• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حاجی محمد عدیل کا نام اخبارات سے تھوڑے عرصے کے لئے بھی غائب ہوتاتو خیال آتا کہ شاید وہ بیرون ملک گئے ہوئے ہیں ، یا خد ا خیر کرے، علیل نہ ہوں،وگرنہ اُن کے روز مرہ کے معاملات پر تبصرہ نہ کرنے کی کوئی وجہ نہ تھی۔ وہ تنازعات میں الجھنے سے قطعاً نہ گھبراتے ۔ ایک مرتبہ جب کوئی موقف اختیار کرلیتے تو پھر جو بھی ہو، اس کا دفاع کرتے ۔
تاہم اس مرتبہ اُن کی میڈیا سے غیر حاضری طویل اور تکلیف دہ تھی۔ اُنہیں گزشتہ تیس برس سے شوگر کا عارضہ لاحق تھاجس نے پیچیدگی اختیار کرکے اُن کے گردوں کومتاثر کردیا تھا۔ اُن کا گزشتہ پندرہ ماہ سے ڈائلیسز ہورہا تھا۔ اس دوران اُنہیں ہیپاٹائٹس سی ہوگیا جس نے عمل ِ تنفس کو نقصان پہنچایا۔ہر کوئی اُن پر زور دیتا تھا کہ وہ اپنی انتہائی مصروف زندگی تبدیل کرتے ہوئے اپنی سرگرمیوں کو محدود کریں ۔ وہ اٹھارہ نومبر کو گردے فیل ہونے کی وجہ سے خالق ِ حقیقی سے جاملے ۔ اُن کی عمر 72 سال تھی ۔
جناح پارک، پشاور ،جسے آج بھی خدائی خدمتگار تحریک سے وابستگان کنیگھم پارک( Cunnigham Park) کہتے ہیں ، حاجی عدیل کی اداکی جانے والی نماز ِ جنازہ میں عوام کی ایک کثیر تعداد کی شرکت اُن کی عوامی مقبولیت کا مظہر تھی۔ وہاں زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد موجود تھے جو حاجی عدیل مرحوم کی خوبیوں کا ذکر کرتے ہوئے اُنہیں ایک اچھے انسان اور جمہوریت، صوبائی خود مختاری اور انسانی حقوق کے داعی کے طور پر یاد کررہے تھے ۔ سرخ یونیفارم اور سرخ ٹوپیاں پہنے عوامی نیشنل پارٹی ( اے این پی) کے کارکنوں اور اُن کے رشتہ داروں نے اُن کا تابوت اٹھایا ہواتھا۔ یہ اس شخص کو ادا کیا جانے والا آخری خراج ِ عقیدت تھا جس نے عمر بھر خدائی خدمتگار نظریئے اور انسانیت کی خدمت کا پرچم بلند رکھا۔ یہ خوبیاں اُنہیں اپنے والد صاحب، حکیم عبدالجلیل ندوی ، جو خان عبدالغفار خان ، المعروف باچا خان ، کے پیروکار تھے ، سے وراثت میں ملی تھیں۔ وہ کوئی باریش حاجی نہیں بلکہ کلین شیوانسان تھے جو مذہبی اور سیکولر، دنوں نظریات رکھتے تھے ۔ وہ ترقی پسند نظریات اور جمہوریت سے وابستگی رکھنے والے ایک انسان دوست اور قوم پرست پختون تھے ۔ فریضہ ٔ حج کی ادائیگی کے بعد اُن کا نام ’’حاجی‘‘ کے سابقے کے بغیر ادھورا معلوم ہوتا۔ رفتہ رفتہ ’’حاجی ‘‘ اُن کے نام کا حصہ بن گیا۔
حاجی عدیل کا سیاسی دامن صاف تھا، اگرچہ وہ اپنے صوبے میں فنانس منسٹر اور ڈپٹی اسپیکر کے عہدوں پر فائز رہے لیکن اُن کا نام کسی مالیاتی اسکینڈل کی زد میں نہ آیا۔ وہ تین مرتبہ،1990، 1993 اور 1997 میں صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ۔ اس کے علاوہ مارچ 2009 سے لے کر مارچ 2015 تک سینیٹ کے رکن بھی رہے۔ کئی سال تک حاجی عدیل قومی سطح پر مشہور نہ ہوسکے کیونکہ اُن کی سیاست پشاور اور خیبر پختونخواتک محدود تھی، لیکن سینیٹ کی رکنیت نے اُنہیں وفاقی سطح پر آنے کا موقع دیا، اور وہ جلد ہی قومی سطح کی ایک شخصیت بن گئے ۔ ٹی وی ٹاک شوز نے اُنہیں تمام صوبوںاور گھرانوں میں متعارف کرادیا۔ علم اور معلومات رکھنے والے حاجی عدیل ہر قسم کے معاملات پر بات چیت کرنے کے لئے پوری تیاری کے ساتھ آتے ۔ اُن کی ذہانت اور حاضر جوابی کے ساتھ ساتھ اُن کی قوت ِ گفتا ر تمام سامعین کو اُن کی طرف متوجہ کردیتی ۔
