• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہرسال 16 دسمبر کوپاکستان کے دواہم سانحات کو یاد کرتے ہیں۔ ایک تو دسمبر 1971 ء کو مشرقی پاکستان کی علیحدگی، اور دوسرا دوسال سال قبل، 2014 ء میں دہشت گردوںکا آرمی پبلک اسکول پشاور پر حملہ۔یہ دونوں واقعات ہمیں یا ددلاتے ہیں کہ ہمیں ایسے سانحات سے سبق سیکھنا چاہئے تھا، لیکن حالیہ ماہ منظر ِعام پر آنے والی کوئٹہ کمیشن رپورٹ سے یہ حقیقت منکشف ہوئی کہ پی ایم ایل (ن) کی حکومت، یا ماضی کی حکومتیں، بوجوہ ایسا کرنے سے گریز کرتی رہی ہیں۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے یہ کمیشن 8 اگست کو کوئٹہ میں ہونے والے حملوں کی تحقیقات کیلئے آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت قائم کیا تھا۔ ان میں سے ایک حملہ سینڈمین اسپتال پر کیا گیا جس میں 75 افراد،زیادہ تر وکلا، ہلاک، جبکہ اتنے ہی زخمی ہوگئے تھے۔ اُس خود کش حملے میں انسانی حقوق، جمہوریت اور صوبائی خودمختاری کیلئے جدوجہد کرنے والی وکلا برادری سے تعلق رکھنے والے بلوچستان کے اہم ترین وکلا ہلاک ہوگئے تھے۔ چونکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا تعلق بلوچستان سے ہے، چنانچہ اُنہیں دہشت گردی کے اس واقعہ کی تحقیقات کیلئے بہتر انتخاب سمجھا گیا۔ ایک سو دس صفحات پر مشتمل کوئٹہ کمیشن رپورٹ کی اشاعت کی ٹائمنگ بہت اہم تھی کیونکہ دسمبر میں آرمی پبلک اسکول حملے، جس میں 132 بچوں سمیت 147 افراد ہلاک ہوگئے تھے، کی دوسری برسی تھی۔ اس کے بعد دہشت گردی اور انتہا پسندی سے نمٹنے کیلئے حکمران اور اپوزیشن جماعتیں اور عسکری قیادت بیس نکاتی نیشنل ایکشن پلان پر متفق ہوگئیں۔ جسٹس عیسیٰ کی سربراہی میں بننے والے کمیشن کی رپورٹ حکومت،خاص طور پر وفاقی وزیر ِ داخلہ چوہدری نثار علی خان کے خلاف الزامات کی ایک چارچ شیٹ ہے۔ چوہدری صاحب کا تو اس میں بطور خاص نام لے کر ذکر کیا گیا ہے۔وزیر ِاعظم نوازشریف کی حکومت کو اقتدار میں تین برس سے زیادہ کا عرصہ ہوچکا ہے، لیکن یہ تاحال اپنے ناقدین کو قائل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی کہ اس کی توجہ کا اصل ارتکاز دہشت گردی کے خلاف لڑنے پرہے۔ اپوزیشن کی کچھ جماعتیں تو اس اہم جنگ میں حکومت کے عزم پر سوالیہ نشان لگاتے ہوئے اس پر سیاسی مفاد کیلئے کالعدم تنظیموں سے تعلق رکھنے کا الزام عائد کرتی ہیں۔ پی ایم ایل (ن) ان الزامات کی پرزور تردیدکرتی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنا ریکارڈ پیش کرتی رہی ہے۔ اگرچہ وزیر ِ داخلہ نے ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے اسے یک طرفہ قرار دیا ہے لیکن قاضی عیسیٰ کمیشن رپورٹ کو آسانی سے مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ وزیر داخلہ کا اصرار ہے کہ وہ اسے ہر فورم پر چیلنج کریں گے۔ رپورٹ کے خالق ٹھوس کردار کے حامل ایک جج ہیں۔ 57 سالہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جو 1982 ء میں انگلینڈ اینڈ ویلز میں بیرسٹر بنے، نے پاکستان واپسی پر ستائیس سال تک بطور وکیل پریکٹس کی۔ اس دوران وہ قانونی امور پر باقاعدگی سے ایک معاصر انگریزی اخبارمیں لکھتے رہے۔ وہ ایک کتاب، ’’ماس میڈیا لاز اینڈ ریگولیشنز ان پاکستان ‘‘ کے شریک مصنف بھی تھے۔ اُنھوںنے ایک رپورٹ ’’بلوچستان: کیس اینڈ ڈیمانڈ‘‘ بھی تحریر کی۔ تاہم پانچ اگست 2009 ء میں قاضیٰ فائز عیسیٰ کو غیر معمولی طور پر بلوچستان ہائی کورٹ کا براہ ِ راست چیف جسٹس بنا دیا گیا۔ یہ وہ وقت تھا جب سپریم کورٹ آف پاکستان نے تین نومبر 2007 ء کی پرویزمشرف کی ایمرجنسی کو غیر آئینی قرار دے دیا تھااور بلوچستان ہائی کورٹ کے تمام جج صاحبان مستعفی ہوگئے تھے۔اس کے بعد جسٹس عیسیٰ کو پانچ ستمبر 2014 ء کو ترقی دے کر سپریم کورٹ کا جج مقرر کیا گیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا تعلق بلوچستان کے ایک سیاسی گھرانے سے ہے۔ وہ ایک تعلیم یافتہ اور باخبر انسان ہیں۔ اُن کے والد مرحوم، قاضی محمد عیسیٰ کا تعلق ضلع پشین سے تھا اور وہ ایک آزادی کے مجاہد، غیر ملکی تعلیم یافتہ وکیل اور مسلم لیگ کے ایک چوٹی کے رہنما تھے۔ بانی ٔ پاکستان، قائد ِاعظم محمد علی جناحؒ نے اُنہیں بلوچستان مسلم لیگ کا صدر مقررکیا۔ اُن کے دادا قاضی جلال الدین ریاست قلات کے وزیر ِاعظم رہے تھے۔ اُن کی والدہ صاحبہ، بیگم سعدیہ عیسیٰ ایک محترم سماجی کارکن تھیں جنہوںنے خواتین اوربچوں کی تعلیم کیلئے بہت خدمات سرانجام دیں۔ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا کہ قاضی فائزعیسیٰ نے اپنے کسی فیصلے سے توجہ حاصل کی ہو۔ وہ فروری 2016 ء میںتلور کے شکار کے فیصلے پر زوردار اختلافی نوٹ لکھتے ہوئے میڈیا کی ہیڈلائنز کا حصہ بن گئے تھے ۔حالیہ کمیشن رپورٹ بہت واضح اور مدّلل ہے۔ اس نے بجا طور پر نشاندہی کی کہ سول اسپتال کوئٹہ بنیادی سہولتوں کے بغیرہے۔ اس کے ملازمین اسے پیشہ ورانہ صلاحیتوںکے بغیر چلا رہے ہیں۔ رپورٹ بتاتی ہے کہ اگر اسپتال میں علاج معالجے کی مناسب سہولتیں ہوتیں اور اس کے اسٹاف ممبران غائب نہ ہوتے تو بہت سی قیمتی جانیں بچائی جاسکتی تھیں۔ اس نے بلوچستان کے محکمہ صحت پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس نے اقرباپروری کی تمام حدیں پھلانگ رکھی تھیں۔ اس رپورٹ میں محکمہ صحت کے چار سیکرٹریوں کی غیر قانونی تعیناتی کا بھی ذکر ہے، جن میں ایک ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل کے بھائی ہیں۔ یہ ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل آج کل ایک وفاقی وزیر ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کسی کو بھی نہیں چھوڑا۔ ایف سی پر الزام ہے کہ اس نے سول انتظامیہ کے ساتھ تعاون نہیں کیا۔ اس کے علاوہ اس کا کردار بھی غیر واضح ہے۔ قانو ن نافذ کرنے والے اداروں پر خودکش حملہ کے بعد ہوائی فائرنگ کاالزام ہے۔ جسٹس صاحب لکھتے ہیںکہ بلوچستان حکومت کی ساکھ کو اسکے وزیر ِاعلیٰ، ثنا اﷲ زہری اور وزیر ِ داخلہ، سرفراز بگٹی نے غیر ذمہ دارانہ بیانات دے کر نقصان پہنچایا۔ ان کی وجہ سے تحقیقات کا عمل سبوتاژ ہوگیا۔ وفاقی وزارت برائے مذہبی امور کو غیر فعال قرار دیا گیا۔ اسی طرح مدرسوں کی رجسٹریشن نہ کرانے اور ملک کی مغربی سرحدوں پر نظر نہ رکھنے کی غفلت کو بھی اجاگر کیا گیا۔ اس رپورٹ میں میڈیا پر تنقید کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ جو میڈیا آئوٹ لیٹس دہشت گردوں کے تصورات کو پیش کریں،اُن کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔
تاہم اس رپورٹ میں سب سے کڑی تنقید وفاقی حکومت اور اس کے اداروں پر کی گئی ہے۔ وزیر ِداخلہ کو کنفیوژن کا شکار بتایا گیا ہے جو نیشنل ایکشن پلان کے تحت بننے والی پالیسی نافذ کرنے میں ناکام رہے، چنانچہ اس کے مقاصد حاصل نہ ہوسکے۔ رپورٹ میں انسداد ِ دہشت گردی ایکٹ کی خلاف ورزی کا ذکرہے کیونکہ کالعدم تنظیمیں اسی طرح کام کررہی ہیں، اور اُنہیں روکنے کیلئے کوئی کارروائی دکھائی نہیں دیتی۔ چوہدری نثار علی خان پر بطور وزیر ِ داخلہ اپنے فرائض کو سات مرتبہ نظر انداز کرنے کا الزام ہے۔ اُنہوں نے اس ساڑھے تین برسوں میں نیکٹا کا صرف ایک اجلاس بلایا، اس کے فیصلوںسے روگردانی کی، کالعدم تنظیموں کے رہنمائوں سے ملاقاتیں کیں اور دہشت گردی میں ملوث تنظیموں کی سرکوبی میں ناکام رہے۔ تاہم پنجاب حکومت کی تعریف کی گئی ہے کہ اس نے جدید فورنزک لیبارٹری قائم کی ہے، جس سے خود کش حملہ آور اور دہشت گردی کا شکار ہونے والے افراد کی شناخت ممکن ہوگئی ہے۔ مجموعی طور پر اس رپورٹ کا تاثر یہ ہے کہ اسے ایک آزاد فطرت جج نے کسی دبائو کے بغیر تحریر کیا ہے۔ اُنہوں نے کسی خوف کے بغیر حکومت اور مختلف اداروں کی کوتاہیوں کو آشکار کرتے ہوئے انسداد ِ دہشت گردی کی کاوش کو فعال بنانے کیلئے سفارشات پیش کی ہیں۔




.
تازہ ترین