• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حمایت سے بلوچستان میں دوسال سے زائد عرصے سے قائم بلوچ پشتون قومی حکومت نے دو سنجیدہ اقدامات اٹھاتے ہوئے خودساختہ جلاوطنی اختیار کرنے والے کچھ بلوچ رہنمائوں کو قائل کیا ہے کہ وہ وطن واپس آکر ریاست کے خلاف لڑنے والوں کو ہتھیار ڈالنے پر راغب کریں۔ ہتھیار ڈال کر قومی دھارے میں شامل ہونے والوں کے ساتھ مالی تعاون بھی کیا جارہا ہے۔
ان میں سے پہلے اقدام کے نتیجے میں کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوسکی تھی کیونکہ بلوچ قبائلی سردار، خان آف قلّات، میر سلیمان دائود خاں ، جو برطانیہ میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں، نے بلوچستان واپس آنے کے لئے کچھ مخصوص شرائط رکھی تھیں۔ تاہم 2006 ، جب سے وہ پاکستان سے گئے ہیں، کے بعد پہلی مرتبہ ایسا ہوا تھا کہ وہ کچھ اہم بلوچ قبائلی سرداروںکے ساتھ مل کر وطن واپس آنے کے امکانات پربات کرنے کے لئے تیار ہوئے تھے۔خان آف قلّات کا کہنا تھا کہ اگر اُن کے زخموں پر مرہم رکھتے ہوئے بلوچستان میں ’’مناسب حالات ‘‘ پیدا کردئیے جائیں تو وطن واپس آنے کے لئے تیار ہیں۔ تاہم اُن کا یہ کہنا تھا کہ ایک تو بلوچستان میں فوجی آپریشن بند کردیا جائے اور دوسرے بلوچستان کا گرینڈ جرگہ ، جس نے اُنہیں بیرون ِ ملک جاکر عالمی سطح پر بلوچوں کے حقوق کے مسئلے کواجاگر کرنے کا مشورہ دیا تھا، اُنہیں وطن واپس آنے کے لئے قائل کرئے اور بتائے کہ اب حالات سازگار ہیں۔
بلوچ گرینڈ جرگے کے کچھ اہم ارکان، جن میں نواب ثنا اﷲ زہری، جوجھلوان کے چیف اور پی ایم ایل(ن) کی حکومت کے ایک سینئر صوبائی وزیر ہیں، نواب محمد خان شہوانی، سردار کمال بنگلزئی، میر خالدلنگاو(Mir Khalid Longove) اور میر کبیر محمد شاہی شامل تھے، برطانیہ گئے اور خان آف قلّات سے درخواست کی کہ وہ بلوچستان واپس آکر قیام ِامن میں اپنا کردار ادا کریں۔یہ افراد بلوچستان کی کولیشن حکومت کا حصہ ہونے کی وجہ سےخان آف قلّات سے بات کرنے کے لئے وزیر ِاعلیٰ، ڈاکٹر عبدالمالک کا مینڈیٹ رکھتے ہیں ۔ تاہم ابھی تک خان آف قلّات اس بات پر قائل نہیں ہوئے کہ بلوچستان کی موجودہ حکومت صوبے کے بارے میں اپنی مرضی کے فیصلے کرنے کے لئے آزاد ہے یا وہ بلوچ قوم پرستوں اور علیحدگی پسندوں کی مبینہ ماورائے عدالت ہلاکتوں کو روک سکتی ہے۔
