لاہور (صابر شاہ( قیام پاکستان سے لے کر اب تک درجنوں نامور شخصیات ناگہانی اموات کا شکار ہو چکی ہیں ان میں تازہ ترین المناک اضافہ معروف نعت خواں اور مذہبی سکالر جنید جمشید کی موت بھی شامل ہے جو بدھ کے روز طیارہ حادثے میں دیگر 47 افراد کے ہمراہ جاں بحق ہوگئے۔ 52 سالہ جنید جمشید معروف قوال امجد صابری کے قتل کے بمشکل ساڑھے پانچ ماہ بعد خود بھی دنیا سے رخصت ہوگئے ۔ امجد صابری کو 22 جون 2016 کو کراچی میں دہشت گردوں نے قتل کر دیا اس سے قبل متنازع سرگرمیوں سے شہرت حاصل کرنے والی ماڈل قندیل بلوچ کو قتل ہوئے بھی تقریباً پانچ ماہ ہوئے ہیں انہیں رواں سال 17 جولائی کو قتل کیا گیا۔ قتل اور ناگہانی اموات کی نذر ہونے والوں میں بڑے بڑے عہدوں اور مناصب پر فائز رہنے والی شخصیات بھی شامل ہیں جن میں وزرائے اعظم، صدور، گورنر، وزرائے اعلیٰ، وزیر، جج، سیاسی رہنما، علماء، افواج پاکستان کے اعلیٰ عہدیدار، اساتذہ اور دیگر اعلیٰ پائے کے لوگ شامل ہیں۔ ناگہانی اموات کا شکار ہونے والوں میں متعدد ایسے افراد بھی ہیں جنہیں عالم شباب میں موت کی وادی میں اترنا پڑا۔ جنگ اور جیو ٹی وی کی ایک مشترکہ ریسرچ کے مطابق گزشتہ ایک دہائی میں ناگہانی طور پر لقمہ اجل بننے والی اہم قومی شخصیات کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے تاہم بعض نامور اور بااثر شخصیات پر اس دوران قاتلانہ حملے بھی ہوئے جن کے دوران موت انہیں نہایت قریب سے چھو کر گزر گئی۔ قاتلانہ حملے میں معجزانہ طور پر محفوظ رہنے والوں میں سابق صدر پرویز مشرف، سابق وزیراعظم شوکت عزیز، سابق وزیراعلیٰ بلوچستان جام محمد یوسف، شیخ رشید احمد، آفتاب احمد خان شیرپائو، حامد سعید کاظمی،امیر مقام، مولانا فضل الرحمن اور اے این پی رہنما اسفند یار ولی خان شامل ہیں۔ یہاں ان معروف پاکستانی شخصیات کی تفصیل دی جا رہی ہے جو 1947 میں قیام پاکستان کے بعد اب تک ناگہانی طور پر موت کا شکار ہوئیں۔ سال 1948 ء 26 نومبر کو لاہور کےمعروف صنعتکار رفیع بٹ وہاڑی کے قریب طیارہ تباہ ہونے کے حادثے میں لقمہ اجل بن گئے ان کی عمر صرف 39 سال تھی۔ پاکستان کی تاجر برادری کی تاریخ میں اتنے بڑے صنعتکار کی موت اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا۔ رفیع بٹ کے صاحبزادے امتیاز رفیع بٹ اس وقت صرف دو سال کے تھے جب ان کے والد کی موت ہوئی امتیاز رفیع بٹ پراپرٹی کی دنیا کا آج ایک جانا پہنچانا نام ہیں۔ رفیع بٹ نے صرف 24 سال کی عمر میں شمالی بھارت میں پہلا مسلم بنک قائم کیا ۔جب وہ 27 سال کے تھے تو سنٹرل ایکسچینج بنک کی بنیاد رکھی 34 سال کی عمر میں انہیں قائداعظم نے مسلم لیگ کی پلاننگ کمیٹی کا رکن مقرر کیا۔سال1949، 13دسمبر کو میجر جنرل افتخار خان طیارہ حادثے میں جاں بحق ہو گئے، جہاز لاہور سے کراچی پرواز کر رہا تھا کہ حادثے کا شکار ہو گیا۔ اس المناک حادثے میں میجر جنرل افتخار خان کے علاوہ بریگیڈیئر شیر خان اور 24 دیگر انسانی زندگیاں بھی ضائع ہو گئیں۔ جنرل افتخار کو جنرل ڈگلس گریسی کی ریٹائرمنٹ کے بعد پاک فوج کے پہلے کمانڈر انچیف کے طور پر نامزد کیا گیا تھا۔ سال1951، 16 اکتوبر کے دن ملک کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کو راولپنڈی میں قتل کر دیا گیا۔سال1958، 9مئی کو صوبہ سرحد کے سرکردہ سیاسی رہنما عبدالجبار خان المعروف ڈاکٹر خان کو لاہور میں ہلاک کر دیا گیا۔ وہ عبدالغفار خان (باچا خان) کے بھائی اور ولی خان کے چچا تھے۔ ڈاکٹر خان کو ان کے بیٹے سعداللہ خان کی جی او آر لاہور میں واقع رہائش گاہ پر محکمہ لینڈ ریونیو کے ایک کلرک عطاء محمد نے قتل کیا۔ ڈاکٹر خان اس گھر میں کرنل سید عابد حسین (والد معروف خاتون سیاسی رہنما عابدہ حسین)کے ساتھ1959 کے عام انتخابات کے حوالے سے بات چیت کیلئے ٹھہرے ہوئےتھے۔ سال 1972، 5 جنوری کو معروف رقاصہ اور پنجابی فلموں کی اداکارہ نگو کو ان کے سابق شوہر نے اس وقت جان سے مار ڈالا جب وہ اپنی والدہ کے گھر میں موجود تھیں۔نگو کو قتل کرنے والا خواجہ مظہر فلم پروڈیوسر بھی تھا۔ اسی سال8 جون کو جماعت اسلامی کے رہنما ڈاکٹر نذیر احمد کو ایک شخص نے ان کے کلینک میں گھس کر فائرنگ کرکے قتل کر دیا۔ ڈاکٹر نذیر نے سابق صدر پاکستان فاروق احمد لغاری کے والد محمد خان لغاری کو 1970 کے انتخابات میں ڈیرہ غازی خان سے قومی اسمبلی کی نشست پر ہرایا تھا۔ سال1973، 2 دسمبر کو پشتون رہنما عبدالصمد خان اچکزئی (والد محمود خان اچکزئی) کو کوئٹہ میں قتل کر دیا گیا۔ سال1974، 11 نومبر کو موجودہ عہد کے نامور وکیل احمد رضا خان قصوری کے والد نواب احمد خان کو اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار بھٹو کے کہنے پرقتل کر دیا گیا۔سال1975، 8 نومبر کو سابق گورنر خیبر پختونخوا حیات محمد خان شیر پائو پشاور یونیورسٹی میں بم دھماکے میں جاں بحق ہو گئے۔ وہ پاکستان پیپلزپارٹی کے بانیوں میں سے تھے۔ سال1979، 3 جولائی کو معروف گلوکار عالم لوہار کا لاہور میں سڑک کے ایک حادثے میں انتقال ہو گیا۔ سال1981، 25 ستمبر کو سابق وزیراعظم چودھری شجاعت حسین کے والد اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویزالہیٰ کے چچا چودھری ظہورالہیٰ کو لاہور میں قتل کر دیا گیا۔ سال 1983، 6 دسمبر کو ٹی وی اور فلم اداکارہ نجمہ محبوب لاہور میں ٹرین کے ایک حادثے میں جاں بحق ہو گئیں۔ حادثہ فلم کی شوٹنگ کے دوران پیش آیا۔فلم کے سین کے مطابق انہوں نے ریلوے لائن پرچلنے والے ایک بچے کو ٹرین سے بچانے کی کوشش کی اورخود تیز رفتار ٹرین کی زد میں آ کر جاں بحق ہو گئیں۔ سال 1984ء 21نومبر کو فلموں کےمعروف اداکار اسلم پرویز اور اقبال حسن کار حادثے میں جاں بحق ہو گئے۔ سال 1986ء 2جون کو معروف کامیڈین اور لاکھوں لوگوں کے چہرے پر مسکراہٹیں بکھیرنے والے اداکار رفیع خاور المعروف ننھا نے لاہور میں خودکشی کر لی ۔