• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے۔ ایک نظریاتی، مذہبی، دینی ریاست ہوتی ہے جہاں برتر قانون قرآن وحدیث ہوتے ہیں۔ ایک اہم نکتہ یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ عیسائی، یہودی اور دیگر مذاہب والے اگر اپنی ریاستوں سے مذہب کو دیس نکالا دیتے ہیں، اس میں وہ حق بجانب کہلائے جاسکتے ہیں، کیونکہ ان کے پاس ان کی شریعت کا کوئی باوثوق مذہبی قانون نہیں ہے۔ ایک ریاست کو کس طرح چلایا جاتا ہے؟ ریاست کے خدوخال کیا ہوں؟ موسیٰ یا عیسیٰ علیہ السلام کی ایسی کوئی تعلیمات اس دنیا میں موجود نہیں جن کی بنیاد پر یہودی یا عیسائی دعویٰ کرسکیں، جبکہ اس کے مقابلے میں اسلام کے پاس پورا فلسفہ حیات ہے۔ہمارے سیکولر حضرات کا المیہ یہ ہے انہوں نے نہ تو اسلامی تعلیمات کا بغور مطالعہ کیا ہے اور نہ ہی اپنے سیاسی مفکرین کا۔ اسی صدی کے سب سے بڑے امریکی سیاسی فلسفی ’’جان رالز‘‘ اپنی آخری کتاب میں خلافتِ عثمانیہ کے دور اور معاشرے کو دنیا کے بہترین معاشرے کے طور پر پیش کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ اندلس سے بھاگنے والے ہزاروں یہودیوں کو خلافتِ عثمانیہ نے ہی پناہ دی اور آج بھی استنبول میں ان یہودیوں کے گھر موجود ہیں۔ مسلمانوں کے معاشرے میں غیرمسلموں کے ساتھ بہترین رواداری کا مظاہرہ کیا گیا۔ یہی بات نیویارک اور ٹائمز کے ایڈیٹر اور سابق صدر بش کی 5 رکنی کیبنٹ کے ممبر فرید زکریا نے اپنی کتاب ’’فیوچر آف فریڈم‘‘ میں تفصیل سے لکھی ہے۔ ہمارے لبرل اور سیکولرحضرات اگر اپنے ہی آبائو اجداد کی کتابوں کا گہرا اور تفصیلی مطالعہ کرلیں تو ان کی ذہنی اُلجھنیں دور ہوسکتی ہیں۔ اب آجائیں! قائداعظم کی طرف! یہ بات ہر اعتبار سے غلط ہے کہ قائداعظم سیکولر نظریات کے حامل تھے ۔ قائداعظم نے اپنے طور پر اسلامی نظام، سیرت نبوی اور قرآن حکیم کا گہرا مطالعہ کیا تھا۔ انہوں نے بارہا اس عزم کا اعادہ کیا کہ پاکستان کے آئینی ڈھانچہ اور نظام کی بنیاد اسلامی اصولوں پر رکھی جائے گی، حتیٰ کہ اسٹیٹ بینک کی افتتاحی تقریب میں اسلامی اصولوں کی بنیاد پر اقتصادی نظام تشکیل دینے کی آرزو کا اظہار کیا۔ قائداعظم پاکستان کو اسلامی جمہوری اور فلاحی ریاست بنانا چاہتے تھے۔ قائداعظم نے فروری 1948ء میں امریکی عوام کے نام براڈ کاسٹ میں پاکستان کو ’’پریمیئر اسلامک اسٹیٹ‘‘ قرار دیا تھا۔ 25؍ جنوری 1948ء کو سندھ بار ایسوسی ایشن میں خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے کہا: ’’یہ پریشانی اور ہیجان کیوں ہے کہ پاکستان کا آئندہ آئین اسلامی شریعت سے متصادم ہوگا؟ کچھ لوگ ایسے ہیں جو تہمتیں دھر کے فساد پھیلانے والے ہیں۔ پروپیگنڈا کررہے ہیں کہ ہم شریعت کے قانون کو اکھاڑ پھینکنا چاہتے ہیں۔ اسلامی اصولوں کا کوئی نعم البدل نہیں۔ یہ آج بھی اسی طرح نافذ العمل ہیں جس طرح 13 سو سال پہلے تھے۔‘‘ یہ ہے اس قائداعظم کا جواب ان سب سیکولر دانشوروں کو جو آج ان کی ذات میں کیڑے نکالنے کے لئے کبھی اسٹینلے والپرٹ اور کبھی ہیکڑ بولتھیو کی کتابوں کی ورق گردانی کرتے پھرتے ہیں۔سیکولر حضرات قائداعظم کو سیکولر ثابت کرنے کے غلط دعوے کرتے رہتے ہیں اور یہاں تک کہہ جاتے ہیں کہ قائداعظم نے کبھی پاکستان کو اسلامی مملکت بنانے کا اعلان نہیں کیا۔ ہمارے دانشور قیام پاکستان کے فورا بعد کے عبوری انتظامیہ میں غیر مسلم افراد کو وزارتیں دینے کا حوالہ دے کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ پاکستان کوایک سیکولر اسٹیٹ بنانا مقصود تھا، حالانکہ یہ محض ایک عبوری انتظام تھا، ابھی ملک کا دستور ہی نہیں بنا تھا،تقسیم کے وقت بڑے پیمانے پر ہندو مسلم فسادات روکنے کے لئے یہ خیر سگالی کا ایک اقدام تھا۔ اس وقت تو قائد اعظم نے آرمی چیف بھی انگریز فوج کے ایک جرنیل کو مقرر کیا تھا کیونکہ پاک فوج ابھی بنی ہی نہیں تھی۔ہمارے دانشور قوم کو آدھا سچ بتاتے ہیں، پورا سچ یہ ہے کہ جس انگریز جرنیل کو قائد نے آرمی چیف بنایا،اس نے قائد کے حکم پر کشمیر میں فوجیں داخل کرنے سے انکار کردیا تھا، جس کے باعث قائد کو قبائلیوں سے مدد مانگنا پڑی تھی،جس ہندو کو وزیر قانون بنایا،اس نے پاکستان چھوڑ کر بھارت کو ہی اپنا وطن بنا لیا،جس شخص کو قائد نے وزیر خارجہ بنایا،تاریخ کی بدقسمتی یہ رہی ہے اس نے قائد کا جنازہ نہ پڑھا۔کیا یہی اس بات کو ثابت کرنے کے لئے کافی نہیں کہ پاکستان ایک نظریے کے تحت وجود میں آیا تھا،اور یہ لوگ اس نظریے پر پورے نہیں اترتے تھے،اس لئے جلد ہی منظر سے ہٹ گئے۔ یہ کہہ دینا کہ پاکستان کو ایک نظریاتی ریاست قرار دینا ،اس کی ناکامی کی وجہ ہے،منطقی لحاظ سے درست نہیں ہے۔پاکستان میں اگر اسلام نافذ ہوتا اور اس کے بعد یہ ناکام ہوجاتا تو الزام نظریے کو دیا جاسکتا تھا۔پاکستان کا اصل مسئلہ ہی یہ ہے کہ یہ اسلام کے نام پر بنا مگر اس میں اسلام نافذ نہیں کیا گیا۔پاکستان کے ٹوٹنے کی وجہ اسلام نہیں بلکہ اسلام سے انحراف ہے۔ بعض انتہاپسندوں کی خونریز کارروائیوں سے اسلام کا کوئی تعلق نہیں۔ دینِ اسلام کی تعلیمات تو امن کا درس، محبت، رواداری، ایثار، ہمدردی اور مواخات ہیں۔ اسلامی تعلیمات میں سب سے زیادہ زور اتفاق و اتحاد پر دیا گیا ہے۔ آپس میں محبت، بھائی چارہ، ایمان، اتحاد اور یقین مسلمانوں کا موٹو ہے۔ اگر مشرقی پاکستان نظریے کی وجہ سے الگ نہیں ہوا، مشرقِ پاکستان کی علیحدگی کی اصل وجہ نسلی تعصب تھا۔ یاد رکھیں! پاکستان دو قومی نظریے ہی کی بنیاد پر بنا تھا، اس کی بقا دو قومی نظریہ ہی پر ہے۔

.
تازہ ترین