• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
متحدہ قومی موومنٹ نے ڈرامائی طور پر انتہائی قدم اٹھاتے ہوئے قومی اسمبلی، سینیٹ اور سندھ اسمبلی سے استعفے دیدئیے اور اس طرح کراچی میں رینجرز کی طرف سے دہشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصر کے خلاف کئےجانے والے آپریشن کے خلاف احتجاج کرنے کا طاقتور پیغام دیا۔ اُنھو ں نے اسمبلیوں سے استعفے کا پتہ کھیلتے ہوئے نواز شریف حکومت اور کچھ سینئر سیاست دانوںکویہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ وہ ایم کیو ایم کو واپس اسمبلیوںمیں لانے کی کوئی تدبیر کریں۔ ابھی استعفے قبول نہیں کیے گئے کیونکہ قومی اسمبلی اور سندھ اسمبلی کے اسپیکرصاحبان اور چیئرمین سینیٹ نے اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ارکان نے یہ استعفے اپنی مرضی، نہ کہ کسی دبائوکے تحت، سے دئیے ہیں۔ پارٹی پر سپریم لیڈر، الطاف حسین کے مکمل کنٹرول کی وجہ سے ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے سینیٹیرز یا ارکان ِاسمبلی یہ قطعاً نہیں کہہ سکتے کہ وہ یہ استعفے دبائو میں آکر دے رہے ہیں۔ ایم کیو ایم کے ماضی کودیکھتے ہوئے یہ بات پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ پارٹی سے تعلق رکھنے والے ارکان اپنی اعلیٰ قیادت کے فیصلے کی مکمل تائید کریںگے۔ ایم کیو ایم کے مستعفی ہونے والے کچھ ارکان نے اپنے ڈسپلن کا حوالے دیتے ہوئے پی ٹی آئی کو یاددلانے کی کوشش کی کہ جب عمران خان نے استعفے دینے کا اعلان کیا تھا تو کچھ ارکان کی طرف سے انکار سامنے آیا تھا۔ استعفے قبول کرنے میں اختیار کیے گئے طریق ِ کار نے حکومت کو وقت دے دیا ہے کہ وہ ایم کیو ایم کو واپس اسمبلیوںمیں لانے کی کوشش کرے۔ ایک زیرک سیاست دان ہونے کے ناتے، الطاف حسین نے مکمل طور پر دروازہ بند نہیںکیا ۔ اُن کاکہناتھا کہ اگر کراچی آپریشن کے حوالے سے اُن کے تحفظات دور ہوجاتے ہیں تو ایم کیو ایم استعفے واپس لے سکتی ہے۔ ایم کیو ایم کے قائد نے کراچی آپریشن کو جانبدارانہ قراردیتے ہوئے کہا کہ اس کا رخ صرف ایم کیو ایم کی طرف ہے۔ اُنھوں نے اسے ’’ اردوبولنے والے مہاجروںکی نسل کُشی‘‘ قراردیا۔ اُن کی پارٹی کے رہنمائوں کا دعویٰ ہے کہ ایم کیو ایم کے چالیس کارکنوں کو ہلاک کیا جاچکا ہے جبکہ ایک سوپچاس کے قریب غائب ہیں، کہا گیا کہ یہ لوگ ایجنسیوں کی تحویل میں ہیں ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس مرتبہ الطاف حسین کیا کرنا چاہتے ہیں؟ کچھ تجزیہ کاروں کے نزدیک یہ استعفے دے کر الطاف حسین نے ’’مائنس الطاف‘‘ فارمولے کا جواب دیا ہے ۔ گویا یہ ثابت کرنا مقصود تھاکہ الطاف حسین اور ایم کیو ایم لازم وملزوم ہیں۔ اس وقت پی ایم ایل (ن) اور دیگر جماعتوں کے سامنے یہ معاملہ ایک مرکزی ایشو کی حیثیت اختیار کرچکا کہ وہ الطاف حسین کو منانے کے لئے اُنہیں ریلیف کس طرح دیں؟ الطاف حسین بیرون ملک، اپنے لندن کے پرسکون گھر ، سے پاکستان (اور اس مرتبہ امریکہ بھی) میں اشتعال انگیز تقاریر کرتے ہوئے اپنے لئے مسائل بڑھالیتے ہیں۔ اُنھوں نے ٹیلی فونک خطاب کا رجحان شروع کیا۔ اگرچہ کچھ اور رہنما بھی ایسا کرتے ہیں لیکن اس ضمن میں الطاف حسین کا کوئی حریف نہیں۔ اب جبکہ ایم کیو ایم کے قائدکو صحت کے مسائل کا بھی سامنا ہے اور وہ عمر کی گھاٹی میں بھی اتر رہے ہیں، تو اُنہیں شاید اپنے اعصاب پر کنٹرول نہیں رہا اور وہ جوش ِ خطاب میں خود کوکسی نہ کسی تنازع میں الجھا لیتے ہیں۔ وہ اپنے مخالفین پر چڑھائی کے لئے ہمہ وقت تیار ، بلکہ مستعدرہتے تھے لیکن گزشتہ کچھ عرصے سے اُنھوں نے ایم کیو ایم کے عہدیداروں کو سرِعام آڑے ہاتھوں لینے کی پالیسی اپنارکھی ہے۔الطاف حسین اس بات پر غصے میں آجاتے ہیں کہ انھوں نے اپنے قائد پر تنقید یا الزامات کے موقع پر میڈیا یا گلیوں میں احتجاج کرتے ہوئے اُن کا دفاع کیو ں نہ کیا۔ الطاف حسین کی ایک اور عادت دیکھی گئی کہ وہ بات بات پر ایم کیو ایم کی قیادت سے دستبردار ہونے کا اعلان کرتے لیکن پارٹی کارکنوں کے اصرار پر فیصلہ واپس لے لیتے ۔ یہ عمل اتنے تسلسل سے ہوتارہا کہ بہت سے پاکستانیوں نے ان کی باتوں کوسنجیدگی سے لینا چھوڑ دیا ۔
تاہم الطاف حسین کی طرف سے فوجی جنرلوں پر شدید تنقید ایسی چیز نہیں تھی جسے نظر انداز کیا جاسکے۔اگرچہ اب پاکستان میں فوج پر تنقید کرنا شجر ِ ممنوع کا پھل توڑنے کے مترادف نہیں رہا لیکن تنقید کو ایک دائرے میں دھیمے لہجے میں رکھا جاتا ہے۔ تاہم الطاف حسین جوش ِ خطابت میں تمام حدیں پار کرجاتے ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے اُنھوں نے اسٹیبلشمنٹ کی ناراضی مول لے لی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کا خیال ہے کہ اگر اس رجحان کو ابھی سے نہ روکا گیا تو یہ توانا ہوتے ہوئے ایک منفی روایت ڈال دے گا۔ الطاف حسین 1992 ،جب ایم کیو ایم کے خلاف ہونے والے کریک ڈائون سے بچ کر پاکستان سے فرار ہوگئے تھے،سے برطانیہ میں رہ رہے ہیں ۔ اس طرح وہ پاکستانی قانون کی گرفت سے تو محفوظ ہیں، لیکن برطانوی قانون کے یقینی طور پر پابندہیں۔ وہاں اُن کے سرپراُن کے سابق ساتھی، ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس کی تلوار لٹک رہی ہے۔ اسی طرح منی لانڈرنگ ، جو برطانیہ میں ایک سنگین جرم سمجھا جاتا ہے، کے الزامات بھی اُن کے تعاقب میں ہیں۔ پاکستان میں ایم کیو ایم کے رہنما اپنے قائد کی تقریروں کا دفاع کرنا مشکل پاتے ہیں ۔ جب بھی ان کے قائد فوج کو تنقید کا نشانہ بناتے تو ایم کیو ایم کے رہنما پاکستانی میڈیا کے سامنے اس کی عجیب وغریب توجیحات دیتے دکھائی دیتے۔اگرچہ ماضی میں یہ رہنما الطاف بھائی کی زبان سے ادا ہونے والے ہر لفظ پر بھرپور اسٹینڈ لیتے تھے لیکن اب اُن میں سے کچھ نے احتیاط کا دامن تھامنا شروع کردیا ، کچھ نے سکوت کو دانائی قراردیا ، جبکہ کچھ رہنما گرفتاریوں کے ڈر سے زیر ِ زمین چلے گئے تو کچھ بیرونی ممالک کو سدھارے ہیں، تاہم کچھ میدان میں ڈٹے ہوئے ہیں، جیسا کہ ڈاکٹر فاروق ستار، جو ایم کیوایم کے پرعزم ترجمان بن کر سامنے موجود ہیں۔ حالیہ دنوں الطاف حسین سے ہونے والی بنیادی غلطی مہاجروں کے لئے بھارت سے مدد طلب کرنا تھی۔
