• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آسمانی صحیفوں کے مطابق حضرت آدم ؑ اولین انسان تھے مکمل اور تربیت یافتہ۔ انہیں پیغمبر بنا کر بھیجا گیا تھا‘ تاکہ بنی آدم کو آسمانی ہدایت کے مطابق تعلیم دیں اور ان کی تربیت کریں۔ انسان کو اچھی فطرت پر پیدا کیا گیا ہے لیکن کج روی بھی اس کی جبلت میں ہے۔ نیکی‘ بدی اس کے اندر پروان چڑھتی ہے۔ حضرت آدمؑ کے بیٹے ہابیل نیک فطرت اور باپ کی ہدایت کے مطابق صالح زندگی گزارتے‘ راست بازی نے انہیں زیادہ بااعتبار اور قابل احترام بنا دیا تھا۔ ہابیل کا بھائی قابیل بھلائی میں اپنے بھائی کا مقابلہ کرنے کی بجائے ’’حسد‘‘ کا شکار ہوا۔ اپنے بھائی کو جو خطروں میں اس کا محافظ اور تنہائیوں میں دم ساز تھا‘ اسے اپنے ہاتھوں سے قتل کر ڈالا۔ تب یہ کرۂ ارض پہلی مرتبہ انسانی خون کی بو‘ باس اور رنگت سے آشنا ہوا۔ ایک خاندان‘ ایک زبان‘ ایک رنگت‘ کوئی تنازع‘ نہ جھگڑا‘ محض حسد تھا جس نے ابن آدم سے قتل جیسا قبیح جرم کروا ڈالا۔ اس دن سے آج تک کوئی دن ایسا نہیں جب انسانوں کے مابین جنگ و جدل اور قتل و غارت نہ ہوئی ہو۔ اس کی شدت و وسعت میں کمی بیشی ہوتی رہی لیکن پورا امن تاریخ انسانی نے کبھی نہیں دیکھا۔ محبت سے جن خاندانوں‘ نسلوں‘ قبیلوں‘ قوموں کی پرورش کرتے پھر رشک و رقابت میں مبتلا ہو کر انہی کی گردن مارنے لگتے ہیں۔ یہ تہذیب کا مسئلہ ہے نہ رنگ و نسب کا ‘ یہ محض حسد‘ لالچ او رجاہ طلبی کا شاخسانہ ہے۔ کج فکر تعداد میں کم ہونے کے باوجود جلد ایک دوسرے سے جڑ جاتے ہیں اور غیر منظم اکثریت کو نشانے پر رکھ لیتے ہیں۔ پھر وہی ہوتا ہے جو قابیل نے ہابیل کے ساتھ کیا۔ راست فکر اکثریت ہمیشہ سلامت روی کے ساتھ ہے لیکن قوموں کے بدفطرت جب سلطنت اور اقتدار تک پہنچ جاتے ہیں تو پھر انسانوں کے مقدر سے کھیلنے لگتے ہیں اور انسانی بستیوں کو آگ و خون سے بھر دیتے ہیں۔
تازہ واقعات میں 9/11کے بعد افغانستان پر امریکی حملہ اس کی بدترین مثال ہے‘ جہاں دائیں بازو کے انتہا پسند (New Cons) نے صدر بش کو مہرہ بنا کر جنوبی ایشیا میں افغانستان اور مشرق وسطیٰ میں عراق و لیبیا کو زیر و زبر کر ڈالا‘ جس کے نتائج پوری دنیا بھگت رہی ہے۔ اب ملک اور حکومتیں ہی نہیں انسانی آبادیوں کی ساری تہذیبیں بہت بڑے خطرے کا سامنا کر رہی ہیں۔ ’’خارجیوں‘‘ کا خوفناک عفریت جو گزشتہ سات صدیوں سے سنگین دیواروں اور آہنی زنجیروں میں جکڑ دیا گیا تھا‘ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی کارپٹ بمبار ی اور ڈیزی کٹر نے ان کے گرد کھڑی دیواریںگرا دیں‘ زنجیریں توڑ ڈالی ہیں۔ اب یہ سات سروں والی خوفناک ’’بلا ‘‘تازہ انسانی خون پی کر جوان ہوتی ہے اور ا س کی سانسیں آگ اگلتی ہیں۔ اس ’’بلا ‘‘نے پہلا نشانہ اپنے خاندان‘ ہمسایوں اور اہل وطن کو بنایا‘ جوں جوں یہ جوان اور توانا ہوتی جا رہی ہے‘ اس کی بھوک اور وحشت بھی اسی رفتار سے بڑھتی جا رہی ہے‘ دنیا کی ساری انسانی آبادیاں اس کی چراگاہ ہیں‘ کوئی مشرق یا مغرب اس کی دسترس اور وحشت سے دور نہیں۔ امریکہ میں 9/11 برطانیہ میں 7/7 (سات جولائی) کے حملے‘ اسپین بھی نشانہ بنا۔ گزشتہ چند دنوں میں روس کا مسافر بردار طیارہ مار گرایا گیا‘ جس سے ڈھائی سو مسافر لقمہ اجل بنے۔ لبنان میں خودکش حملہ کر کے پچاس زندہ انسانوں کو لوتھڑوں میں بدل ڈالا اور اگلے دن فرانس کے شہر پیرس میں اندھا دھند فائرنگ اور خودکش دھماکوں میں ایک سو تیس (130) ہنستے‘ کھیلتے لوگوں کو کاٹ ڈالا۔ یہ جنہیں ہم ’’خوارج‘‘ کا نام دیتے ہیں‘ یہ مسلمانوں کے گھروں میں پیدا ہو کر ہماری ہی صفوں سے نکلے ہیں لیکن انہیں غارت گری کی راہ‘ سہولت اور موقع اہل مغرب نے فراہم کیا ہے‘ امریکہ اور مغربیوں کیلئے یہ بالکل نیا اور ابتدائی تجربہ ہے‘ ان کی جانوں کا اتلاف بھی محدود ہے لیکن ؎
ا ے شمع تجھ پر رات یہ بھاری ہے جس طرح
ہم نے تمام عمر گزاری ہے اس طرح!
