• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان فیصلہ کن معرکہ شروع ہونے کو ہے جس کیلئے پی ٹی آئی نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کو لاک ڈائون کرنے کا اعلان ایک سے زائد بار کیا ہے 2نومبر کو عمران خان کی طرف سے اسلام آباد کو لاک ڈائون کرنے کے اعلان کے بعد ملک بھر بالخصوص وفاقی دارالحکومت کا سیاسی درجہ حرارت بڑھنے لگا ہے .2013میں ہونے والے تمام انتخابات سے لیکر رائے ونڈ مارچ اور جلسے تک کپتان حکومت پر کبھی دھاندلی تو کبھی کرپشن جیسے الزامات عائد کرتے رہے ہیں اور اُن کے مشیران اس بات کو یقینی بنانے پر تُلے ہوئے ہیں کہ نواز شریف کو وزارت عظمیٰ کے منصب سے مستعفی ہونے پر مجبور کر دیا جائے ۔گزرے ہوئے ساڑھے تین برسوں میں ان کی احتجاجی سیاست نے عوام میں بتدریج بے زاری کا تاثر قائم کیا جو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا جا رہا ہے۔لیکن ان کے مشیران انہیں ایک بار پھر اس بات پر قائل کر چکے ہیں کہ 2نومبر کو اسلام آبادمیں لاک ڈائون کر کے حکومت کو گرانا ضروری ہی نہیں بلکہ وقت اور حالات کا تقاضا بھی ہے ۔ بدقسمتی سے کپتان اپنے ان مشیران کے حصار میں ہیں اور وہ اس بات پر ڈٹ گئے ہیں کہ نومبر ہی میں حکومت گرا دی جائے بصورت دیگر 2018کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر پائے گی ۔ عمران خان ہمیشہ یہ تاثر دیتے رہے ہیں کہ تمام تر احتجاجی دھرنوں ، ریلیوں ، اور جلسے جلوسوں کے پس پردہ انہیں بہت سی غیر سیاسی قوتوں کی حمایت بھی حاصل رہی ہے ۔ لیکن انہیں 2نومبر کو اسلام آباد کو لاک ڈائون کرنے پر اُکسانے کے لئے عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد اور پی ٹی آئی کے ایک اور سرکردہ رہنما جہانگیر ترین نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ کپتان کے مشیران نے انہیں یہ بھی باور کرایا ہے کہ نومبر کے بعد اعلیٰ سطح پر تقرر و تبادلے ہونا ہیں۔لہذانومبر کے آغاز ہی میں ایک بھر پور عوامی طاقت کے ذریعے اسمبلیاں تحلیل کروانے ، اور نواز شریف کو استعفیٰ دینے کے لئے آخری اور فیصلہ کن رائونڈ کھیل لیا جائے ۔
2نومبر کو وفاقی دارالحکومت میں حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان ہونے والے فیصلہ کن معرکہ کے بعد جمہوریت کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا یہ کہنا قبل از وقت ہو گا لیکن یہ امر طے ہے کہ تحریک انصاف اپنے سیاسی و غیر سیاسی اتحادیوں کے ساتھ مل کر فیصلہ کن معرکہ لڑنے جارہی ہے۔ناکامی کی صورت میں عمران خان اپنے اتحادیوں سمیت ایک ایسی بند گلی میں جاسکتےہیں جہاں سے انہیں واپسی کی راہ بھی نہیں ملے گی۔نواز حکومت کے خلاف پی ٹی آئی کے اس آخری رائونڈ کوـــ’’ مرجائو یا مار دو‘‘ جیسے نعرے سے بھی تعبیر کیا جا رہا ہے ۔بحرکیف 2نومبر کو اسلام آباد میں تحریک انصاف کی جانب سے لاک ڈائون کی کال حکومت کے لئے بھی ایک کڑا امتحان ہے ۔کیونکہ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پُر امن احتجاج تمام سیاسی جماعتوں کا جمہوری حق ہے ۔ لیکن حکومت اور پی ٹی آئی کو اس پہلو سے بھی نظریں نہیں چُرانا چاہئیں کہ جہاں سیاسی جماعتوں کو اپنے جائز حقوق جمہوریت کی سر بلندی ، کرپشن کے خاتمے، پسماندگی اور غربت ختم کرنے کے لئے احتجاجی جلسے جلوس کرنے کا حق حاصل ہے وہاں عوام کو بھی چین اور سکون کے ساتھ اپنے معاملات زندگی انجام دینے کا حق ہے ۔عوامی امنگوں ، خواہشات اور توقعات کو پورا کرنا حکومت پر ہی نہیں بلکہ اپوزیشن جماعتوں کی بھی ذمہ داریوں میں شامل ہے ۔