• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت، درد سے بھر نہ آئے کیوں
روئیں گے ہم ہزار بار، کوئی ہمیں ستائے کیوں
دیر نہیں، حرم نہیں، در نہیں، آستاں نہیں
بیٹھے ہیں رہگزر پہ ہم، غیر ہمیں اٹھائے کیوں
(غالب)
اس ہفتے کی بڑی خبروں میں چیف جسٹس آف پاکستان جواد ایس خواجہ کی ریٹائرمنٹ اور ریٹائرمنٹ سے پہلے آخری دو دنوں میں اہم فیصلے شامل ہیں۔ ان فیصلوں میں اردو کو ملک کی دفتری زبان کے طور پر رائج کرنا ایک بہت بڑا اور اہم فیصلہ ہے جس کے دور رس نتائج نکلیں گے۔ اس وقت تو ان تمام لوگوں کو جنہیں انگریزی بھی نہیں آتی یہ فیصلہ عجیب اور اس پر عمل درآمد مشکل نظر آرہا ہے مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایک وقت ایسا آئے گا کہ لوگ بھول جائیں گے کہ کبھی انگریزی ہماری دفتری زبان تھی۔ میں انگریزی زبان کے خلاف نہیں ہوں۔ بیرسٹر ہوں۔ انگریزی ہی میں لکھتا اور پڑھتا ہوں مگر آپ یہ سوچیں کہ ملک کے کتنے فیصد لوگ انگریزی لکھ اور پڑھ سکتے ہیں۔ اصل حقیقت علم اور خیالات کی ہے۔ زبان تو ان کے اظہار کا ایک ذریعہ ہے بہت لوگ بہت سی باتوں کا بہت اچھا علم رکھتے ہیں مگر انگریزی زبان سے نابلد ہونے کی وجہ سے اپنے خیالات کا اظہار نہیں کرسکتے اور اگر کبھی کرتے ہیں تو کے پی کے کے وزیر کی طرح انگریزی میں کہتے ہیں کہ (CORRUPTION SHOULD BE ABOVE THE BOARD) کرپشن ہونی چاہئے یہ زبان پر عبور نہ ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے ۔ قومی اور مادری زبان کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ پٹھان پشتو میں غلط بات بھی سمجھ جاتا ہے جبکہ ہم اپنی زبان میں اسے صحیح بات سمجھانے میں بھی دقت محسوس کرتے ہیں۔ دنیا کے بڑے ترقی یافتہ ملکوں یعنی چین اور جاپان میں ان کی اپنی چینی اور جاپانی زبانیں رائج ہیں اور تمام دفتری کام ان کی اپنی زبانوں میں ہوتا ہے جس کی وجہ سے ان کے ملک کا ہر فرد اپنی قوم کی ترقی میں حصہ لے سکتا ہے یہی وجہ ہے کہ وہ قومیں ہم سے آگے ہیں۔ قومی زبان کو رائج کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ آپ انگریزی سے نابلد ہوجائیں۔ انگریزی زبان کی ایک اپنی اہمیت ہے جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ہر شخص کو انگریزی زبان سیکھنی اور سمجھنی چاہئے کیونکہ آجکل بین الاقوامی تجارت کیلئے انگریزی زبان پر ہی انحصار کیا جاسکتا ہے E-Mail بھی انگریزی زبان میں عموماً لکھی اور پڑھی جاتی ہے۔ ہم ڈاکٹروں اور انجینئرز کی صورت میں ’’مین پاور‘‘ افرادی قوت ایکسپورٹ کرتے ہیں اور Remitance کی صورت میں زرمبادلہ کا ایک بڑا حصہ کماتے ہیں یہ اسی صورت میں ممکن ہوتاہے جب ہمارے لوگ انگریزی زبان پر عبور حاصل کرکے بیرون ملک خدمات انجام دینے کے اہل ہوتے ہیں اور اس طرح امریکہ اور برطانیہ میں اعلیٰ عہدوں پر براجمان ہوجاتے ہیں۔ جسٹس خواجہ نے جاتے جاتے کئی سرکاری محکموں کے آڈٹ کا بھی حکم دیا ہے جوکہ خوش آئند بات ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ تمام کام عدلیہ کو کیوں کرنے پڑتے ہیں۔ فریقین خود سے کیوں عملدرآمد نہیں کرتے۔ یہ ملین ڈالر کا سوال ہے اور اس کا جواب صرف ارباب اختیار کے پاس ہے اور وہ اسے ہم تک پاس نہیں کرتے۔ چیف صاحب جاتے جاتے کچھ وکلاء کے بارے میں بدمزگی پیدا کر گئے جس کی وجہ سے ان کے فیرویل ریفرنس میں وکلاء کی شرکت نہ ہوسکی۔ یہ اس سارے واقعے کا افسوس ناک پہلو ہے بہرحال مختصر وقت کے لئے آئے تھے اور اچھی اور بری یادیں چھوڑ گئے۔ کافی کام کر گئے جو ملک اور قوم کے فائدے میں ہے۔ نئے چیف جسٹس صاحب کی حلف برداری کی تقریب منعقد ہوگئی اور اب انور ظہیر جمالی صاحب نئے چیف جسٹس ہیں اب ایک نئے دور کا آغاز ہوگا۔ میری دعا ہے کہ خدا انہیں ان کے فرائض منصبی کی تکمیل میں مدد فرمائے۔ اور وہ بھی اپنا اور اپنے ملک کا نام روشن کریں۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے پروٹوکول نہ لے کر ایک اچھی اور نئی مثال قائم کی تھی۔ اس سے پہلے ایک سابق چیف جسٹس صاحب نے پروٹوکول حاصل کرکے ریکارڈ قائم کیا تھا جسے لوگ آج تک یاد کرتے ہیں۔ سنا ہے کہ ابھی بھی ان کے پاس بلٹ پروف گاڑی ہے۔ کام کرنے کے اپنے اپنے انداز ہیں کوئی پروٹوکول لے کر خوش ہوتا ہے اور کوئی بغیر پروٹوکول کے خوش ہے۔
سپریم کورٹ بار کے انتخابات ہونے والے ہیں اور ایسے موقع پر ایک صدارتی امیدوار کا وکالت کا لائسنس ایک سال کے لئے معطل ہوگیا ہے۔ اس سے پہلے افتخار چوہدری صاحب نے بابر اعوان کا لائسنس معطل کیا تھا جوکہ بعد میں بحال ہوگیا۔ بار اور بینچ کے درمیان ایسے واقعات نہیں ہونے چاہئیں جن سے بدمزگی پیدا ہوا۔ ان معاملات کو آپس میں ہی طے کرلینا چاہئے اور انا کا مسئلہ نہیں بنانا چاہئے۔ وکیل موصوف سینئر وکیل ہیں۔ سنا ہے کہ وہ اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل داخل کریں گے۔ اللہ ان کی مدد کرے۔ انور ظہیر جمالی صاحب 21؍ماہ کے لئے چیف جسٹس آف پاکستان رہیں گے۔ اس دوران جسٹس سرمد جلال عثمانی صاحب اکتوبر 2015ء میں ریٹائر ہوجائیں گے۔ سندھ ہائی کورٹ سے کسی ایک جج صاحب کی سپریم کورٹ جانے کی مستقبل قریب میں توقع ہے۔ کراچی میں ایک مرتبہ پھر دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے میڈیا سے تعلق رکھنے والے لوگوں پر یکے بعد دیگرے جان لیوا حملے کافی تشویش کا باعث ہیں۔ ٹارگٹ کلرز ایک مرتبہ پھر فیلڈ میں ہیں۔ خدا خیر کرے۔
آخر میں احمد فراز کی مشہور غزل کے حسب حال اشعار قارئین کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔ ؎
تم بھی خفا ہو لوگ بھی برہم ہیں دوستو
اب ہو چلا یقیں کہ برے ہم ہیں دوستو
کچھ آج شام ہی سے ہے دل بھی بجھا بجھا
کچھ شہر کے چراغ بھی مدھم ہیں دوستو
تازہ ترین