سینیٹ میں اُن کی چھ سالہ مدت کے اختتام نے اُنہیں اُس مقام سے محروم کردیا جہاں سے وہ اپنے من پسند معاملات پر اپنی آواز بلند کرسکتے تھے ۔ چھوٹے صوبوں کی نمائندگی کا تحفظ کرنے والے حاجی عدیل مرحوم کے لئے سینیٹ ایک مثالی پلیٹ فارم تھا ۔ اُنھوںنے اپنے صوبے اور اس کے عوام کے حقوق کے تحفظ کے لئے اپنی آواز بلند کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا۔ بے چین اور فعال روح رکھنے والے حاجی عدیل کے لئے گھر پر ٹھہرنا اذیت ناک تھا، خاص طور پر اُس وقت جب وہ ایک سینیٹر نہیں رہے تھے ۔ اُن کی بیماری نے اُنہیں متحرک نہیں رہنے دیا تھا۔ ایک موقع پر اُن کے بیٹے، عدنان جلیل نے اُنہیں مشورہ دیا کہ وہ افغان قونصلیٹ ، پشاور میں ہونے والی ایک تقریب ، جس میں پشتوزبان کے ایک مقبول غزل گائیک، خیال محمد کو افغانستان کا سب سے بڑا سول ایوارڈ دیا جارہا تھا، میں شرکت کریں تاکہ اُن کا دل بہل جائے ۔ یہ اُن کی زندگی کی آخری عوامی تقریب ثابت ہوئی ۔ حاجی صاحب اُسی رات خالق ِ حقیقی سے جا ملے ۔
اُن کی زندگی میں کچھ دل شکن واقعات بھی پیش آئے ، لیکن اُنھوں نے ان کا جواں مردی سے سامنا کیا۔ ان میں سے ایک اُن کے بیٹے، محمد جبران جلیل کی نوعمری میں وفات تھی۔اُسے دمے کا عارضہ لاحق تھا۔ حاجی عدیل کو اپنے سیاسی نظریات کی وجہ سے قیدوبند کی سز ااور مالی نقصان بھی برداشت کرنا پڑا۔ اُنھوںنے مردان میں بناسپتی گھی بنانے کی فیکٹری لگائی، لیکن اس سے نقصان ہوا اور اُنہیں اسے فروخت کرنا پڑا۔ اُس وقت اُنھوںنے اپنے کاروبار کی تباہی کو صوبائی سطح پر سیاسی انتقامی کارروائی کا شاخسانہ قرار دیا تھا۔ حاجی عدیل کے اے این پی، یا اس کی پیش رو جماعتوں، جیسا کہ نیشنل عوامی پارٹی اور نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی سے پیچیدہ تعلقات تھے ۔ اُن کا تعلق ہندکو بولنے والے خاندان سے تھا جو پشتو روانی کے ساتھ نہیں بول سکتا تھا ، لیکن حاجی صاحب نے پختونوں کے حقوق کے لئے ان تھک جدوجہد کی۔
وہ میرٹ پر یقین رکھتے تھے حالانکہ وہ زندگی بھر باچا خان کی فیملی، اُن کے بیٹے ، خان عبدالولی خان اور پوتے ، اسفند یار ولی خان کے وفادار رہے اورایک حوالے سے موروثی سیاست کو مضبوط کیا۔ بطور ممبر سینیٹ ، اور اس سے پہلے بطور ممبر صوبائی اسمبلی، حاجی عدیل نے جس طرح اپنے فنڈز استعمال کئے، وہ ان کی ترجیحات کی غمازی کرتا ہے۔ صحت اور تعلیم اُن کی توجہ کا مرکز رہے ۔ اُنھوںنے جبران جلیل اسپتال اور حکیم عبدالجلیل ندوی اسپورٹس کمپلیکس، پشاور یونیورسٹی میں بالترتیب اپنے مرحوم بیٹے اور والد صاحب کی یاد میں قائم کئے ۔ اُنھوںنے جڑی بوٹیوں سے علاج کی روایت کو آگے بڑھانے کے لئے خیبر میڈیکل یونیورسٹی میں ہربل انسٹی ٹیوٹ کے لئے فنڈز جاری کئے ۔ یہ ادارہ اُن کے والد صاحب، جو ایک فاضل طبیب تھے ، کے نام پر قائم کیا گیا۔ اُنھوں نے کنٹونمنٹ جنرل اسپتال ، پشاور کی تزئین کی اور اس کا نام اپنی والدہ مرحومہ، انوار بیگم کے نام پر تجویز کیا۔ اُنھوںنے پشاور کے ڈیفنس پارک میںواقع اسپورٹس کمپلیکس کو فنڈز جاری کئے۔ اس کے علاوہ اُنھوںنے نشتر ہال پشاور کے قریب آرٹس اینڈکلچرل سینٹر کے قیام کے لئے فنڈزمہیا کئے۔
بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ حاجی عدیل مرحوم کا تعلق فنکاروں کے خاندان سے تھا۔ حاجی عدیل اور اُن کی بیوی، فرزانہ عدیل مصور تھے ، اور اُن کی پہلی ملاقات اباسین آرٹ کونسل پشاور، جہاں وہ استاد سلطان حیدر سے پینٹنگ کی کلاسز لیتے تھے ، میں ہوئی اور وہ وہیں ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہوگئے ۔ اُن کا بیٹا، جبران جلیل بھی ایک پینٹر تھا۔ اُن کا بڑا بیٹا ، عدنان جلیل ایک انٹیریر ڈیکوریٹر اور ڈئیزائنر ہے ، ان کی دوصاحبزادیاں بھی فن کا ذوق رکھتی ہیں۔

.
تازہ ترین