• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خیبرپختونخوا اور فاٹاگزشتہ ایک دہائی سے قدرتی اور انسان کی پیدا کردہ آفات کی پیہم زد میں ہیں۔ حالیہ زلزلے نے بھی شمال مغربی پاکستان کے علاقوں، خیبرپختونخوا اور فاٹا، کے مصائب میں اضافہ کردیا ہے۔ اگرچہ زلزلے کے جھٹکے نے پورے پاکستان کو ہلاکر رکھ دیا لیکن زیادہ اموات اور تباہی اسی علاقے میں ہوئی۔ گلگت بلتستان، آزاد کشمیر اور پنجاب کے کچھ حصوں میں بھی جانی اور مالی نقصان ہوا۔ موجودہ زلزلے کی شدت اس قدر زیادہ تھی کہ وہ لمحہ ، جب قدموں تلے زمین لرز رہی تھی اور ارد گرد چیزیں جھولتی ہوئی دکھائی دیتی تھیں،اتنا اعصاب شکن تھا کہ اس نے بہت سے افراد، خاص طور پر بچوں پر ناقابل ِ فراموش نفسیاتی گھائو لگادیا۔ باوجود اس کے کہ یہ پاکستان کی تاریخ کا شدید ترین زلزلہ تھا، خوش قسمتی سے اس میں زیادہ جانی نقصان نہیں ہوا۔تاہم پبلک انفراسٹرکچر اور لوگوں کے مکانات بڑی تعداد میں تباہ ہوئے ، گو کہ ابھی مکمل اندازہ لگایا جانا باقی ہے۔
نسبتاً کم جانی نقصان کی وجہ یہ بتائی گئی کہ زلزلے کا مرکزافغانستان کے شمال مغربی صوبے،بدخشاں، جس کی سرحدیں پاکستان اور چین سے ملتی ہیں، کا ضلع جورم (Juram) تھا اور اس کی زمین میں گہرائی 193 سے 212 کلومیٹر تھی۔ اگر اس زلزلے کا موازنہ آٹھ اکتوبر 2005 ءکے زلزلے سے کیا جائے تو فرق واضح ہوجاتا ہے۔اُس زلزلے کی گہرائی صرف پندرہ کلومیٹر تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اُس میں 87,351افراد ہلاک، 75,266 زخمی اور 2.8 ملین بے گھر ہوئے۔ دوسری طرف آج دس سال بعد آنے والے زلزلے میں تین سو سے بھی کم انسانی جانیں ضائع ہوئیں۔ کم نقصان کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ زلزلے کا مرکز افغانستان کا صوبہ بدخشاں تھا۔ پاکستان میں اس کی شدت اس سے ملحق مالاکنڈ ڈویژن میں محسوس کی گئی اور خیبر پختونخوا کے اس پہاڑی علاقے میں آبادی کا ارتکاز زیادہ نہیں ہے۔ مالاکنڈ ڈویژن میں سب سے زیادہ متاثرہ علاقہ شانگلہ تھا جہاں سب سے زیادہ، پچاس ہلاکتیں ہوئیں۔ اسکے بعد سوات، چترال، لوئر دیر، اپردیر اور بونیر میں بھی ہلاکتیں ہوئیں۔ فاٹا میں سب سے زیادہ نقصان یہاں کی گنجان آباد ایجنسی، باجوڑ میں ہوا۔
زلزلہ آنے کے بعد اس کی شدت کا معاملہ متنازع بن گیا۔ میٹرولوجیکل ڈپارٹمنٹ آف پاکستان نے اس کی شدت ریکٹر اسکیل پر 8.1 بتائی جبکہ امریکی جیولوجیکل سروے نے پہلے اس کی شدت 7.7 اور بعد میں قدرے کمی کیساتھ 7.5بتائی۔ زلزلے کی شدت میں کمی کے اختلاف نے لوگوں کو کنفیوژ کردیا۔ پاکستان کے میٹرولوجیکل ڈپارٹمنٹ کا اصرار تھا کہ اس کی پیمائش درست ہے کیونکہ اس کے زمین کے ارتعاش کی پیمائش کرنیوالے مراکز اُس علاقے کے قریب ہیں جو زلزلے سے براہ ِر است متاثر ہوئے تھے۔اکتوبر 2005ء میں آنیوالے زلزلے کی شدت 7.6 تھی۔ ابتدائی اندازوں کے مطابق یہ صرف جنوبی ایشیا کو متاثر کرنے والازلزلہ تھا لیکن بعد میں پتا چلا کہ اسکا پھیلائو کہیں زیادہ تھا۔ اس کے جھٹکے افغانستان اور پاکستان کے علاوہ انڈیا، نیپال، چین، سری لنکا، تاجکستان اور کرغستان تک محسوس کئے گئے تھے۔ تاہم پاکستان ، جو امریکی جیولوجیکل سروے کے مطابق زلزلوں کے مرکز کے قریب ہے، میں سب سے زیادہ جانی اورمالی نقصان ہوا۔دوسرے نمبر پر نقصان برداشت کرنے والا ملک افغانستان تھا۔
جب چھبیس ا کتوبر کو دوپہر دو بج کر نو منٹ پر زمین میں زبردست ارتعاش پیدا ہوا تو ایسا محسوس ہوا جیسے سب کچھ ختم ہونیوالا ہے، لیکن اﷲ رب العزت نے اپنا کرم کیا اور لہرانے والے درخت اور جھولنے والی عمارتیں زمین بوس نہ ہوئیں۔ زبان سے بے اختیار کلمہ طیبہ کا ورد جاری ہوگیا ،ہر انسان خدا کی پناہ کا طالب ہوا۔ ایسے لمحوں میں انسا ن خود کو مکمل طور پر بے بس اور عاجز پاتا ہے۔ جب پہلا جھٹکا ختم ہوا ، اوسان ذرا بحال ہوئے ، آفٹر شاکس کا خطرہ کم ہوا تو لوگوں نے اپنے اہل خانہ کو دیکھا اور رشتے داروں اور دوستوں کی خیریت دریافت کرنے کیلئے فون کرنا شروع کردیئے ۔ اسکے بعدخوف کی جگہ تشویش نے لے لی اور لوگ اپنے مکانات کا جائزہ لینے لگے کہ کہیں اُن میں کوئی دراڑ تو نہیں پڑگئی۔ جن کے مکانات تباہ ہوچکے تھے اُنھوں نے اپنے اہل ِخانہ کو رشتے داروں کے گھر منتقل کردیا یا حکومتی یا فلاحی اداروں کی امداد کا انتظار کرنے لگے۔
خیبرپختونخوا کادارالحکومت ہونے کی وجہ سے پشاور ایک مرتبہ پھر سرگرمیوں کا مرکز بن گیا۔ سول اور فوجی افسران فاٹا اور صوبے کے دیگر مقامات پر امدادی کارروائیاں کرنے کے لئے ہنگامی میٹنگز میں مصروف ہوگئے ،جبکہ حکمران جماعت اور اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے سیاست دانوں نے پشاور کے لیڈی ریڈنگ اسپتال میں زیر ِ علاج زخمی افراد کی عیادت کی۔ جی ٹی روڈ پر واقع مغل دور کے قلعے بالا حصار کو شدید نقصان پہنچا تھا۔ اس کی ایک بہت بڑی فصیل گرگئی۔ امدادی سامان، جس میں خوراک اور دیگر اشیا شامل تھیں، کو دوردراز کے پہاڑی مقامات تک متاثرہ آبادی کو پہنچانا ایک چیلنج تھا کیونکہ رابطہ سڑکیں ٹوٹ چکی تھیں اور موسم سرد ہورہا تھا۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی(این ڈی ایم اے)اور خیبرپختونخوا کی صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی( پی ڈی ایم اے) ہنگامی حالات، جن کے لئے انہیں قائم کیا گیا سے نمٹنے سے عاجز پائی گئیں، ہر آن تیار رہنے کے دعوئوں کا عملی ثبوت دکھائی نہ دیا اور بہت جلد یہ بات واضح ہوگئی کہ 2005 ءکے زلزلے اور2010 ءکے سیلاب سے کوئی سبق نہیں سیکھا گیا۔