اُنھوں نے بھارتیوں کو بزدلی کا طعنہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ مہاجروں کی مدد کو نہیں آئے حالانکہ ان کے آبائو اجداد کا تعلق انڈیا سے تھا اور وہ تقسیم ِ ہند کے وقت ہجرت کرکے پاکستان آئے تھے۔ اب معاملہ یہ ہے کہ الطاف حسین کی ہدایت پر دئیے گئے استعفے ایم کیو ایم کا ٹرمپ کارڈ تھے جو(اُن کے خیال میں) حکومت کو مجبور کرسکتے تھے کہ وہ اُن کے کارکنوں کے خلاف رینجرز کے آپریشن کو روکے۔ ایم کیو ایم، جس کی صفوں میں شدت پسند اور ٹارگٹ کلرز موجود ہیں، کی طرف سے اس فیصلے نے ملکی سیاست میں ہلچل برپا کردی ۔ تاہم نواز شریف حکومت کو یقین ہے کہ ایم کیو ایم کے پارلیمان سے رخصتی کے فیصلے سے جمہوری سیٹ اپ کو کوئی خطرہ نہیں۔ اس کے علاوہ وہ یہ بھی جانتی ہے کہ کراچی میں دکھائی دینے والا موجودہ امن آپریشن کی وجہ سے ہی ہے۔ یہ استعفے ایم کیو ایم کے قانون سازوں کی کراچی اور حیدر آباد کے مختلف حلقوں سے بھاری نمائندگی کو ظاہر کرتے ہیں۔ قومی اسمبلی کی چوبیس، سینیٹ کی آٹھ اور سندھ اسمبلی کی اکاون نشستوں سے استعفے دئیے گئے ہیں۔آپریشن کے باوجود ایسا کوئی اشارہ نہیں ملتا کہ ایم کیوایم مہاجر طبقے کی سیاسی حمایت سے ہاتھ دھوبیٹھی ہو۔ کراچی، حیدرآباد، سکھر، میرپور خاص اور سندھ کے دیگر شہری علاقوں کی قابل ِ ذکر آبادی اسی مہاجر طبقے پر مشتمل ہے، چنانچہ ہڑتال کی کال کی صورت میں ان شہروںمیں زندگی مفلوج ہوسکتی ہے۔ سندھ میں مقامی حکومتوں کے انتخابات، جو آخر کاراسی سال ہونے جارہے ہیں، ایم کیو ایم کے محفوظ ووٹ بنک کی تصدیق کردیں گے۔ ہوسکتاہے کہ ایم کیو ایم استعفوںسے خالی ہونے والی نشستوں پرکرائے جانے والے ضمنی انتخابات میں حصہ لینے کا آپشن بھی استعمال کرے اور ووٹ لیتے ہوئے ثابت کردے کہ ان پر ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری اوردیگر الزامات میں کوئی صداقت نہیں۔ آخری مرتبہ ایم کیو ایم نے کراچی سے قومی اسمبلی کے این اے 246کے ضمنی انتخاب میں حصہ لیا تھااور یہاںسے اس کے امیدوار ، کنور نوید جمیل نے بہت بڑے مارجن سے پی ٹی آئی اور جماعت ِاسلامی کے امیدواروںکو شکست دی تھی۔ ضمنی انتخابات کو مجموعی طور پر منصفانہ سمجھا گیا تھا ۔ اس سے پہلے ایم کیو ایم پر الزام تھا کہ وہ کامیابی کے لئے دھاندلی اور اپنے سیکٹر کمانڈر وں کا اثر (یا خوف) استعمال کرتی ہے۔
اس وقت کوئی جماعت بھی ایم کیو ایم کاساتھ دیتی دکھائی نہیں دیتی کیونکہ اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت اور الطاف حسین کی فوج مخالف تقاریر کا کسی کے پا س بھی کوئی علاج نہیں۔ اس کے علاوہ فوج بھی ملک کے تمام حصوں، جیسا کہ فاٹا، بلوچستان اور کراچی میں دہشت گردوں کے خلاف غیر جانبداری سے آپریشن کرنا چاہتی ہے۔ اب وہ ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، دہشت گردی ، انتہا پسندی اور ایسے جرائم جو ریاست کے وجود کو چیلنج کرتے دکھائی دیں کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں۔ اس انتہائی نازک صورت ِحال میںایم کیو ایم نے اپنا آخری دائو چل دیا ہے۔ تاہم اب تک یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ یہ دائو رینجرز کے آپریشن کو نہیں روک سکتا، اس لئے ایسا لگتا ہے کہ ایم کیو ایم کے لئے یہ دائو الٹا پڑجائے گا۔
تازہ ترین