• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک دور تھا، انٹرنیشنل ہاکی پر پاکستان کی حکمرانی تھی، تب تمام بڑے اعزازات پاکستان کے پاس ہوتے، ورلڈ کپ، چیمپئنزٹرافی ، ایشین گیمز ، ایشیا ءکپ۔ وہ دور یاد آتا ہے، تو کتنے ہی عظیم الشان کھلاڑیوں کے نام حافظے کی لوح پر جگمگانے لگتے ہیں۔ ان ہی میں منظورالحسن بھی تھے، 1972سے 1983تک پاکستان ہاکی کے فل بیک ، حریف ٹیم کے بڑے سے بڑے فارورڈ کے سامنے وہ دیوار بن جاتے،ناقابلِ تسخیر دیوار۔ ہاکی سے ریٹائرمنٹ کے بعد قومی ایئرلائن سے وابستہ ہوگئے۔ انہیں تین بار جدہ میں پی آئی اے کے لئے خدمات انجام دینے کا موقع ملا۔ پہلی بار ڈپٹی اسٹیشن منیجر، پھر اسٹیشن منیجر اور آخری بار کنٹری منیجر ۔ تب ہم بھی جدہ میں ہوتے تھے ۔ فرصت کے لمحات میں مل بیٹھتے تو پاکستانی ہاکی کے عظیم الشان ماضی کا ذکر بھی چھڑ جاتا۔ منظور اس دور کو یاد کرتے اور بتاتے کہ تب کھلاڑیوں میں محنت کا جذبہ کس قدر تھا، تربیت کس معیار کی تھی، ڈسپلن کا عالم کیا تھا، ایک بار اُنہوں نے دلچسپ بات بتائی، کسی بھی انٹرنیشنل میچ کے بعد رات کو ڈسکشن سیشن ہوتا۔ ہم میچ جیت کر بھی اپنی کارکردگی کا ناقدانہ جائزہ لیتے۔ فتح کا’’مارجن‘‘ کم ہوتا تو پوری بے رحمی کے ساتھ اس کا ناقدانہ جائزہ لیتے کہ ہمیں اتنے گول کیسے ہوگئے؟
لاہور کے حلقہ 122کا الیکشن بخیروخوبی اختتام کو پہنچا۔ بظاہر یہ قومی اسمبلی کے ایک حلقے کا ضمنی انتخاب تھااور دوتہائی اکثریت رکھنے والی حکومت کو ، ایک نشست کی فتح و شکست سے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن حلقہ 122کی اپنی اہمیت تھی۔ عمران خان نے اِسے سردار ایازصادق اور علیم خان کی بجائے، اپنے اور نوازشریف کے درمیان مقابلہ بنادیا تھااور علیم خان کی دولت کے ساتھ تحریکِ انصاف کی ساری طاقت، تمام تر توانائیاں اس میں جھونک دی تھیں۔ وزیراعلیٰ پرویز خٹک اپنے وزراءکے ساتھ لاہور براجمان تھے اور میڈیا کو خیبر پختونخوا میں اپنی حکومت کی کارکردگی سے آگاہ کر رہے تھے۔ ظاہر ہے ، یہ حلقہ 122کی انتخابی مہم کا حصہ تھا۔ ریحام خاں بھی سیاست سے لاتعلقی ختم کرکے میدان میں آگئی تھیں۔ اُدھر الیکشن کمیشن نے خان کے تمام مطالبات تسلیم کر لئے تھے۔ فوج کی نگرانی میں بیلٹ پیپرز کی پولنگ اسٹیشن تک ترسیل، پولنگ اسٹیشنز کے اندر اور باہر فوج کی تعیناتی ، امن وامان کے علاوہ پولنگ کے عمل کی نگرانی بھی اس کی ذمہ داری تھی، پھر فوج ہی کی نگرانی میں انتخابی نتائج اور تھیلوں کی ریٹرننگ افسر کے دفتر کو فراہمی، اور گاڑی کے ساتھ خان کے ٹائیگرز۔ پولنگ اسٹیشنوں پر سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب کے علاوہ خان نے ’’ٹائیگرز‘‘ کو بھی ہدایت کی تھی کہ وہ اپنے کیمروں کے ساتھ الرٹ رہیں اور جہاں کوئی گڑبڑ دیکھیں، کیمرے میں محفوظ کر لیں۔ الیکشن سے ایک روز قبل خان نے پنجاب سے 10ہزار کارکنوں کو بھی لاہور پہنچنے کی تاکید کردی تھی۔ فوج اور رینجرز سمیت سیکورٹی کے اتنے سارے انتظامات کے باوجود، 10ہزار کارکنوں کو لاہور پہنچنے کی ہدایت۔؟ چودھری سرور اِسے فوج کے لئے ’’اضافی مدد‘‘ قرار دے رہے تھے۔ ابتداء میں، الیکشن کو’’آسان‘‘ سمجھنے والی مسلم لیگ (ن)کو رفتہ رفتہ خطرے کا احساس ہونے لگا۔ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے مطابق، عمران خاں کو تو یہاں انتخابی مہم کی قیادت کی اجازت مل گئی تھی لیکن اس معرکے میں، وہ جسے اپنا حریف قرار دے رہاتھا، اس کے ہاتھ پاؤں بدستور بندھے ہوئے تھے۔ خادمِ پنجاب بھی پابندی کی زد میں تھے۔ مسلم لیگ(ن) کے قانونی مشیروں نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے میں سے، وزراء کے لئے بھی گنجائش ڈھونڈ نکالی تھی کہ وہ سرکاری پروٹوکول اور حکومتی وسائل کے بغیر ذاتی حیثیت میں انتخابی مہم میں حصہ لے سکتے ہیں، ان پر یہاںکسی ترقیاتی پروگرام کے اعلان پر بھی پابندی تھی۔ چنانچہ وفاقی کابینہ کے ڈیڑھ ارکان(وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق اور وزیرمملکت عابد شیر علی) سردار ایازصادق کی انتخابی مہم میں شریک ہوگئے تھے۔ (بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی چیئرپرسن کے طور پر وفاقی وزیر کے برابر عہدہ رکھنے والی ماروی میمن کو بھی شامل کرلیں)تو یہ وفاقی کابینہ کے ڈھائی ارکان بنتے ہیں، لیکن تحریکِ انصاف اور خود خان، اِسے ’’درجنوں وزراء‘‘ قرار دے رہے تھے۔ عمران خان کے مقابلے میں ایازصادق کی انتخابی مہم کی قیادت شریف فیملی کے ہونہار سپوت حمزہ شہباز نے سنبھالی تھی، جو بطور سیاستدان خود کو establishکرچکے ہیں۔ محترمہ کے دوسرے دور میں (محاورے کے مطابق)جب حمزہ کی مسیں بھی نہیں بھیگی تھیں،اس نے اڈیالہ جیل کاٹی۔ مشرف دور میں، شریف فیملی کی جلاوطنی کے ماہ وسال کے دوران بھی، اس نے پاکستان میں ہر طرح کا دباؤ برداشت کیا۔
خان کا معاملہ دلچسپ ہے، وہ غیر جانبدار ایمپائر کا مطالبہ تو کرتا ہے لیکن مخالف ٹیم کے لئے level playing team کی بات نہیں کرتا۔ یہاں اس کی خواہش ’’گلیاں ہوجان سنجیاں‘‘والی ہوتی ہے۔ 2013 کے عام انتخابات میں، اے این پی اور پیپلز پارٹی کے خلاف’’پاکستانی طالبان‘‘ نے اعلانِ جنگ کررکھا تھا، چنانچہ کے پی کے میں جب خان انتخابی مہم چلارہا تھا، اے این پی والے جنازے اُٹھارہے تھے۔ پی پی پی کی مہم بھی ڈری ڈری اور سہمی سہمی تھی۔ اب لاہور کے ضمنی الیکشن میں اسے نوازشریف کی طرف سے بھکی پاور پلانٹ کا افتتاح، گورنر ہاؤس میں اورنج ٹرین کی پریزنٹیشن میں شرکت اور اخبار نویسوں سے گفتگو بھی ’’ضابطۂ اخلاق‘‘ کی خلاف ورزی نظر آرہی تھی۔