پچھلے چند برسوں میں افغانستان تیس لاکھ سے زیادہ ہم وطنوں کی قربانی دے چکا ہے‘ عراق پندرہ لاکھ‘ مجموعی طور پر مشرق وسطیٰ کی ہلاکتیں افغانستان سے کم نہیں رہی ہوں گی۔ پاکستان بھی امریکہ کی مہربانی سے ایک لاکھ اہل وطن گنوا چکا ہے‘ کشمیر اور فلسطین اہل یورپ کے ’’لاڈلوں‘‘ کے ہاتھوں پچھلے ستر(70) سال سے خون میں نہلائے اور آگ میں جھلسائے جا رہے ہیں۔ اگر ہم سب شرق و غرب کو جانوں کی سلامتی اور تہذیب کی حفاظت مقصود ہے تو مل بیٹھ کر انصاف کے ساتھ‘ عدل کی بنیادوں پر کوئی فیصلہ کر کے پوری طاقت سے اس فیصلے کو نافذ کریں تو شاید کچھ بچ رہے ورنہ ’’اسامہ بن لادن‘‘ کے بے ضرر مطالبے کو نظرانداز کیا تو ’’القاعدہ‘‘ نمودار ہو گئی۔ اب القاعدہ کے بدن سے پھوٹنے والی اس سے ہزار گنا طاقتور ’’داعش‘‘ کا سامنا ہے‘ اگر امریکہ اور روس اسرائیل کی حمایت اور بشارالاسد کے مفاد میں کوئی سمجھوتہ کر کے داعش کو شکست دیں گے تو اس سے سنگین تر خطرہ ان کے اندر سے پیدا ہو جائے گا۔ ایک کیچوے کو ٹکڑوں میں کاٹ دیا جائے تو چند دن میں سب ٹکڑے اپنی جگہ مکمل اور زندہ کیچوے بن جاتے ہیں۔ طالبان کو ختم کرنے‘ القاعدہ کو مارنے کی کوشش میں امریکاکی قیادت میں پوری دنیا ہلکان ہوتی رہی‘ پھر بھی طالبان زندہ ہیں اور القاعدہ بھی موجود۔ اب ان کے انڈے‘ بچے پوری دنیا میں پھیلتے جا رہے ہیں۔ یہ جاہل‘ ان پڑھ ہیں نہ دور دراز مدرسوں میں ٹھکانہ کرنے والے محدود عقل کے نوجوان‘ یہ یورپ میں پیدا ہو کر ‘یہاں کے بہترین اداروں میں علم و مہارت حاصل کرنے والے‘ خوشحال گھرانوں کے افراد ہیں۔ روس‘ امریکا‘ یورپ کی بجائے ’’اقوام متحدہ‘‘ کو بروئے کار آنا چاہئے۔ اس خطرے کے تدارک کیلئے انصاف اور عدل پر مبنی ایک نظام وضع کیا جائے‘ جس سے قوموں کے درمیان سیاسی تنازعات ختم ہو سکیں۔ فلسطین اور کشمیر جیسے تنازعات کے حل کی راہ ڈھونڈیں۔ ترکی ‘ ایران‘ پاکستان‘ سعودی عرب‘ امریکا‘ یورپ‘ چین اور روس سب مل کر ایک فوجی اور انتظامی یونٹ تشکیل دیں جو ان غیرریاستی عناصر کے خلاف یکسوئی سے اس طرح کارروائی کرے جس طرح ’’جنرل راحیل شریف ‘‘کی قیادت میں پاکستان نے کی ہے‘ یکسوئی اور خلوص کے ساتھ۔ افغانستان میں امریکہ اپنی ذمہ داری پوری کرے‘ پاکستان کے شرپسند عناصر جو افغانستان میں پناہ گزین ہیں انکے خلاف قدم اٹھائے یا پاکستان کو کارروائی کی اجازت دلائے۔ اپنے ’’بغل بچے‘‘ اسرائیل اور ’’گود لئے‘‘ انڈیا کو اپنی حدود میں رہنے اور مسلمانوں کو بھڑکانے کا عمل روکنے کا حکم دے۔ باہمی تعاون‘ فوجی طاقت‘ انتظامی صلاحیت کیساتھ ’’داعش‘‘ جیسی خون خوار عفریتوں کا خاتمہ کریں‘ فلسطین اور کشمیر کے مسئلے کو انصاف کے ساتھ حل کریں‘ ذاتی مفاد اور سیاسی مصلحت سے اوپر اٹھ کر خلوص اور توجہ کے ساتھ۔ فلسطین کے مسئلے کا مکمل اور دیرپا حل تو یہ ہے کہ ’’چند لاکھ یہودی جو دنیا بھر سے لا کر یہاں آباد کئے گئے تھے ‘ انہیں امریکا‘ کینیڈا یا آسٹریلیا میں لے جا کر آباد کر دیا جائے اور بیت المقدس ایک بین الاقوامی‘ بین المذاہب نگرانی میں رہے۔ تنازعات کا آبرومندانہ حل ڈھونڈنا ہوگا‘ آج اور ابھی سے شروع ہو کر چند مہینوں اور برسوں کے اندر۔
ورنہ یہ زندگی کا سفر رائیگاں تو ہے!
تازہ ترین