ایکشن فلموں میں سلطان راہی جیسے فنکار کی مقبولیت سے قبل 80ء کی دہائی مزاحیہ اداکاری کے عروج کا دور تھا ۔ان دنوں اداکار ننھا اورعلی اعجازکی ہنسا ہنساکر لوٹ پوٹ کر دینے والی اداکاری کا پورے ملک میں طوطی بولتا تھا ان دونوں فنکاروں نے 50ًًسے زائد فلموں میں اکٹھے یادگار کردار ادا کئے۔ سال 1988ء10اپریل کو ضیاء الحق کابینہ میں صنعت و پیداوار کے وفاقی وزیر کے عہدے پر فائز رہنے والے خاقان عباسی سانحہ اوجڑی کیمپ میں جاں بحق ہوگئے۔خاقا ن عباسی پاکستان مسلم لیگ (ن) کے موجودہ وفاقی وزیر شاہدخاقان عباسی کے والد تھے۔سال 1991ء 3اکتوبر کو سابق مارشل لاء ایڈمنسٹر یٹر خیبرپختونخوا ،سابق گورنر و وزیراعلیٰ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فضل حق کو پشاور میں ایک نامعلوم شخص نے قتل کر دیاتھا۔سال 1993ء یکم مئی کو متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما عظیم احمد طارق کو کراچی میں ہلاک کر دیا گیا۔اسی سال 29ستمبر کو پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ غلام حیدر وائیں کو میاں چنوں میں قتل کر دیا گیا ۔سال 1994ء 4ستمبر کو ہفت روزہ’’تکبیر ‘‘کے مدیر محمد صلاح الدین کو ان کے دفتر کے باہر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ۔اسی سال 26دسمبر کو نامور شاعرہ پروین شاکر کو اسلام آباد میں زیرو پوائنٹ کے نزدیک ایک کار حادثے میں جاں بحق ہوگئیں۔سال 1995ء کو فلم انڈسٹری کی سب سے خوبصورت اداکارہ کو مبینہ طور پر ان کے شوہر نے فائرنگ کرکے قتل کر دیا ۔اسی سال ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین کے بڑےبھائی 66سالہ ناصر حسین اور الطاف حسین کے بھتیجے عارف حسین کو کراچی میں انتہائی بہیمانہ انداز میں قتل کر دیا گیا باپ بیٹے کو 9دسمبر 1995 ء کو موت کے گھاٹ اتارا گیا جبکہ انکی لاشیں کراچی کے علاقے گڈاپ ٹائون سے برآمد ہوئیں۔سال1996ء 9 جنوری کو پاکستان فلم انڈسٹری کے لیجنڈ ہیروسلطان راہی جنکے شاندار کیریئر میں 700پنجابی اور اردو فلمیں شامل ہیں کو اس وقت گوجرانوالہ میں قتل کر دیا گیاجب وہ اسلام آباد سے لاہور آ رہے تھے ۔ اسی سال 15جنوری کو معروف شاعر محسن نقوی کو لاہور میں قتل کر دیا گیا ۔10جون 1996ء کو سندھ ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج نظام احمد اور ان کےبیٹے ندیم احمد کو کراچی میں ان کے گھر کے سامنے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا جسٹس نظام احمد اور ان کے بیٹے کا قتل ایک متنازعہ پلاٹ کے جھگڑے کا نتیجہ تھا۔20ستمبر 1996ء میں سابق وزیر اعظم ذوالفقار بھٹو کے بڑے بیٹے میر مرتضیٰ بھٹو کو کراچی میں موت کے گھاٹ اتاردیاگیا اورانکے ساتھ ان کے 6ساتھیوں کو بھی قتل کر دیاگیا۔