خان کا معاملہ تو سیاست کا ہے لیکن ہمارے بعض دانشوردوستوں کا رویہ بھی دلچسپ تھا جو دُور کی کوڑیاں لارہے تھے۔ اِن میں سے ایک نے توپرائم منسٹر ہاؤس میں سیکورٹی کے حوالے سے منعقدہ میٹنگ کو بھی انتخابی مہم کا حصہ قرار دے دیا۔ایک بزرگ تجزیہ کار /کالم نگار نے تو ڈونگی گراؤنڈ سمن آباد کے جلسے میں حمزہ شہباز شریف کے ان الفاظ کو بھی ضابطۂ اخلاق کی خلاف ورزی قرار دے کر الیکشن کمیشن سے کارروائی کا مطالبہ کردیا ۔ ’’الیکشن کمیشن کی وجہ سے میں کھل کر بات نہیں کرسکتا لیکن جتنی محبت آپ نے ہم سے کی ہے، اس سے دس گنا محبت ہم آپ سے کریں گے‘‘۔ بزرگ تجزیہ کار کے خیال میں اس کا مطلب یہ تھا کہ آپ ہمیں ووٹ دیں تو سرکاری خزانوں کے منہ کھول دیئے جائیں گے اور آپ کا ہرجائز، ناجائز مطالبہ مان لیاجائے گا۔قومی اسمبلی کے حلقہ 122کے ساتھ ، یہاں صوبائی اسمبلی کے حلقہ 147میں بھی الیکشن ہورہا تھا۔ محسن لطیف 2008کے الیکشن میں یہاں علیم خاں کو اور 2013میں، اپنے حریف ِ تازہ شعیب صدیقی کو شکست دے چکے تھے لیکن اب ضمنی انتخاب کے لئے خود مسلم لیگ(ن) میں بھی انہیں ٹکٹ دینے کی مخالفت تھی، عوام سے مسلسل عدم رابطہ اس کا ایک سبب تھا لیکن انہیں ٹکٹ ملا اور وہ 3200ووٹوں سے ہارگئے۔ یوں پی ٹی آئی کے لئے اشک شوئی کا اہتمام ہوگیا۔122کے نیچے صوبائی حلقہ 148، پی ٹی آئی 2013ہی میں جیت چکی تھی۔ یہاں یہ سوال اپنی جگہ کہ این اے 122اور پی پی 147میں2013کا الیکشن کالعدم قرار پایا تو 148اس سے مستثنیٰ کیوں رہا؟ جب کہ انہی ووٹر لسٹوں پر ، ان ہی پولنگ اسٹیشنوں پر، اسی پولنگ اسٹاف کے ذریعے، اسی روز یہاں بھی الیکشن ہواتھا۔ کاؤنٹر فائلز پر دستخط یا مہر کا نہ ہونا، شناختی کارڈز کے نمبروں میں غلطی یا انگوٹھوں کی شناخت نہ ہونے کا معاملہ تو حلقہ 148میں بھی تھا، پھر یہاں ضمنی انتخاب کیوں نہ ہوا؟ ظاہر ہے، الیکشن کمیشن ٹریبونل میں اِسے چیلنج ہی نہیں کیا گیا تھا لیکن دلچسپ بات یہ کہ اس ضمنی انتخاب میں سردار ایازصادق پی پی 148میں جیتے ہیں، ایسے میں یہ دعویٰ ایسا بے بنیاد بھی نہیں کہ اگر اس صوبائی حلقے کا ضمنی انتخاب بھی ہوتا تو پی ٹی آئی شاید یہ نشست نہ نکال پاتی۔ سردار ایازصادق تقریباً 43سو ووٹوں سے جیت گئے۔ گزشتہ بار یہ مارجن تقریباً8ہزار 900ووٹوں کا تھا لیکن تب ٹرن آؤٹ بھی زیادہ تھا۔ ایازصادق نے 93389ووٹ حاصل کئے تھے اور اب77736ووٹ حاصل کئے، اسی طرح 2013میں عمران خاں کے ووٹ 84517تھے، تو اب علیم خاں کے 73463ہیں۔ گویا دونوں کے ووٹ کم ہوئے، البتہ ایازصادق کے ووٹوں کی کمی کا تناسب قدرے زیادہ ہے لیکن بحیثیت مجموعی 11مئی 2013کے انتخابی نتیجے کی توثیق ہوگئی اور خان کے تمام الزامات بے بنیاد ثابت ہوئے۔ اوکاڑہ میں’’مسلم لیگی ‘‘نے ’’مسلم لیگ‘‘ کو شکست دے دی، فتح کے بعد میڈیا سے گفتگو میں مسلم لیگ سے اپنی چوبیس پچیس سالہ رفاقت کی یاددہانی کراتے ہوئے ریاض الحق جج کا کہنا تھا کہ اس نے پہلے بھی تحریکِ انصاف کا ٹکٹ لینے سے معذرت کر لی تھی، اب بھی تحریکِ انصاف میں اس کی شمولیت کا امکان نہیں۔ مسلم لیگ(ن) نے اس حلقے کو عملاً کھلا چھوڑ دیا تھا۔ البتہ خان نے، پیپلزپارٹی سے طویل رفاقت ختم کر کے ، پی ٹی آئی جوائن کر نے والے اشرف سوہنا کے لئے بڑا جلسہ بھی کیا لیکن صرف7ہزار ووٹوں کے ساتھ وہ اپنی ضمانت بھی نہ بچا سکا۔ مسلم لیگ(ن ) کو 122کی فتح مبارک ، لیکن منظور الحسن کی بات میں سیکھنے کے لئے خاصا سبق موجود ہے۔
تازہ ترین