اسکے بعد امدادی سامان اور اہم شخصیات کو لے کر جانے والے ہیلی کاپٹرز آسمان پر محو ِ پرواز دکھائی دیئے اور سوات کا سیدو شریف ائیرپورٹ، جو طالبان کے قبضے کے دوران بند کردیا گیا تھا، ایک مرتبہ پھر فعال دکھائی دیا۔ میڈیا کی بیداری کا شکریہ کہ اب یہ ہر معاملے پر نظر رکھتا ہے، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی اشرافیہ نے زلزلے سے پیدا ہونیوالے چیلنج پر غیرمعمولی طور پر فوری توجہ دینا شروع کردی۔ وزیر ِ اعظم نواز شریف اپنا غیر ملکی دورہ مختصر کرکے فوری طور پر وطن واپس لوٹے اورزلزلہ متاثرین کی امداد اوربحالی کے اقدامات میں مصروف ہوگئے۔ اُنکے اہم سیاسی حریف ،پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان بھی زیادہ سے زیادہ مقامات پر فعال ہونے کی دوڑ میں شامل تھے ۔ وہ خیبر پختونخوا میں اپنی حکومت کو اس چیلنج سے نمٹنے کے لئے رہنمائی کررہے تھے۔ اس دوران دیگر سیاست دان بھی مصروف دکھائی دینے کی کوشش میں تھے حالانکہ وہ زلزلہ متاثرین کی تکالیف کے مداوےکیلئے عملی طور پر کچھ نہیں کررہے تھے۔ فلاحی سرگرمیوں میںالخدمت فائونڈیشن کے ذریعے جماعت ِاسلامی سب سے سبقت لیتی دکھائی دی کیونکہ اسکے پاس فلاحی کام کرنیوالی تربیت یافتہ افرادی قوت اور فعال مراکز موجود ہیں۔
وزیر ِاعظم نواز شریف نے قوم کے موڈ کا بالکل درست اندازہ لگاتے ہوئے زور دیا کہ پی ایم ایل (ن) قدرتی آفات، جیسا کہ زلزلے، پر سیاست نہیں کرے گی۔ اُنھوں نے متاثرین کیلئے امدادی پیکج کا اعلان کرتے ہوئے پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے وزیر ِ اعلیٰ خیبرپختونخواہ، پرویز خٹک ، کی مشاورت کو ملحوظ ِخاطر رکھا۔ اُن کی حکومت نے وعدہ کیا کہ وہ امدادی پیکج کی فوری فراہمی کویقینی بنائے گی۔ بعض حلقوںنے پیکج کو ناکافی قراردیتے ہوئے تنقید کا نشانہ بنایا جبکہ بعض نے اسے بروقت اور مناسب قرار دیا۔بہرحال دیکھتے ہیں کہ اس وعدے کی تکمیل کب ہوتی ہے؟اپنے نظام کی کمزوریوں سے آگاہ،چنانچہ حتمی تاریخ دیتے ہوئے وزیر ِ اعظم نے سرکاری افسران پر زور دیا کہ وہ ہونیوالے نقصانات کا درست تخمینہ لگائیں۔حسب ِ معمول ، وزیر ِ اعظم نوا زشریف نے زلزلہ متاثرین کی مدد کیلئے بلند و بالادعوے کرڈالے ۔ اُنھوں نے لوگوں کو یقین دلایا کہ حکومت تباہ شدہ گھر تعمیر کرنے اور متاثرہ گھروں کی مرمت کرنے میں مدد کرے گی۔ جون 2014ء میں اُنھوں نے آپریشن ضرب ِ عضب کی وجہ سے شمالی وزیرستان سے بے گھر ہونے والے افراد سے وعدہ کیا تھا کہ حکومت انکے تباہ شدہ گھر تعمیر کرے گی۔ عملی صورت ِحال یہ ہے کہ شمالی وزیرستان، جنوبی وزیرستان، اورکزئی، کرم، خیبر اور دیگر قبائلی ایجنسیوں سے بے گھر ہونیوالے افراد کوشکایت ہے کہ اُنہیں فراہم کیا جانیوالا امدادی پیکج ناکافی ہے۔بے جا خود اعتمادی سے سرشار ہوتے ہوئے حکومت نے اعلان کیا کہ اسکے پاس اس آفت سے نمٹنے کیلئے وسائل کی کمی نہیں، چنانچہ اُسے غیر ملکی امداد نہیں چاہئے۔ امیدکی جانی چاہئے کہ یہ بات درست ہوگی کیونکہ ماضی میں اس طرح کے کئےجانیوالے دعوے حقیقت سے بعید نکلے۔
تازہ ترین