• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جب انتہا پسندوں نے پشاور کے نزدیک پی اے ایف کیمپ، بڈھ بیر پرحملہ کیا تو اس پر کسی کوحیر ت نہیں ہوئی کیونکہ کئی برسوں سے یہ کیمپ اُن کا اہم ٹارگٹ تھا۔ حیرت صرف اس پر ہونی چاہیے تھی کہ اُنھوں نے اس سے پہلے یہاں کارروائی کیوں نہ کی ۔ ہوسکتا ہے کہ اس کی وجہ بڈھ بیر کیمپ کی سخت سیکورٹی ہو یا پاکستان کے دیگر علاقوں میں دہشت گردوں کی توجہ کھینچنے والے اہم اور نسبتاً آسان اہداف یا پھر بڈھ بیر کے قرب وجوار کے دیہات کے اپنے لشکر ،جو اُنھوں نے قبائلی علاقوں سے آنے والے انتہا پسندوں سے اپنے علاقے کو محفوظ بنانے کیلئے اپنی مدد آپ کے تحت بنا رکھے تھے۔ ان لشکروںکو کسی نہ کسی سطح پر حکومتی سرپرستی بھی حاصل تھی لیکن پھر حکومت نے یہ سوچ کر ان کی مدد سے ہاتھ کھینچ لیا کہ ایسا نہ ہو ایک دن یہ لشکر ہی قانون کو چیلنج کرنے لگ جائیں۔ ان لشکروں کو انتہا پسندوں نے خودکش حملوں اور ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے بھی بھاری جانی نقصان پہنچایا تھا۔
پی اے ایف بڈھ بیر کیمپ1959ءمیں امریکہ نے قائم کیا تاکہ سی آئی اے سوویت یونین پر نظر رکھ سکے لیکن پھر اسے 1970ءمیں بند کردیا گیا۔ 1980ءکی دہائی میں اس کیمپ کو افغان مجاہدین کی عسکری ٹریننگ اور سوویت اور افغان قیدیوںکو رکھنے کیلئے استعمال کیا گیا ۔ چونکہ اس کے نزدیک انتہا پسندوں کی آماجگاہ بننے والے تین اہم ترین علاقے، بشمول خیبر ایجنسی، اسلحہ سازی میں اپنا نام رکھنے والا درّہ آدم خیل ، جسے فرنٹیرریجن کوہاٹ بھی کہا جاتا ہے اور فرنٹیر ریجن پشاور شامل ہیں۔یہ آخری دو علاقے نیم قبائلی ہیں اور خیبر پختونخوا کی شہری حدود اور فا ٹا کے درمیان واقع ہیں۔
فرنٹیرریجن کوہاٹ ، فرنٹیرریجن پشاوراور دیگر قبائلی علاقوں میں تحریک ِ طالبان پاکستان ، جس کی قیادت ملا فضل اﷲکے پاس ہے اور خیبر ایجنسی میں اپنی موجودگی رکھنے والے منگل باغ کے لشکر ِ اسلام اور دیگر انتہا پسندوں کے خلاف کیے گئے معتدد آپریشنز کے باوجود ایسا لگتا ہے کہ انتہا پسندابھی بھی اپنے اہداف تک سرایت کرنے یا ان علاقوں میں چھپ کر خیبر پختونخوا کے شہری علاقوںاور پاکستان کے دیگر مقامات پر حملے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ فوجی آپریشن اورمقامی افراد کی طرف سے ان کی حمایت سے ہاتھ کھینچنے کی وجہ سے اب قبائلی علاقوں میں انتہا پسندوں کا قیام مشکل ہوچکا لیکن یہ حقیقت بھی اپنی جگہ پر موجود کہ وہ کچھ قبائلیوں کو ڈرا کر اپنی مدد کیلئے آمادہ کرلیتے ہیں یا پھر وہ فاٹا اور دیگر علاقوں میںا پنے خفیہ ٹھکانوں (sleeper cells) سے کارروائی کرتے ہیں۔ پی اے ایف بڈھ بیر پر اٹھارہ ستمبر کو ہونے والے حملے میں دفاعی اداروں کے کم از کم انتیس جوان، جن میں ائیرفورس کے مختلف عہدوں سے تعلق رکھنے والے تیئس افسران، تین سویلین اور پاک فوج کی کوئیک ری ایکشن فورس کے تین جوان جاںبحق ہوئے۔یہ 2003ء، جب پاک فوج نے فاٹا میں انتہا پسندوں کیخلاف کارروائی کی، کے بعد کسی بھی ایک حملے میں پاکستان کی سیکورٹی فورسز کا ہونے والا سب سے بڑا نقصان تھا۔ ماضی کی دہشت گرد کارروائیوںکے برعکس، بڈھ بیر پر حملہ کرنیوالے دہشت گردوں نے خود کش جیکٹس نہیں پہنی ہوئی تھیں۔ اس کی بجائے اُن کے پاس جدید ہتھیاروں اور اشیائے خوردنوش کا بھاری ذخیرہ تھا اور وہ دیر تک مزاحمت کی تیاری کرکے آئے تھے۔ غالباً اُن کا ارادہ کچھ دنوں تک کیلئے پی اے ایف کیمپ پر قبضہ کرنے کا تھا۔ بہرحال یہ ایک خود کش آپریشن(جسے فدائی مشن کہا جاتا ہے) ہی تھا کیونکہ اُن نوجوان دہشت گردوں نے مرتے دم تک اپنے ہتھیار استعمال کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ جانی نقصان پہنچایا۔ دہشت گردوں کے نقطہ نظر سے یہ ایک حوصلہ افزاکارروائی تھی کیونکہ وہ پی اے ایف کی سیکورٹی میں شگاف ڈالنے میں کامیاب ہوگئے اور نماز ِ فجرادا کرنے کیلئے آنے والے زیادہ تر افراد کو مار دیا۔ اس حملے، جس میں چودہ دہشت گردوں نے حصہ لیا اور وہ تمام کے تمام ہلاک کردیئے گئے، کی ذمہ داری تحریک ِ طالبان پاکستان نے قبول کی۔ اس سے ایک بات کا پتہ چلتا ہے کہ وہ اتنے نوجوانوں کو ابھی بھی تحریک دیکر ایسے فدائی مشن پر بھیجنے کی اہلیت رکھتی ہے۔ اس سے اُسکی افرادی قوت اورآپریشن کی سکت کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تحریک طالبان پاکستان اور اسکے حامی انتہا پسند گروہوں کے قبضے سے سوات اور فاٹا کے بہت سے علاقے چھڑا لئے گئے ہیںاور اب اُن کی طرف سے حملے کرنے کی تاب اور تسلسل کم ہوچکا لیکن اسکے باوجود یہ کمزور اور منتشر ہوتے ہوئے گروہ ، جو افغانستان میں ڈیورنڈ لائن کے قریب اپنے ٹھکانے بناچکے ہیں، ابھی بھی پاکستان کیلئے ایک بڑاخطرہ ہیں۔انکی کارروائیوں کے نہ ختم ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ فوجی آپریشن شروع ہونے سے پہلے یہاںسے فرار ہوگئے تھے اور اس طرح اُنہوں نے محفوظ مقامات پر پناہ لے کر اپنی افرادی قوت بچا لی۔
بڈھ بیر حملے سے شروع ہونے والی بحث دفاعی فورسز کی تیاری اور انٹیلی جنس کے نظام کا بھی احاطہ کرتی ہے کہ ہمارے سیکورٹی ادارے ایسے حملوںکا تدارک کرنے کیلئے کس حد تک مستعد اور فعال ہیں۔ اس حملے میں سیکورٹی کی غفلت یقینی طور پر دکھائی دی۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ دفاعی تنصیبات پر بہت سے حملے ہوچکے ہیں، اس کے باوجود دہشت گرد ان کو ہدف بنانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ درحقیقت پشاور میں پی اے ایف ، بشمول بڈھ بیرکیمپ، کو ایسے حملوں سے خبردار کیا جاچکا تھا ، اس کے باوجود حملے کو نہیں روکا جاسکا۔ تفتیش کار فوری طور پر چودہ میں سے پانچ حملہ آوروں کی شناخت کرنے کے قابل ہوگئے۔ پتہ چلا کہ اُن میں سے تین کا تعلق خیبر ایجنسی اوردو کا سوات سے ہے۔ اس معلومات کے میڈیا پر افشا ہونے سے وزیر ِ داخلہ چوہدری نثار علی خان بجاطور پر برہم ہوئے کیونکہ ان کی شناخت ظاہر ہونے سے حملے کی تحقیقات متاثر ہوسکتی تھیں۔ اُنھوں نے اس معاملے کی تحقیقات کاحکم دیا کہ کس نے وہ نام میڈیا پرقبل از وقت ظاہر کردئیے۔ اس وقت تک پی اے ایف، فوج ، انٹیلی جنس ایجنسیاں اور خیبر پختونخوا کی پولیس اس کیس کی تحقیقات کررہی ہے۔ درحقیقت اس کیمپ کا تحفظ ان تمام اداروں کی ذمہ داری تھی۔ حملہ آوروں میں سوات سے تعلق رکھنے والے جنگجوئوں کی موجودگی سے اندازہ ہوتا ہے کہ ملا فضل اﷲ کے قریبی دستے شامل ہیں۔ ملا فضل اﷲ کا تعلق سوات سے ہے اور وہ 2009 ءکے آپریشن کے دوران وہاںسے فرار ہوگیا تھا۔ اُس کا ایک نائب کمانڈر، خلیفہ عمر منصور کا تعلق ادزئی گائوں سے ہے اور یہ گائوں بڈھ بیر سے زیادہ فاصلے پرنہیں۔ خلیفہ منصور کو اس حملے کا ماسٹر مائنڈ سمجھا جارہا ہے۔ یہی دہشت گرد آرمی پبلک اسکول پشاور پر سولہ دسمبر کے سفاکانہ حملے ، جس میں ایک سو بائیس طلبہ سمیت ایک سوسینتالیس افراد شہید ہوئے ، کا بھی ذمہ دارہے۔ فضل اﷲ اور خلیفہ منصور، دونوں افغانستان میںرہتے ہوئے ایسے حملوں کی منصوبہ بندی کرتے رہتے ہیں۔ پاکستانی انتہا پسندوںکیلئے افغانستان میں محفوظ ٹھکانے موجود ہیں، اسکے باوجود کابل اسلام آباد پر الزام لگاتا رہتا ہے کہ اس نے افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کو پناہ دی ہوئی ہے۔بڈھ بیر پر حملے کے بعد حسب ِ عادت کابل نے اسلام آباد کے الزام کو مسترد کردیا کہ اس حملے کی منصوبہ بندی اُس کی سرزمین سے ہوئی۔ پاکستان افغان حکومت کے ساتھ معلومات کے تبادلے کیلئے تیار ہے لیکن،جیسا کہ آرمی پبلک اسکول پشاورحملے کے بعد اشرف غنی حکومت کے ساتھ معلومات شیئر کرنے کاکوئی فائدہ نہ ہوا، ایسا لگتا ہے کہ افغانستان اس مسئلے پر تعاون کیلئے تیار نہیں۔
تازہ ترین