• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نیت شوق بھر نہ جائے کہیں
توبھی دل سے اتر نہ جائے کہیں
جی جلاتا ہوں اور سوچتا ہوں
رائیگاں یہ ہنر نہ جائے کہیں
( ناصر کاظمی)
بلدیاتی انتخابات کے متوقع نتائج آگئے ۔ پنجاب سے مسلم لیگ (ن) اور سندھ سے پیپلز پارٹی نے میدان مارلیا ۔ بدین سے ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کے گروپ نے شاندار انٹری ماری جبکہ ٹھٹھہ سے شیرازیوں کا اورنوشہروفیروز سے جتوئی خاندان کاتختہ الٹ گیا ، میں نے اپنے گذشتہ کالم میں لکھا تھا کہ مسلم لیگ(ن) کے سندھ کے صوبائی عہدیداروں نے پنجاب سے سینیٹ کی سیٹیں اپنے لئے تو حاصل کرلیں مگر سندھ میں مسلم لیگ (ن) کو بے یارومددگارلاوارث چھوڑ دیا ۔ خود اسلام آباد کے پارلیمنٹ لاجز میں آرام دہ زندگی گزار رہے ہیں یہاں ورکروں کو لاوارث چھوڑ دیا ہے سندھ میں (ن) لیگ کو بھرپور شکست ہوئی ، ارباب رحیم نے تو مسلم لیگ (ن) چھوڑنے کے بارے میں عندیہ دیدیا ۔ لیاقت جتوئی کا بیٹا کریم جتوئی اپنے بل بوتے پر جیتا ہے کیونکہ یہ علاقہ مرحوم عبدالحمید جتوئی کےزمانے سے ان کے خاندان کی میراث ہے کبھی کبھی سرکاری دھاندلی سے ہار جاتے ہیں مگر پھر الیکشن پٹیشن کے ذریعے دھاندلی ثابت کرکے واپس اسمبلی میں بیٹھ جاتے ہیں عمران خان اگرچہ پنجاب میں بلدیاتی انتخابات میں آزاد امیدوراوں کے بعد آئے ہیںمگر(ن)لیگ اور ان کی سیٹوں کے درمیان فرق بہت زیادہ ہے (ن) لیگ پنجاب میں بہت آگے ہے اور اس کی وجہ پنجاب میں ن لیگ کی حکومت کے دوران کیاگیا ترقیاتی کام ہے جو کہ اندھے کو بھی نظر آتا ہے ایسے بیانات کہ میٹرو کی جگہ غریبوں کے دوسرے مسائل حل کرنے پر توجہ دی جاتی ناکام سیاسی لیڈروں کی شکست خوردہ اور منفی ذہینت کی عکاسی کرتی ہے ۔ میٹرو منصوبہ بہت کامیاب ہے سفید پوش لوگ جواپنی موٹرکار کے روزانہ پیڑول کے اخراجات برداشت نہیں کرسکتے خاص طور پر تنخواہ یافتہ طبقہ وہ اس میٹرو سے بے انتہا مطمئن ہیں اور اسے مسلم لیگ ن کا کارنامہ سمجھتے ہیں لاہور کے بعد اسلام آباد میںکامیاب تجربہ عوام کیلئے بہت بڑی سہولت ہے میرایہاں نوازشریف کواس کالم کے ذریعے مخلصانہ مشورہ ہے کہ وہ کراچی میں ٹرام کو بحال کردیں ان تمام روٹس پر جس پر وہ پہلے چلتی تھی ، اس منصوبے پر زیادہ رقم خرچ نہیں آئے گی اور یہ بے حد مقبول ہوگا سانفرانسکو میں اب بھی ٹرام کا سفر بے حد مقبول ہے کراچی میں ٹرام کا سفر صرف10پیسے میں ہوتا ہے صدر سے کیماڑی تک ،سولجر بازار سے کینٹ اسٹیشن تک ٹرام گھنٹی بجاتی ہوئی آتی تھی اور کراچی کا ایک خاص کلچر پیش کرتی تھی لاہور اور پشاور سے آنے والے لوگ سمندر اور ٹرام دیکھ کر واپس جاتے تھے اور وہاں لوگوں کوبتاتے تھے کہ کراچی میں ٹرام ہوتی ہے جو سڑک کے بیچ میں چلتی ہے اور اسکے دروازے نہیں ہوتے اور اسکے دونوں طرف انجن ہوتا ہے وہ سیدھے اور الٹے روٹ پر ایک ہی پٹری پر چلتی ہے صرف ڈرائیور اپنارخ بدلتا ہے یا سیٹ بدلتا ہے اسی طرح سمندر کے بارے میں بتاتے تھے کہ بہت بڑا دریا ہے جسکا دوسرا کنارہ ہی نہیں ہوتا تیسرا یہاں کی روشنیوں کا ذکر کرتے تھے اور یہ روشنیوں کا شہر کہلاتا تھا کراچی کے قصے سن کر وہاں بیٹھے لوگوں کے دلوں میں کراچی دیکھنے کا شوق ابھرتا تھا پھر کسی بدنظر کی نظر لگ گئی1976میں ٹرام کی پٹری اکھیڑ دی گئی اور محمد علی ٹرام وے کمپنی بند ہوگئی ۔ ٹرام کی پٹری کی جگہ تارکول ڈال کر پٹری ختم کردی گئی ایم اے جناح روڈ اور ایمپریس مارکیٹ کی رونق ختم کرکے بسوں اور ویگنوں کی بہتات کردی گئی جوکالا دھواں چھوڑنے کے ساتھ ساتھ ٹریفک بلاک کرنے کا سبب بنتی ہیں اور شہر میں دمہ کی بیماری کاموجب ہیں ۔ ویگنوںاور بسوں سے نکلنے والے کالے دھوئیں نے اکثر موٹر سائیکل سواروں کودمے کے موذی مرض سے روشناس کروادیا ہے کیونکہ وہ سانس کے ذریعے صرف دھواں ہی اندر لیتے ہیں میرا میاں صاحب کو مخلصانہ مشورہ ہے کہ کراچی کی ٹرام بحال کردیں اب تو ’ بی اوٹی ‘ پر چائنا جاپان یا یورپ کا کوئی ملک یہ منصوبہ مکمل کردے گا اور ہماری کوئی لاگت بھی نہیں آئےگی اور عوام کو سہولت میسر ہوجائیگی دوسرا کام میاں صاحب یہ کرسکتے ہیں کہ صبح سات بجے سے10بجے تک اور شام پانچ بجے سے10بجے تک سرکلر ریلوے چلادیں ۔ اسکے ماہانہ پاس بنادیں تاکہ ٹکٹ چوری کامسئلہ حل ہوجائے صرف پاس والے حضرات سفر کریں ٹرین کے اندر کنڈکٹر ہوجو بغیر پاس والے افراد کوٹرین کے اندر ٹکٹ جاری کرے اس طرح نقصان بھی بچ جائیگا اور سڑکوں پر ٹریفک بھی ک ہوجائے گا دھواں بھی کم ہوگا اگر میاں نواز شریف ان دومنصوبوں پر عمل کریں تو کراچی میں ان کی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ ہوگا ۔ کراچی کے سابقہ مئیر مصطفیٰ کمال کے دور میں کراچی میں باغات پر خاص توجہ دی گئی تھی خاص طور پر باغ قاسم اور بے نظیر باغ کلفٹن قابل دید تھے ، گورنر عشرت العباد کبھی باغوں کی خوبصورتی اور اعلیٰ معیار پررکھنے میں پیش پیش تھے اسکے بعد باغ اب ایسے اجڑ گئے ہیں کہ پہچانے بھی نہیں جاتے ۔ مصطفیٰ کمال توچلے گئے مگر گورنر عشرت العباد موجود ہیں کیوں توجہ نہیں دیتے ۔ ؟ میرے دوست عبداللہ رفیع نے مجھے باغوں کی موجودہ بیس رنگین تصویریں بھیجی ہیں جسمیں اجڑے ہوئے باغ دکھائے گئے ہیں میرا مشورہ ہے کہ جسطرح شہر کی بڑی بڑی چورنگیاں بڑے بڑے کمرشل اداروں کو دیکھ بھال کے لئے دی گئی ہیں اس طرح باغات بھی بڑی بڑی کمپنیوں کوبانٹ دیئے جائیں جو کہ اسکی دیکھ بھال کاخرچہ اٹھائیں اور اپنے پرائیوٹ ملازمین مالی اور صفائی والوں کے ذریعے باغات کی دیکھ بھال کریں سرکاری مالی اورصفائی والے کام ہی نہیں کرتے ۔ متعلقہ افسران کھاد ، مٹی ،بیج کا بجٹ خود کھاجاتے ہیں اور لوگ باغوں میں کچرا پھینکنا شروع کردیتے ہیں اور اسطرح باغ کچرا کنڈی کا منظر پیش کرتا ہے ، گورنر عشرت العباد سے گزارش ہے کہ باغات کی دیکھ بھال کے لئے دوبارہ توجہ دیں اور کراچی کی خوبصورتی کوبحال کرنے کے لئے اپنا سابقہ کردار ادا کریں ۔ اگر بجٹ نہیں ہے تو باغ پرائیوٹ کمپنیوں کودیکھ بھال کرنے کے لئے دیدیں وہ ان میں پھول اور پھول سے بچوں سے بچوں کے لئے اپنے خرچے پر جھولے لگائیں آخر میں احمد فراز کے حسب حال اشعار قارئین کی نذرکرتا ہوں
میں خود کوبھول چکاتھا مگر جہاں والے
اداس چھوڑ گئے آئینہ دکھا کے مجھے
تمہارے بام سے اب کم نہیں ہے رفعت دار
جو دیکھنا ہوتو دیکھو نظر اٹھاکے مجھے
تازہ ترین