روزنامہ جنگ 17 دسمبر 2015 ء کی اشاعت میں کالم نگار محترمہ ڈاکٹر صغریٰ صدف کے اورنج لائن ٹرین اور بے بس عوام کے عنوان سے لکھے گئے کالم میں حاکم وقت کی توصیف توموجود ہے ، بے بس عوام کا ذکر نہیں ۔ کالم کے عنوان سے یہی لگا کہ اورنج ٹرین کے ساتھ جھنگ، سرگودھا سمیت وسیب کے پسماندہ بے بس عوام کی مشکلات کا ذکر بھی آئے گا۔ مگر ایسا نہ ہوا، جس سے افسوس ہوا اور میں یہ چند سطور لکھنے پر مجبور ہوا۔
سب سے پہلے میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ترقی کی مخالفت نہیں ہونی چاہئے لیکن وہ ترقی حقیقی ترقی ہو اور اس کا زیادہ سے زیادہ لوگوں اور زیادہ سے زیادہ علاقوں کو فائدہ ہو ۔ مزید یہ کہ ترقیاتی منصوبے قومی معیشت کیلئے خسارے کے بجائے فائدے کا باعث ہو ں ۔ یہ کیا بات ہوئی کہ ایک طرف نقصان سے چلنے والے تین درجن سے زائدقومی اداروں کی نجکاری کا اشتہار لگایا جائے اور دوسری طرف پہلے دن سے سبسڈی پر چلنے والے اورنج ٹرین جیسے بھاری منصوبے پر کام شروع ہو، ایسے میں تو پھر سوال اُٹھے گا کہ ’’ قومی معیشت پر بوجھ کا نام دے کر قومی اداروں کی نجکاری غلط ہے یا اورنج ٹرین ؟
وسیب کی ایک سو ایک ضرورتیں گنوائی جا سکتی ہیں جو کہ لاہور کی اورنج ٹرین سے پہلے ضروری ہیں ۔ اس سلسلے میں زیادہ نہیں صرف ایک منصوبے کا ذکر کرتا ہوں ۔ نصف صدی سے زائد کا قصہ ہے ، پنجاب کے گورنر سردار عبدالرب نشتر نے چاچڑاں ، کوٹ مٹھن کے درمیان دریائے سندھ پر پل کی منظوری دی ۔ اسے نشتر گھاٹ کا نام دیا گیا ۔ ساٹھ سال کے عرصے میں ہر حکومت نے نشتر گھاٹ بنانے کے لولی پاپ دیئے ، مگر بننے کی نوبت نہ آئی۔ کشتیوں کے ڈوبنے سے بہت سی اموات بھی ہوئیں ، سینکڑوں احتجاجی مظاہرے اور جلوس نکالے گئے ۔ بڑی مشکلوں کے بعد خدا خدا کر کے سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے پختہ پل کی منظوری دی اور منصوبے کی تکمیل کیلئے ٹھیکہ دیکر پانچ ارب کے فنڈ ایف ڈبلیو او کو دیئے ۔ 80 فیصد کام مکمل ہوا۔ 2012-13ء کے مالی سال میں پل کو قابل استعمال ہونا تھا ۔ وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کی سبکدوشی کے بعد فنڈز بند ہیں ۔ پل کی تکمیل کیلئے اب محض ایک ، ڈیڑھ ارب روپے درکار ہیں ، وہ رقم نہیں دی جا رہی۔ اب بتائیے اورنج میٹرو ٹرین ضروری ہے یا نشتر گھاٹ ۔ خصوصاً ان حالات میں جب کہ نشتر گھاٹ ہر ماہ کروڑوں کے ٹول ٹیکس کی آمدنی دے گا اور اورنج ٹرین ہر ماہ خزانے سے کروڑوں کی سبسڈی لے گی۔
محترمہ صغریٰ صدف نے لکھا کہ ’’ گزشتہ دنوں سینئر صحافیوں کو اورنج لائن ٹرین کے حوالے سے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ ایک کھرب 65 ارب کے اس منصوبے کے ہر پہلو کی بھرپور چھان بین کی گئی اور باقاعدہ ریسرچ کے ذریعے اس کی خامیوںکی نشاندہی کی گئی ، تب اس کے آغاز کی طرف عملی قدم اٹھایا گیا ۔ ‘‘
یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ ایک سو65ارب کے بھاری بھرکم منصوبے پر ہر پہلو سے کس طرح چھان بین کی گئی ؟ سوال یہ ہے کہ میٹرو ٹرین کی زد میں جو تاریخی عمارتیں آ رہی ہیں ، ان کے نقصان کا ازالہ کس طرح ممکن ہے؟ دوسرا یہ کہ صوبے کے پسماندہ علاقوں کو نظر انداز کر کے لاہور میں بھاری رقوم خرچ ہو نگی تو دلوں میں فرق کیسے نہیں آئے گا؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ سرائیکی وسیب میں تعلیم، صحت اور روزگار کے مسائل نے بھیانک شکل اختیار کر لی ہے۔ چولستان میں آج بھی لوگ پیاس سے مر رہے ہیں ، وسیب کے 80 فیصد لوگوں کے پاس پینے کے صاف پانی کی سہولت میسر نہیں ۔غربت اور بے روزگاری سے وسیب میں خودکشیوں کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ کیا ان حالات میں قریباً دو سو ارب کا منصوبہ ضروری ہے یا سرائیکی وسیب میں تعلیم، صحت اور روزگار کے مسئلے؟
محترمہ صغریٰ صدف نے لکھا کہ ’’ لاہور شہر پاکستان کا دل ہے، دل جو ریاست کےوجود کا حاکم ہوتا ہے، بڑے سالوں سے یہ دل غلاظت ، شور اور درد کی بیماریوں کے ہاتھوں پژ مردہ ہو چلا تھا ، بھلا ہو وزیراعلیٰ کا جنہوں نے اس کی صحتیابی ، خوشحالی اور تشخیص کیلئے ایسے ڈاکٹروں کا انتخاب کیا جو خود بھی زندگی کے جمال سے محبت کرتے ہیں‘‘۔
دل کی بیماری کی صورت میں سمجھدار ڈاکٹر ہمیشہ غذا میں احتیاط کا مشورہ دیتے ہیں ۔ سادہ اورکم خوراک کا مشورہ دیا جاتا ہے ۔ ایک طرف وسیب کے لوگ خوراک کی کمی کا شکار ہیں اور بھوک کے ہاتھوں لقمہ اجل بنتے جا رہے ہیں ، دوسری طرف پاکستان کے ’’ دل ‘‘ لاہور کو کثرت خوراک سے بیمار کیا جا رہا ہے۔ میں وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ نہ تو کسی کو لاہور کی ترقی پر اعتراض ہے اور نہ ہی لاہور سے کوئی حسد کرنا چاہتا ہے لیکن پاکستان کے دل کوجو بھی ترقی کرنی چاہئے ، اپنے وسائل سے پسماندہ علاقوں کے وسائل سے نہیں۔
محترمہ صغریٰ صدف نے اپنے کالم میں لکھا کہ ’’ آ خر لینڈ کروز والوں کو یہ کیوں قبول نہیں کہ عام آدمی بھی ایئر کنڈیشنڈ بسوں اور ٹرینوں میں بیٹھ کر سکون سے سفر کرے۔‘‘ محترمہ نے بہت اچھی بات کی کہ عام آدمی کو میٹرو، ایئر کنڈیشنڈ بسوں اور میٹرو اورنج ٹرین میں سفر کی سہولت ملنی چاہئے لیکن عام آدمی شہر میں نہیں میرے وسیب کے دیہات میں رہتے ہیں ۔ میرے وسیب کی اکثریت کو سڑک کی سہولت بھی نہیں ، مریض اسپتال پہنچنے سے پہلے اللہ کو پیارے ہو جاتے ہیں ۔ بہت سے لوگ ایسے ہیں جنہوں نے میٹرو تو کیا آج تک سڑک نہیں دیکھی ، وہ کارپٹ میٹل روڈ سے نا آشنا ہیں ۔ اگر 165ارب کی لاگت سے وسیب کے ’’ دیہات سے منڈی ‘‘ کی سڑکیں بنوا دی جائیں تو زرعی معیشت میں انقلاب آ جائے گا اور ملکی معیشت کو ایک ہزار ایک سو ارب کا فائدہ ہو گا ۔ کیا ہمارے حکمراں کبھی اس طرف توجہ دیں گے ؟