قتل ہونیوالوں میں پی پی شہید گروپ کے صوبائی سربراہ عاشق جتوئی بھی شامل تھے۔عاشق جتوئی سا بق نگران وزیر اعظم غلام مصفیٰ جتوئی کے بہنوئی تھے۔اپنی نیلی آنکھوں او ر دلکش ادائوں کی وجہ سے لاکھوں دلوں پر راج کرنیوالی اداکارہ نینا کو بھی 1996ءمیں لاہور میں قتل کر دیا گیا۔سال 1997ء میں سابق مینیجنگ ڈائریکٹر کے ای ایس سی ملک شاہد حامد کو 5جولائی کو سزائے موت پانیوالے ٹارگٹ کلر صولت مرزا نے قتل کر دیا۔ ملک شاہد حامد کے محافظ اور ان کے ڈرائیور کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیا گیاتھا۔سال 1998ء17اکتوبر کو سابق گورنر سندھ حکیم سعید کو کراچی میں قتل کر دیا گیا۔اسی سال 25اگست کو معروف اداکارہ ماروی کو کراچی میں طارق روڈ پرموت کے گھاٹ اتار دیاگیا ۔سال 1999ء 15اپریل کو پشتو اداکارہ شمشاد عرف یاسیمین خان کو ان کے شوہر نے قتل کر دیا تھا۔انہیں فلم’’دلہن ایک رات کی ‘‘ سے ملک گیر شہرت ملی تھی ۔سال 2001ء 26جولائی کو پی ایس او کے ایم ڈی شوکت رضا مرزا کو کراچی کے علاقے کلفٹن میں نامعلوم نقاب پوش افراد نے گولی مار کر ہلاک کر دیا ۔اسی سال28 جولائی کو سابق وزیر مملکت برائے امور خارجہ کو قتل کر دیا گیا۔ اسی سال21دسمبر کو سابق گورنر سندھ اور سابق وزیر داخلہ سندھ لیفٹیننٹ جنرل (ر) معین الدین حیدر کے بیٹے احتشام الدین حیدر کو کراچی کے علاقے سولجر بازار میں قتل کر دیاگیا۔ سال 2002، 7مئی کو معروف عالم دین ڈاکٹر غلام مرتضیٰ ملک کو لاہور میں قتل کر دیا گیا۔ اسی سال 20 فروری کو پاک فضائیہ کے سربراہ مصحف علی میر، ان کی اہلیہ اور 16دیگر افراد کوہاٹ کے نزدیک طیارہ حادثہ میں جاں بحق ہو گئے۔ ایئرچیف مصحف میر کی اہلیہ بلقیس مصحف علی میر، میجر جنرل (ر) حسین مہدی کی ہمشیرہ تھیں جو اس وقت ڈی جی رینجرز پنجاب تھے۔ اسی سال22 فروری کو سٹیج کے معروف اداکار غیاث الدین المعروف شوکی خان قصور کے نزدیک سڑک کے حادثے میں جاں بحق ہو گئے تھے۔ اسی سال25 جولائی کو تین سول جج صغیر انور، شاہد رانجھا اور آصف ممتاز چیمہ کو ڈسٹرکٹ جیل سیالکوٹ کے نزدیک قتل کر دیا گیا، تینوں جج ماہانہ عدالتی معائنے کیلئے آئے تھے۔ سال2004، 30 مئی کو جامعہ بنوریہ کراچی کے سربراہ مفتی نظام الدین شامزئی کو مسلح افراد نے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ سال2006، یکم جون کو انسداد دہشت گردی عدالت گلگت کے جج محمد جمشید جدون کو دن دیہاڑے قتل کر دیاگیا۔ اسی سال14 جولائی کو معروف عالم دین علامہ حسن ترابی اور ان کے 12 سالہ بھتیجے کو کراچی میں ان کی رہائش گاہ کے نزدیک خودکش حملے میں ہلاک کر دیا گیا۔ اسی سال28اگست کو بلوچ قوم پرست رہنما اور سابق وزیراعلیٰ بلوچستان نواب اکبر بگٹی اپنے37ساتھیوں سمیت ڈیرہ بگٹی میں ایک فوجی آپریشن میں جان کی بازی ہار گئے۔ 2007، 27جنوری کو 13افراد جن میں پشاور پولیس کے سربراہ ملک سعد بھی شامل تھے، مسجد کے قریب خودکش حملے میں مارے گئے تھے۔ اسی سال17فروری کو کوئٹہ میں ایک خودکش دھماکے میں جج وحید درانی سمیت15 افراد لقمہ اجل بن گئے۔ 20فروری 2007میں صوبائی وزیر برائے سماجی بہبود ظل ہما عثمان کو گوجرانوالہ میں قتل کر دیا گیا۔ اسی سال13 مئی کو سپریم کورٹ کے سینئر عہدیدار سید حماد رضا کو اسلام آباد میں ان کے گھر کے قریب موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ حماد رضا اس وقت کے چیف جسٹس سپریم کورٹ افتخار چودھری کے قریبی ساتھیوں میں شمار ہوتے تھے۔ اسی سال27جولائی بلوچستان حکومت کے ترجمان رازق بگٹی کو کوئٹہ میں قتل کر دیا گیا۔ اسی سال15ستمبر کو نامعلوم افراد نے سابق رکن اسمبلی مولانا حسن جان کو پشاور میں قتل کر دیا۔ مولانا حسن جان نے خودکش حملوں کے خلاف فتویٰ جاری کیا تھا اور اسامہ بن لادن کو افغانستان سے نکالنے کے لئے وہ 2001میں اس بات پر ملا عمر کو آمادہ کرنے کے لئے افغانستان بھی گئےتھے۔ ان کا موقف تھا کہ اسامہ بن لادن کو افغانستان سے نکال کر امریکہ کو حملے سے باز رکھا جا سکتا ہے۔27دسمبر 2007ء کو وزیراعظم بینظیر بھٹو کو لیاقت باغ راولپنڈی میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ اسی سال 28دسمبر کو پاکستان مسلم لیگ ق کے سابق وزیر اسفندیارعامر زیب جو والی سوات کے پوتے تھے، سوات میں سڑک کنارے بم دھماکے میں ہلا ک ہو گئے تھے۔ سال 2008ء 7فروری کو میجر جنرل جاوید سلطان وانا کوہاٹ آتے ہوئے جہاز حادثے میں جاں بحق ہو گئے۔ اس حادثے میں ا ن کے سا تھ سات دیگر افراد بھی جان سے چلے گئے تھے۔ اسی سال 25 فروری کو پا ک فوج کے سینئر ترین معا لج لیفٹیننٹ جنرل مشتاق بیگ راولپنڈی میں خودکش حملے میں اس وقت جاں بحق ہو گئے جب ان کی گاڑی کو نشانہ بنایا گیا۔ نا ئن الیون حملوں کے بعد پاکستان میں کسی بھی ا علیٰ ترین منصب پر فائز عہدیدار کی یہ پہلی ہلاکت تھی۔ اسی سال 25اگست کو اے ا ین پی کے قانون ساز وقار احمد کے بھائی ا ور ان کے خاندان کے کچھ دیگر افراد سوات میں ا ن کے گھر پر را کٹ حملے میں مارے گئے تھے۔ اسی سال 19نومبر کو میجر جنرل (ر) امیر فیصل علوی کو اسلام ا ٓباد میں قتل کر دیا گیا۔ پا ک فوج کی 2004ء میں وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف ابتدائی کارروائی کے دورا ن جنرل علوی سپیشل سروس گروپ کی کمانڈ کر چکے تھے۔ سال 2009ء 26جنوری کو ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ حسین علی یوسفی کو کوئٹہ میں قتل کر دیا گیا۔ اسی سال 11فروری کو اے این پی رہنما عالم زیب خان کو پشاور میں ایک ریموٹ کنٹرول دھما کے میں ہلا ک کر دیا گیا۔ ایک سال سے بھی کم عرصے میں ا ے ا ین پی کے رہنمائوں پر اس نوعیت کا یہ چھٹا حملہ تھا۔ اسی سال 12 جون کو عالم دین سرفراز احمد نعیمی مدرسہ جامعہ نعیمیہ کے باہر خودکش حملے میں جاں بحق ہو گئے۔ اسی سال 25 اکتوبر کو بلوچستا ن کے وزیر تعلیم شفیق ا حمد خان کو کوئٹہ میں ان کی رہا ئش گا ہ کے باہر قتل کر دیا گیا۔ وہ پا کستا ن پیپلز پارٹی کے رکن تھے۔ یکم دسمبر کو اے ا ین پی کے رہنما شمشیر علی خان کو سوات میں ہلاک کردیا گیا۔ ا سی سال 4 دسمبر کو راولپنڈی کے علاقے پریڈلین کی ایک مسجد پر دہشت گردوں کے حملے میں میجر جنرل بلال عمر جاں بحق ہو گئے۔ جنرل عمر ا س وقت پا ک فوج کی آرمڈ کور کے ڈی جی تھے۔ سال 2010ء 3جنوری کو سابق صوبائی وزیر تعلیم صوبہ سرحد غنی الرحمٰن سڑک کنارے بم حملے میں جان کی بازی ہار گئے۔ اسی سال 14جولائی کو بلوچ قوم پرست رہنما اور سابق سینیٹر حبیب جالب کو کوئٹہ میں قتل کر دیا گیا۔ اسی سال 24جولائی کو وزیر اطلاعات خیبرپختونخوا میاں افتخار کے بیٹے میاں راشد کو نوشہر ہ کے نزدیک قتل کر دیا گیا۔ یکم اگست 2010ء کو ایم کیو ا یم کے رکن اسمبلی رضا حیدر کو کراچی میں چھ نامعلوم مسلح افراد نے فا ئرنگ کرکے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ 4اگست 2010ء کو کمانڈر ایف سی صفات غیور پشاور میں خودکش حملے میں جان سے ہا تھ دھو بیٹھے۔ 10ستمبر 2010ء بلوچستا ن کے وزیر خزانہ عا صم علی کرد کے کوئٹہ میں گھر کو کار بم کے ذریعے نشانہ بنایا۔ سال2011ء 4جنوری کو گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو اسلام آباد میں ان کے محافظ نے گولیاں مار کر موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔13جنوری 2011ء کو جیو ٹی وی کے کراچی کے رپورٹر ولی خان بابر کو قتل کر دیا گیا۔یکم جون 2011ء کو ڈی جی پنجاب رینجرز میجر جنرل محمد نواز لیہ کے نزدیک ہیلی کاپٹر حادثے میں جاں بحق ہو گئے۔جنرل نوا ز کا بیٹا آصف نواز اور تین دیگر افراد بھی اس حادثے میں لقمہ اجل بن گئےتھے۔ 29دسمبر کو اسی سال پولیس سرجن سید باقر شاہ کو کوئٹہ میں قتل کو قتل کر دیا گیا۔سال 2012ء یکم جنوری کو شیعہ رہنما عسکری رضا ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہو ئے۔اسی سال 28مئی کو ایس پی شاہ محمد کو کراچی میں قتل کر دیا گیا ۔وہ 1990ء کی دہائی میں کراچی میں ایک سیاسی جماعت کے خلاف آپریشن کا حصہ بھی رہے تھے۔جب وہ ایس ایچ او تھےاس وقت انہیں ایم کیو ایم کے رہنما الطاف حسین کے بھائی اور بھتیجے کے قتل کے مقدمے میں بھی نامزد کیاگیا تھا۔جون 2012ء میں پشتو گلوکارہ غزالہ جاوید کو انکے والد ًسمیت پشاور میں قتل کر دیا گیا تھا۔30اگست 2012ء میں کوئٹہ کے جج ذوالفقار نقوی کو ان کے ڈرائیور اور محافظ کو گولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔اسی سال ایس پی انوسٹی گیشن کوئٹہ جمیل کاکڑ کو قتل کر دیا گیا تھا ۔15اکتوبر 2012ءمیں پشاور کوہاٹ روڈ پولیس چوکی پر حملے کے نتیجے میں ایس پی خورشید خان جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔اسی سال 7نومبر کو ایس پی ہلال حیدر خان پشاور میں ایک خودکش حملے میں جان گنوا بیٹھے۔