• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ منمناہٹ کب تلک؟ ....نقش خیال…عرفان صدیقی

جب رہنما بے نیاز، قائدین حیلہ ساز اور حکمران بہانہ باز ہوجائیں تو قومیں اور ریاستیں اسی طرح کی سبکی، خجالت ، شرمساری اور بے توقیری کی نذر ہوجاتی ہیں۔ شہنشاہ عالم پناہ کے لشکر بے اماں کا سالار اعظم مائیکل ملن پاکستان آیا۔ کسی کو معلوم نہیں وہ کس کے ایما، کس کی درخواست اور کس کی دعوت پر وارد ہوا۔ پرویز مشرف کے عہد بے ننگ و نام سے امریکہ نے یہ حق حاصل کرلیا ہے کہ اس کے عہدیدار اور اہلکار جب چاہیں، کسی سے پوچھے ، کسی کو بتائے بغیر پاکستان آجائیں۔ مائیکل مولن نے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور آرمی چیف اشفاق پرویز کیانی سے ملاقاتیں کی۔ ان ملاقاتوں اور مداراتوں کے بعد امریکی سفارت خانے نے باضابطہ اعلان جار ی کیا کہ ”امریکہ پاکستان کی خودمختاری اور حاکمیت اعلیٰ کا احترام کرے گا“ جس وقت احتر ام پاکستان کا یہ اعلامیہ میڈیا کو جاری ہورہا تھا ، ڈیورنڈ لائن کے اس پار امریکی جاسوس طیارے پاکستانی علاقوں پر ایک اور حملے کی تیاری کررہے تھے۔ انگوراڈہ کے نواحی علاقے باغڑچینا کے لوگ روزہ کھولنے کی تیاری کررہے تھے کہ عین اذان مغرب کے وقت دو امریکی طیارے فضا میں نمودار ہوئے، چار میزائل داغے اور واپس چلے گئے۔ آن واحد میں گارے اور مٹی کے کئی گھروندے کھنڈر ہوگئے۔ سات افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہوئے۔ کم نصیب بستی کے لوگ افطاری بھول کر اپنے پیاروں کی بریدہ لاشوں کے ٹکڑے جمع کرنے میں لگ گئے۔ مائیکل مولن کی یقین دہانی چند گھنٹوں کے اندر اندر باغڑ چینا کی فضاؤں میں بکھری ”مشک بارود“ کی نذر ہوگئی۔ پاکستان کی آزادی و خودمختاری کا احترام کچے گارے مٹی کی دھول میں گھل مل گیا۔ خوں بہا تو بہت دور کی بات ہے، کسی طرف سے کوئی حرف معذرت آیا، نہ کلمہ افسوس، بس پینٹاگون نے چھوٹا سا بیان جاری کردیا کہ ”پاکستان کو حملے کی خبر دی گئی تھی“ پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ”احترام پاکستان“ کی تازہ قدر افزائی پر صرف اتنا تبصرہ فرمایا کہ ”ہمیں بتایا نہیں گیا تھا“۔ خون خاک نشیناں ایک بار پھر رزق خاک ہوا۔ ایک بار پھر یہ سوال شیش ناگ کی طرح پھن پھیلا کر کھڑا ہوگیا کہ یہ نام نہاد ”وار آن ٹیرر“ ہے کیا بلا اور ہم کب تلک اس بھٹی کا ایندھن بنے رہیں گے؟
جس وقت مائیکل مولن اسلام آباد میں جھوٹ کی قبائے فریب کا تانا بانا بن رہا تھا اور امریکی طیارے پاکستان پر تازہ حملے کے لئے میزائل اپنی بغل میں داب رہے تھے، اس وقت امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس، کابل کے چغہ پوش مسخرے کے پہلو میں کھڑا کہہ رہا تھا۔ ”مجھے حالیہ حملوں کے دوران افغانستان میں معصوم جانوں کے ضیاع پر انتہائی رنج ہے۔ میں افغان قوم سے معافی کا خواستگار ہوں۔ ان واقعات کی مشترکہ تحقیقات کی جائے گی۔“ لیکن پاکستان میں ہر روز خاک وخون میں نہا جانے والوں کے لئے امریکہ کی آنکھ میں مگرمچھ کا کوئی آنسو بھی نہیں۔ یہاں کون ہے جو امریکی قہر کا نشانہ نہیں بنا؟ لاٹھی ٹیک کر چلنے والے بوڑھے، گھر گرہستی میں مصروف خواتین، گلیوں میں کھیلتے معصوم بچے اور مدرسوں میں پڑھتے نوجوان ، اسپتالوں میں پڑے مریض، مسجدوں میں عبادت کناں نمازی، باراتیوں کے قافلے، شادی بیاہ کے گیت گاتی لڑکیاں، آنکھوں میں سہانے خواب بسائے بنی سنوری دلہنیں۔ ظلم کی داستانوں کی کوئی انتہا نہیں، لیکن یہ سب دہشت گرد قرار پائے، سب لاوارث ٹھہرے۔ کبھی پاکستان نے فریاد نہ کی۔ شاید اس لئے کہ پہاڑوں کی گھاٹیوں میں بسنے والے قبائلیوں کی زندگیاں کوئی قیمت نہیں رکھتیں۔ اگر خدانخواستہ کوئی انگوراڈہ اسلام آباد میں ہوتا تو شاید پتھر کا روپ اختیار کرلینے والی بے حمیتی میں کوئی ارتعاش پیدا ہوتا۔
