقت ضائع ہورہا ہے۔ کرپٹ افسران ایک ایک کرکے ملک سے چلے گئے ہیں اور اب یہ سابقہ دور کی طرح پھر کسی نئے این آر او پر واپس آکر بڑے بڑے عہدوں پر براجمان ہوجائیں گے۔کچھ تو ابھی بھی بیٹھے ہوئے ہیں کیونکہ حکومت کے خاتمے سے پہلے انہوں نے لمبے لمبے کنٹریکٹ خود ہی بنالئے اور صدر صاحب سے دستخط کروالئے۔ آخر میں انعام ندیم کے اشعار قارئین کے نذر کرتا ہوں۔
ہے دھند میں ڈوبا ہوا اس شہر کا منظر
کیا جانئے کب تک یہ سماں یوں ہی رہے گا
کچھ دیر رہے گی ابھی بازار کی رونق
کچھ دیر یہ ہونے کا گماں یوں ہی رہے گا
تازہ ترین