22دسمبر 2012ء میں سینئر وزیر کے پی کے اور اے این پی کے مرکزی رہنما بشیر بلور پشاور میں خودکش حملے میں جاں بحق ہو گئے تھے۔قبل ازیں 11مارچ 2009ء میں وہ ایک قاتلانہ حملے میں معجرانہ طور پر محفوط رہے۔16 جنوری 2012ء میں ایم کیو ایم کے ممبر سندھ اسمبلی سید منظر امام کو 6افراد نے گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا۔اسی سال 13مارچ کو پاکستان میں سرکردہ سماجی کارکن پروین رحمان کو کراچی میں فائرنگ کرکے موت کے گھات اتار دیا گیا تھا۔18مئی 2012ء میں پاکستان تحریک انصاف کی سینئر نائب صدر زہرہ شاہد کو ان کے گھر کے باہر گولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا ۔ 21جون 2012ء میں ایم کیو ایم کے رہنما ساجد قریشی اور ان کے بیٹے کو کراچی میں نشانہ بنایا گیا۔6اگست 2012ء میں ایس پی ہلال احمد کو گلگت بلتستان میں چلاس ٹائون کے علاقہ میں قتل کر دیا گیا۔اسی سال 8اگست کو ڈی آئی جی آپریشنز فیاض کو کوئٹہ میں قتل کر دیا گیا ۔اسی سال 16ستمبر میجر جنرل ثناء اللہ اپر دیر میں سڑک کنارے بم پھٹنے سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔سال 2014 ء 9جنوری کو ایس ایًس پی کراچی کرائم انوسٹی گیشن ڈیپارٹمنٹ چودھری اسلم دوران ڈیوٹی جاں بحق ہو گئے۔اسی سال فروری میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج جیکب آباد خالد حسین شاہانی کے بیٹے عاقب شاہانی کو قتل کر دیا گیا ۔27فروری 2014ء میں معروف عالم دین تقی ہادی نقوی کو کراچی میں موت کےگھاٹ اتاردیا گیا تھا۔مارچ 2014 ء میں ایڈیشنل سیشن جج رفاقت اعوان درجنوں افراد کے ہمراہ اسلام آباد میں عدالت پر حملے کے دوران جاں بحق ہو گئےتھے۔ اسی سال جون میں نامعلوم مسلح افراد کی فائرنگ کے نتیجے میں ماحولیاتی ٹربیونل کے جج سخی سلطان جاں بحق ہو گئے تھے ۔8ستمبر 2014ء میں سابق سینٹر علامہ عباس کمیلی کے بیٹےعلی اکبر کمیلی کو کراچی میں قتل کر دیا گیاتھا ۔10ستمبر 2014ء کو معروف عالم دین مولانا مسعود بیگ کو کراچی میں موت کے گھاٹ اتار دیاگیا تھا۔18 ستمبر2014کو کراچی یونیورسٹی کے استاد ڈاکٹر شکیل اوج کو ہلاک کر دیا گیا تھا۔ سال 2015 ،24 اپریل کو معروف سماجی کارکن سبین محمود کو کراچی میں قتل کر دیا گیا تھا۔ اسی سال5اگست کو نامعلوم افراد نے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج طاہر خان نیازی کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔24نومبر2015پاکستان ایئر فورس کی فلائنگ آفیسر مریم مختیار جنہیں پہلی خاتون پائلٹ کا اعزاز حاصل ہے ایک تربیتی پرواز کے دوران میانوالی کے نزدیک کندیاں کے علاقے میں طیارہ کریش ہونے کے نتیجے میں جاں بحق ہو گئیں۔ اسی سال دسمبر میں ماڈل و سٹیج کی رقاصہ سنگم رانا کی لاش لاہور میں چھت والے پنکھے کے ساتھ لٹکتی ہوئی ملی تھی۔