کیا وجہ ہے کہ حکومت ”نام نہاد وار آن ٹیرر“ اور اس کے اثرات و نتائج کو ایک اہم ، فوری اور سنجیدہ مسئلے کے طور پر نہیں لے رہی؟ وہ حواس باختہ سی کیوں لگ رہی ہے اور اس کے اعصاب پر لرزہ کیوں طاری ہے؟ انتخابات کے فوراً بعد وزیراعظم گیلانی کے منصب سنبھالتے ہی چیف آف آرمی اسٹاف نے خود پیشکش کرکے حکمران کولیشن کے قائدین کو تفصیلی بریفنگ دی تھی۔ طے پایا تھا کہ نئی جمہوری قیادت ، پارلیمنٹ کی پشت پناہی کے ساتھ ایک جامع پالیسی مرتب کرے گی اور فوج اس پالیسی کے متعین کردہ خطوط کے مطابق اپنا کردار ادا کرے گی۔ اس بات کو اب پانچ ماہ ہو چکے ہیں۔ سیاسی قیادت سرجوڑ کر نہیں بیٹھی اور حکومت نے قومی مشاورت کے ذریعے کوئی ٹھوس پالیسی وضع کرنے اور پارلیمنٹ کو بروئے کار لانے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔ ستم تو یہ ہے کہ اقتدار کے ایوانوں سے ایک توانا بیان تک جاری نہ ہوسکا۔ احساس کمتری میں لتھڑی اور بزدلی میں لت پت وہی منمناہٹ بھاری مینڈیٹ کے حامل عوامی قائدین کے ہونٹوں پر بھی رینگ رہی ہے جو ایک ”کمانڈو مرد آہن“ کے لبوں پر رینگتی رہتی تھی۔
فروری 2008ء کے انتخابات کے بعد جب مقبول عوامی جماعتوں پر مشتمل حکومت بنی اور امریکی عزائم کے خاکے میں رنگ بھرنے والا پرویز مشرف بے دست و پا دکھائی دینے لگا تو امریکیوں کے ہاتھ پاؤں پھول گئے وہ دوڑے دوڑے یہاں آئے۔ یہ وہ وقت تھا کہ منتخب قیادت پارلیمنٹ کو ڈھال بنا کر ، مشرف دور کی بے سروپا پالیسی کو ایک معتبر سانچے میں ڈھالتی لیکن سب سے بڑی جماعت پی پی پی کی توجہ کچھ نئے مورچے سر کرنے پر مرکوز ہوگئی۔ گمان یہ ہے کہ ان مورچوں کی تسخیر کے لئے امریکیوں سے کمک حاصل کی گئی اور جواباً امریکیوں نے بھی کچھ ضمانتیں حاصل کرلیں۔ امریکہ کی جھجک دور ہوگئی اور اس کی یلغار ان مرحلوں میں داخل ہوگئی جو مشرف دور میں بھی ممکن نہ تھے۔ آئی ایس آئی کے خلاف زہر ناک پروپیگنڈہ پھر سے شروع ہوگیا۔ بھارتی وزیراعظم اور افغان صدر کو امریکہ کے باضابطہ دوروں کا اذن مل گیا ہے۔ ہماری درخواست منظور نہیں ہوئی۔ کہا گیا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران صدر بش، پاکستانی صدر سے غیررسمی ملاقات کے لئے چند لمحے نکال لیں گے۔
حکمرانوں کو اب کھل کر بولنا ہوگا، لگی لپٹی کے بغیر دو ٹوک بات کرنا ہوگی، قوم کو اعتماد میں لینا ہوگا تمام سیاسی جماعتوں کو شریک مشاورت کرنے اور پارلیمنٹ کے ذریعے ایک متفقہ قومی پالیسی وضع کرنے میں تاخیر اب مہلک ثابت ہوگی۔ مختلف سیاسی مورچے سر کرنے کے لئے امریکی آشیرباد کے آشوب سے نکلنا ہوگا۔ کیا ستم ہے کہ قومی سلامتی کو گرداب بلا میں دیکھتے ہوئے بھی حکمرانوں کی توجہ پنجاب پر مرکوز ہے اور وہ سیاسی عدم استحکام کا ایک نیا طوفان اٹھانے میں لگے ہیں۔ اس وقت امریکی جارحیت سب سے بڑا مسئلہ ہے جسے نظر انداز کرنا وطن دشمنی کے زمرے میں آتا ہے۔ ”ہمیں بتایا نہیں گیا“ کا بے حمیت راگ اب ختم ہو جانا چاہئے۔ صدر زرداری کا قول ہے کہ ”جمہوریت پوچھا نہیں کرتی بتایا کرتی ہے“ لیکن یہ کیسی جمہوریت ہے جو نہ امریکہ سے کچھ پوچھنے کا حوصلہ رکھتی ہے نہ بتانے کا… بس چھوئی موئی بنی بیٹھی ہے۔
تازہ ترین