• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’’ہمیں یہ قوت حاصل ہونی چاہئے کہ جب چاہیں مطلوبہ ملک میں انتشار وبدامنی پھیلاسکیں۔ ان ممالک کے تمام معاہدوں اور مذاکروں میں ہمارا دخل ہونا ضروری ہے۔ امداد اور قرضوں کے ذریعے حکومتوں اور اہم وزارتوں میں دخل اندازی کے مواقع حاصل ہوتے ہیں۔ ہمیں تیسری دنیا کے ان ممالک کو مجبور کرنا چاہئے کہ وہ ان منصوبوں کی حمایت کریں جنہیں ہم نے تیار کیا ہے۔ اس مقصد کی تکمیل میں ہم پریس کو استعمال کریں گے۔‘‘ یہ الفاظ ’’پروٹوکولز‘‘ کی دستاویز نمبر 7 کے ہیں۔ پس منظر کے طورپر یہ بات یاد رکھیں آج سے تقریباً تین سو سال پہلے چوٹی کے یہودی دانائوں نے ساری دنیا پر حکومت کرنے کیلئے ’’پروٹوکولز‘‘ کے نام سے ایک خفیہ منصوبہ تیار کیا تھا۔ ان دنوں دنیا میں یورپی عیسائی حکومتوں کا بول بالا تھا، چنانچہ اس کا فوری مقصد ان عیسائی حکومتوں کی تباہی وبربادی تھا۔ جب یہ مقصد حاصل ہوچکا۔ برطانیہ، فرانس، جرمنی، روس اور امریکہ کسی بھی ملک میں عیسائیت کی کوئی قدروقیمت نہیں رہی تو پھر اس کا رخ اسلامی دنیا کی طرف ہوگیا۔ یہودی دستاویز کی روشنی میں عالم اسلام کے حالات دیکھے جائیں تو بہت سی باتیں فوراً سمجھ میں آجائیں گی۔ مسلم ممالک کو غیرملکی قرضوں میں کیوں جکڑا گیا؟ لسانی، علاقائی، مذہبی، فرقہ ورانہ تعصبات کو کیوں ہوا دی جاتی ہے؟ محب وطن ودین حکمرانوں کو عبرت کا نشان اور بدعنوانی میں ملوث حکمرانوں کی پشت پناہی کیوں کی جاتی ہے؟ اب آجائیں تازہ حالات کی طرف! جرمنی کے شہر برلن میں ایک شخص نے ٹرک چڑھا کر 13افراد کو مارڈالا، ترکی میں روسی سفیر قتل کردیا گیا، سوئٹزر لینڈمیں مسجد پر دھاوابول دیا گیا ۔‘‘ یہ ایک ہی دن میں دنیا کے مختلف حصوں میں پیش آنے والے دلخراش واقعات ہیں۔ ان کے اسباب و عوامل مختلف ہوسکتے،لیکن دراصل یہ واقعات موجودہ عالمی منظر نامے میں عمل اور رد عمل کے اس خونی کھیل کا شاخسانہ معلوم ہوتے ہیں جو اس وقت عالمی طاقتیں کھیل رہی ہیں۔ ان کو اس سے کوئی غرض نہیں ہے کہ اس میں کون مر رہا ہے اور کون جی رہا ہے؟ ان کو بس اپنے مفادات ہی کی تکمیل کرنا ہے۔ قارئین! دنیا مسلمانوں سے ہی کیوں خائف ہے؟ اس بات کو سمجھنے کیلئے ہمیں چند صدیاں پیچھے جانا ہوگا جب دنیا عسکریت کی ایک نئی قسم سے متعارف ہوئی۔ جنگ دو قسم کی ہوتی ہے :ایک فکری جنگ دوسری عسکری۔ ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ فکری کا تعلق افکار ونظریات سے ہوتا ہے جبکہ عسکری جنگ ہمیشہ ہتھیاروں سے لڑی جاتی ہے۔ فکری جنگ، عسکری کے مقابلے میں کہیں زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔ نظریاتی جنگ میں انسانی ذہن کو تابع بنایا جاتا ہے۔ جب ذہن غلام بن جاتا ہے تو پھر انسان بے حس ہوجاتا ہے اور جب انسان بے حس ہوجائے تو جو کچھ بھی چھن جائے اس کی پروا نہیں کرتا۔ عسکری جنگ میں صرف مادی نقصان ہوتا ہے جبکہ فکری جنگ کی صورت میں مذہبی، نظریاتی اور مادّی ہر طرح کا نقصان اُٹھانا پڑتا ہے۔ اس وقت عالم اسلام اور مسلمانوں کے خلاف دونوں ہی جنگیں عروج پر ہیں۔ عالم اسلام پر مسلط کردہ ہتھیاروں کی جنگیں تو پوری دنیا کو نظر آتی ہیں لیکن فکری اور نظریاتی جنگیں کم ہی منظرعام پر آتی ہیں۔ جب دشمنانِ اسلام مہلک ہتھیاروں اور جدید ترین اسلحے سے مسلمانوں کو ختم نہ کرسکے تو پھر منظم منصوبہ بندی کے تحت اپنی زیادہ توجہ فکری جنگوں پر مرکوز کردی۔ جب یہ سمجھ لیا گیا کہ مسلمانوں کو ہتھیاروں سے شکست دینا ناممکن ہے تو پھر خفیہ جنگوں کا طریقۂ کار اختیار کیا گیا تاکہ مسلمانوں میں اپنے مذہب سے وابستگی، وارفتگی، عقائد ونظریات سے گہرا تعلق نہ رہے، ان کو ذہنی طور پر مغلوب کردیا جائے۔ فرانس کے بادشاہ ’’لویس نہم‘‘ نے سب سے پہلے یہ خیال پیش کیا تھا عسکری جنگ سے ہٹ کر کوئی اور طریقہ ہونا چاہئے۔ پھر اس پر تھنک ٹینکس کو بٹھایا گیا، میٹنگیں طلب کی گئیں جن میں یہ بات رکھی گئی کہ مسلمانوں کے ایمان پر کس طرح کاری ضرب لگائی جائے؟ عسکری جنگوں کی تاریخ میں دیکھا جاسکتا ہے کہ استعماری، سامراجی اور ہر زمانے کی طاغوتی قوتوں نے عالم اسلام کے کن ممالک پر کس وقت شب خون مارا؟اس کا آغاز1515ء سے ہوا،اور 1920ء تک ان کاکام مکمل ہوچکا تھا صرف ایک ملک ترکی رہ گیا تھا جس کو غیرمنصفانہ معاہدوں کے ذریعے ختم کردیا گیا۔ جب استعمار کی کارروائی تکمیل کو پہنچ گئی تو دوسرا دور شروع ہوگیا۔ جس کو 1930ء کے بعد کا دور کہا جاسکتا ہے۔ اس سے پہلے مسلمانوں پر جو ظلم وستم ہوا اس کی مثالیں کم ہیں لیکن 1930ء کے بعد معاملہ مزید بڑھ گیا اور مسلمانوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح استعمال کیا گیا اور گاجر مولی کی طرح کاٹا گیا۔ اس صورتِ حال میں مسلمان بالکل بے بس نظر آرہے تھے اور سیاسی سطح پر کوئی قوتِ مدافعت نظر نہیں آرہی تھی۔ 1930ء سے 1939ء تک یہ تنازع بہت شدت اختیار کرگیا۔ 1939ء میں جنگ عظیم دو چھڑگئی۔ اس جنگ کے بعد یہ ممالک مجبور ہوگئے کہ اپنے خرچ کم کریں۔ 1939ء کے بعد مختلف ممالک میں مسلمانوں کی آزادی کی تحریکیں چلنا شروع ہوئیں اور مختلف ممالک آزاد ہوئے لیکن چونکہ ساری عالمی طاقت ان استعماری طاقتوں اور ملکوں کے ہاتھ میں تھی لہٰذا ان ممالک نے مسلم ممالک کی تقسیم اپنے مفادات کے مطابق کی۔ اس کے علاوہ آزاد ہونے والے مسلم ممالک کی سیاسی پارٹیوں میں اپنے تربیت یافتہ ایجنٹ بے تحاشا داخل کردیئے۔ جب اسلامی خلافت ختم کردی گئی تو اس کا متبادل اقوامِ متحدہ کی شکل میں سامنے آیا۔ اس کی دو وجوہ تھیں ۔ایک مسلمانوں کو الگ پلیٹ فارم بنانے سے روکنا۔ دوسرا عالمِ کفر کا عالمِ اسلام کے خلاف متحد ہونا۔ یو این او کے بعد قومیں آپس میں ایک دفعہ پھر مل گئیں اور یہ طے کیا کہ ہم آپس میں نہ لڑیں اور مل بانٹ کر دنیا کو لوٹیں۔ اس وقت پوری دنیا میں تسلیم شدہ 245 ممالک ہیں جس میں 58 اسلامی ملک ہیں۔ عالمی نقشے پر نظر دوڑائیں تو اس وقت اسلامی ممالک ہی خون آشامی کا شکار نظر آتے ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ تو مسلسل ظلم وجارحیت کا شکار ہے۔ اس کی واضح وجہ یہی سمجھ میں آتی ہے کہ یہ علاقہ اپنے دامن میں بے پناہ معدنیات سمیٹے ہوئے ہیں، گویا یہ سونے کی چڑیا ہیں۔ اس پر قبضہ برقرار رکھنے کیلئے ہی استعماری طاقتوں نے یہاں شورشیں برپا کررکھی ہیں۔ ان کو خانہ جنگی اور فرقہ واریت کے ناسور میں مبتلا کررکھا ہے۔اگر عالمی طاقتیں چاہتی ہیں کہ دنیا میں امن کے پھول کھلیں تو پھر انہیں اپنے عمل وکردار کا جائزہ لینا ہوگا، اپنی خون آشام پالیسیوں پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔ دوسری طرف اگر عالم اسلام اپنی بقا چاہتا ہے تو پھر اسے بھی متحد ہونا ہوگا، اپنی انا کے خول سے باہر نکلنا ہوگا۔ بصورت دیگرتیسری عالمی جنگ کی دستک سنائی دے رہی ہے۔

.
تازہ ترین