میر سلیمان دائود خان کو وطن واپس لانے کے لئے کئی ماہ سے کوششیں جاری ہیں۔ ان کوششوں کو اُس وقت تقویت ملی جب بلوچستان اسمبلی نے متفقہ قراردار منظور کرتے ہوئے حکومتی سطح سے اس کاوش کی حمایت کی۔ اس سلسلے میں ایک اور حوصلہ افزا پیش رفت نواب اکبر بگٹی کے پوتے برہمداغ بگٹی کا بیان ہے کہ اگر بلوچ عوام اپنی رضا مندی ظاہر کردیں تو وہ حکومت کے ساتھ بات کرنے اور بلوچستان کی علیحدگی کے مطالبے سے دستبردار ہونے کے لئے تیار ہیں۔ اس پیش رفت سے آخر کار بلوچستان کے مسائل کے پرامن حل کے لئے کوئی فریم ورک طے کرنے کے امکانات پیدا ہوچلے ہیں۔ اس سے پہلے بلوچ علیحدگی پسندوں کی طرف سے ایسی مفاہمتی گفتگوسننے کو نہیں ملتی تھی۔ وہ آزاد بلوچستان کے لئے ریاست کے خلاف لڑنے اور حکومت ِ پاکستان سے بات کرنے کے لئے عالمی طاقتوں کی ضمانت طلب کرنے کی بات کرتے تھے۔
حکومت کی طرف سے کی جانے والی دوسری پیش رفت واضح طو رپرکامیاب دکھائی دیتی ہے۔ اس وقت تک پانچ سو سے زائد بلوچ علیحدگی پسند ،جنہیں مقامی طور پر فراری کہا جاتاہے،نے ہتھیارڈ ال دئیے ہیں۔ آنے والے ہفتوں میں مزید جنگجو بھی ایسا کرتے دکھائی دیں گے۔ جو افراد ہتھیارڈال کرقومی دھارے میں شامل ہونا چاہیں، اُن کے لئے ’’پرامن بلوچستان‘‘ پروگرام کے تحت پانچ سے پندرہ لاکھ کا تعاون کیا جارہا ہے۔ ’’پرامن بلوچستان‘‘ پروگرام وزیر ِاعظم نواز شریف اور آرمی چیف، جنرل راحیل شریف کے حالیہ دورہ ٔ کوئٹہ کے موقع پر شروع کیا گیا۔ سادہ الفاظ میں ، یہ رقم ان بلوچ شورش پسندوں کی حوصلہ افزائی کے لئے ہے کہ جو ریاست پاکستان کے خلاف لڑائی کی پالیسی ترک کردیں۔ جن افراد نے یہ منصوبہ وضع کیا، اُنہیں امید ہے کہ رقم کی ترغیب علیحدگی پسندوں کو قومی دھارے میں لے آئےگی اور وہ پاکستان دشمن طاقتوںسے مالی مفاد کا خیال ترک کردیں گے۔ پاکستانی حکام، خاص طو رپر جن کا تعلق بلوچستان سے ہے، کا اعلانیہ دعویٰ ہے کہ افغان اور انڈین خفیہ ادارے بلوچستان کے حالات خراب کررہے ہیں۔ اسلام آباد کا دعویٰ رہا ہے کہ افغانستان بلوچ علیحدگی پسندوں کو پناہ دئیے ہوئے ہے اور ہندوستان افغان سرزمین کو استعمال کرتے ہوئے نہ صرف بلوچستان بلکہ فاٹا کے بھی حالات خراب کررہا ہے۔
ابھی یہ کہنا قبل ازوقت ہوگا کہ ’’پرامن بلوچستان‘‘ پروگرام کس حد تک کامیاب جارہا ہے۔پاکستان میں ایسے پروگرام ، جن میں رقم استعمال کی جارہی ہو، بدعنوانی کے شکوک وشبہات کودعوت دیتے ہیں، لیکن توقع کی جانی چاہئے کہ فوج اس پروگرا م کی منظم اور پیشہ ورانہ انداز میں نگرانی کرے گی۔ اس بات کا تعین ہتھیار ڈالنے والوں کی عسکری طاقت کی بنیاد پر کیا جائے گا کہ کس کو پانچ لاکھ اور کس کو پندر ہ لاکھ، جو زیادہ سے زیادہ رقم ہے، ملیں گے، لیکن یہ معاملہ پیچیدہ ہونے کی وجہ سے شکوک و شبہات کو جنم دے سکتا ہے۔ یہ سوال بھی اٹھیں گے کہ ہتھیار ڈالنے والے درحقیقت علیحدگی پسند ہی ہیں یانہیں۔ اگر یہ پیش رفت بلوچستان میں کامیاب ہوجاتی ہے تو پھریہ مطالبہ بھی سامنے آئے گا کہ فاٹا اور خیبر پختونخوا کے شورش زدہ علاقوں میں بھی یہی روش اختیار کی جائے۔