اطلاعات ہیں کہ حکومت کی طرف سے پی ٹی آئی کی قیادت کو مزاکرات کی پیشکش کی گئی ہے جبکہ نقص امن کے خدشہ کے پیش نظر پی ٹی آئی کو مخصوص مقام پر پرُ امن احتجاج اور جلسہ کرنے کی پیشکش بھی کی گئی ہے لیکن تحریک انصاف کی اعلیٰ اور مرکزی قیادت کی جانب سے متنازع بیانات کی وجہ سے عام شہری اور صنعت و تجارت سمیت تقریباً تمام مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والےافراد خوفزدہ دکھائی دینے لگے ہیں۔ حکومت کے پاس یہ مصدقہ اطلاعات ہیں کہ حکومتی مشینری اور انتظامی امور سنبھالنے والے سرکاری اداروں کے درمیان تصادم کے ذریعے خون خرابہ کرانےکا ماحول پیدا کیا جاسکتا ہے یہ بھی اطلاعات ہیں کہ 2نومبر کے دھرنے میں کے پی سے خاص طور پر امن وامان کی صورتحال خراب کرنے کے لئے لوگوں کو لایا جا رہا ہے۔خدا نخواستہ اگر ایسا ہوا تو میں سمجھتا ہوں کہ کسی بھی سیاسی پارٹی یا جماعت میں اتنی طاقت اور حیثیت نہیں کہ جمہوریت کی بساط اُلٹنے کا راستہ روک سکے ۔ وقت کا تقاضا یہ ہے کہ حکومت ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے تحریک انصاف کو اسلام آباد میں پُر امن احتجاج کرنے کی غیر مشروط طور پر اجازت دے ۔کیونکہ عمران خان رائونڈ مارچ کے موقع پر اپنے خطاب میں یہ کہہ چکے ہیں کہ پی ٹی آئی وفاقی دارالحکومت میں اپنا آخری احتجاج کرے گی ۔اگر تحریک انصاف 2نومبر کو قوائد و ضوابط اور نظم و ضبط کا مظاہرہ کرتےہوئے احتجاجی جلسہ کرنا چاہتی ہے تو اُسے ایسا کرنے کے لئے تمام تر قانونی اور اخلاقی پہلوئوں کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہئے۔ پُرامن احتجاج کرنا سب کا حق ہے تو جمہوریت کا پہیہ رواں دواں رکھنا بھی ضروری ہے ۔پی ٹی آئی کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے کے بجائے اسلام آباد کے شہریوں کے حقوق پامال کرنے سے بھی گریز کرنا ہو گا ۔اگر وہ ایسا کر لیتے ہیں تو اُن کا احتجاج احسن انداز میں انجام پا جائے گا ۔وفاقی دارالحکومت میں احتجاجی مظاہرے دھرنے اور جلسے جلوسوں سے پورے ملک کی معیشت کا پہیہ رک جاتا ہے ۔ ہمارے سیاسی قائدین کو یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ ہمارا ملک جو ابھی تک ترقی پذیر ممالک کی صف میں کھڑا ہے وہ آئے روز جلسے جلوسوں کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔ ویسے بھی وفاقی دارالحکومت میں جلسے جلوس کرنے کا مطلب پورے ملکی معیشت کا پہیہ جام کردینا ہے ۔2نومبر کو پی ٹی آئی کے لاک ڈائون کے اعلان پر حکومت کو دوراندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بیک ڈور پالیسی کے تحت پی ٹی آئی کے ساتھ سنجیدہ اور نتیجہ خیز مذاکرات کرنا ہوں گے۔اس کے ساتھ حکومت تحمل اور بُردباری کا مظاہرہ کرتے ہوئے قانون کی عمل داری اور عام شہریوں کی جان و مال کا تحفظ یقینی بنانے کے لئے بھی ٹھوس اقدامات کرے۔ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان اور وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اعلیٰ عسکری قیادت سے ملاقات کی ہے اس ملاقات میں ملک کی موجودہ سیاسی صورت حال بالخصوص 2نومبر کو پی ٹی آئی کی طرف سے وفاقی دارالحکومت میں لاک ڈائون سے متعلق کئے جانے والے حکومتی اقدامات پر اعتماد میں لیا گیاہے۔میری تمام سیاسی جماعتوں سے درخواست ہے کہ وہ پاکستان میں ایسا ماحول پیدا نہ کریں جس سے ہمارے دشمن کو موقع ملے اور وہ پاک چائنہ راہداری کے خلاف سازشیں تیز کر کے اس منصوبے کو نقصان پہنچائے۔


.
تازہ ترین