بلوچستان کے ہوم منسٹر، میر سرفراز بگٹی، جنھوں نے نواب خیر بخش مری مرحوم کے ناراض بیٹے اور حالیہ دنوں صوبائی حکومت میں وزیر ِ آبپاشی، نوابزادہ جانگیز مری کے ساتھ مل کر بلوچ علیحدگی پسندوں کو ہتھیار ڈالنے کے لئے راضی کرنے میں اہم کردار ادا کیا ، کا وعدہ ہے کہ جنگجوئوں کو اپنے گھروں میں آباد ہونے اور باعزت طریقے سے نئی زندگی شروع کرنے کے لئے درکار تعاون فراہم کیا جائے گا ، نیز ریاست ان کے بچوں کے لئے تعلیم اور صحت کی سہولت فراہم کرے گی۔ امید کی جانی چاہئے کہ یہ وعدے وفا ہوں گے۔ بلوچ جنگجوئوں کا اتنی بڑی تعداد میں ہتھیار ڈالنا ایک منفرد واقعہ ہے ، اس لئے اس کی شفافیت پر یقینا شکوک وشبہات پیدا ہوں گے۔ ماضی میں بلوچ قوم پرست نواب نوروز خان زراق زئی نے 1959 میں ہتھیارڈالے تھے لیکن اُس وقت حکومت اُن کی اور ان کے ہتھیار ڈالنے والے ساتھیوں کی جان بخشی کے وعدے کی پاسدار ی میں ناکام ہوگئی۔ اس وعدہ خلافی کے مستقبل میں ہونے والی مفاہمتی کوششوں پر منفی اثرات مرتب ہوتے رہے۔
پاک آرمی کی سدرن کمان کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل محمد ناصر خان جنجوعہ نے چودہ اگست کو کوئٹہ پولیس لائنز میں ہونے والی تقریب میں ان شکوک کوبے بنیاد قراردیتے ہوئے کہا کہ یہ یوم ِ آزادی بلوچستان میں دوستی کے آغاز اور دشمنی کے اختتام کا سنگ میل ثابت ہوگا۔ ٹی وی پر دکھائی جانے والی اس تقریب میں اُنھوں نے ہتھیار ڈالنے والوںسے کہا کہ وہ اس عمل پر شرمندگی محسوس نہ کریں ، بلکہ اُن کے سرفخر سے بلند ہونے چاہئیں۔ ہتھیار ڈالنے کی ایسی ہی تقریبات ڈیرہ بگٹی، خضدار اور دیگر مقامات پر منعقد ہوئیں اور ان میںبگٹی اور مری کے علاوہ چھوٹے قبیلوںسے تعلق رکھنے والے افراد نے بھی ہتھیار ڈالے۔ یہ جنگجو مختلف گروہوں سے تعلق رکھتے ہیں، تاہم بلوچ لبریشن آرمی اور اس طرح کے دیگر گروہوں نے اپنے لوگوں کے ہتھیارڈالنے کی تردید کی ہے۔ حال ہی میں بلوچ لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) کے لیڈر، ڈاکٹر اﷲ نذر کی ہلاکت کی غیر مصدقہ اطلاعات ملیں، لیکن بی ایل ایف نے اس کی تردید کی۔ ماضی میں بی ایل ایف کے گڑھ، مکران میں کسی بلوچ جنگجو کے ہتھیار ڈالنے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا ، لیکن اب ایسا ہورہا ہے۔ کیا ا س کا یہ مطلب ہےکہ ڈاکٹر اﷲ نذر ہلاک ہو چکا؟ فی الحال ہم یہ بات یقینی طور پر نہیں کہہ سکتے، لیکن اس کی ہلاکت بلوچ علیحدگی پسندوں کے لئے ایک بہت بڑا دھچکا ہوگی کیونکہ وہ ایک ایسا جنگجو تھا جو میدان میں رہ کر بلوچستان کی علیحدگی کے لئے جنگ کررہا تھا جبکہ دیگر علیحدگی پسند مغربی اور خلیجی ممالک میں آرام دہ زندگیاں بسر کررہے تھے۔
تازہ ترین