SMS: #AKC (space) message & send to 8001
پیر صاحب پگارو ایک عظیم محب وطن تو تھے ہی لیکن آمریت کے سیاہ ترین دور میں انہوں نے جمہوریت کی شمع کو جس طرح روشن رکھایہ ان کا حوصلہ اور اعزاز تھا۔ ضیاء آمریت کے ابتدائی سال میں سیاسی جماعتوں ، سیاسی اجتماعات پر مکمل پابندی تھی اور بڑے بڑے سیاسی سورما اپنی کچھاروں میں دبکے بیٹھے تھے، وہ صرف پیر صاحب پگارو کی شخصیت تھی کہ انہوں نے ’’اپنی سالگرہ‘‘ منانے کا ایک منفرد سیاسی طریقہ اختیار کیا اور اس بہانے سیاسی اجتماعات منعقد کئے جاتے جہاں اپنے مخصوص انداز میں پیر سائیں خطاب کیا کرتے تھے۔ سالگرہ کی یہ تقاریب سال میں دو اور کبھی تین بار بھی کراچی ،لاہور، اسلام آباد میں منعقد ہوتیں ۔ جو لوگ اس دور کا ادراک رکھتے ہیں انہیں معلوم ہے کہ یہ کتنا کٹھن کام تھا۔ پیر صاحب قبلہ کا یہ بھی ایک بڑا اہم کام ہے جب بھٹو دور میں سندھ میں صوبائی عصبیت کی آگ بھڑکانے کی ’’سازش‘‘ کی گئی۔اس وقت پیر صاحب پگارو ان کے ساتھیوںسمیت ہزاروںحُر اس سازش کے خلاف سینہ سپر ہوگئے اور نفرتوں کی اس آگ کو سرد کرنے میں اہم ترین خدمات سرانجام دیں۔ پیر سید سکندر شاہ معروف علی مردان شاہ ثانی پیر صاحب پگارو کے والد گرامی حضرت پیر سبغت اللہ شاہ راشدی وہ عظیم شخصیت تھے جنہوں نے سندھ میں انگریز کے خلاف باقاعدہ مسلح جدوجہد کی تھی اور انگریز نے انہیں اس جرم میں پھانسی دے کر شہید کردیا۔ اس وقت پیر صاحب پگارو اور ان کے چھوٹے بھائی نادر شاہ راشدی کم عمر تھے انہیں بڑے پیر صاحب کی وصیت کے مطابق تعلیم کے لئےپہلے علی گڑھ اور بعد میں لندن بھیجا گیاجہاں انہیں لندن کے قریب ایک پرائیویٹ سکول میں داخل کرایا جو خاص طور پر باغیوں کے بچوں کے لئے قائم کیا گیا تھا جہاں انگریزوں نے بڑے پیر صاحب کی شہادت کے بعد ان کی کوٹھیوں، جائیداد اور گدی پر قبضہ کرلیا اور ان کے خاندان کے ایک فرد کو گدی نشین بنانے کی سازش بھی کی لیکن حُروں نے ایسا نہیں ہونے دیا۔1965کی جنگ میں سندھ کی سرحد کی حفاظت حُر فورس کے سپرد تھی جو خاص طور پر بنائی گئی تھی۔1949میں وزیر اعظم نوابزادہ لیاقت علی خان نے دورہ برطانیہ کے موقع پر ان دونوں بھائیوں سے ملاقات کی اور ان کے خاندان کی خدمات اور قربانیوں پر خراج عقیدت پیش کیا اور گدی و جائیداد کی بحالی کا اعلان کیا لیکن 1952میں ایسا ہوا اور اس سال چار فروری کو پیر سائیں کی دستار بندی کی گئی۔پیر صاحب پگارو کو ملک خصوصاً سندھ میں سیاسی و روحانی حیثیت حاصل تھی۔ پیر صاحب پگارو نے ہر دور کی سیاست میں کلیدی کردار ادا کیا لیکن ایوب خان کے بعد مسلم لیگ کو اکٹھا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ خصوصاً قومی اتحاد کی تحریک میں انہوں نے کلیدی کردار ادا کیا۔ اس دور میں ایک بڑا واقعہ یہ ہوا کہ پی ایف اے نے انتخابی دھاندلی کے خلاف اسلام آباد تک لانگ مارچ کا اعلان کیا۔ حکومت نے اسلام آباد جانے والے تمام راستوں کی ناکہ بندی کردی۔تمام قیادت کو قید یا نظر بند کردیا گیا۔ پیر صاحب پگارو لاہور میں تھے ، صبح تیار ہو کر وہ باہر آئے، گاڑی میں ڈرائیور اور مخدوم زادہ سید حسن محمود کے سیکرٹری میجر (ر)افضل کو گاڑی میں بٹھایا ا ور گاڑی اسلام آباد کی طرف دوڑا دی اور تو ایف ایس ایف (فیڈرل سیکورٹی فورس)کے افسر و اہلکار پیر سائیں کو پہنچانتے نہیں تھے اور دوسرے ان کے تصور میں بھی نہ تھا کہ پیر صاحب پگارو اس طرح اکیلے سفر کررہے ہوں گے کہ تمام پابندیوں کو عبور کرکے پیر صاحب قبلہ راولپنڈی کے ایک فائیو اسٹار ہوٹل پہنچ گئے جہاں پولیس حکام نے انہیں نظر بندی کے احکامات فراہم کئے اور انہیں ہوٹل کے کمرے میں نظر بند کردیا گیا۔ ابھی نظر بندی کو چند گھنٹے ہی گزرے تھے کہ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو ٹیلی وژن کیمروں کے ساتھ ہوٹل میں پیر صاحب پگارو کے کمرے میں پہنچ گئے اور کہا کہ میں آپ سے ملاقات کرنے آیا ہوں۔ پیر صاحب مسکرائے اور کہا کہ نظر بند کرکے ملاقات کرنے کا طریقہ خوب ہے۔ میجر افضل کے مطابق بھٹو صاحب کے کہنے پر پیر صاحب پگارو نے نہ صرف انہیں سگار پیش کیا بلکہ اسے لائٹر سے جلایا بھی۔ چند منٹ ا دھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد وزیر اعظم رخصت ہوگئے اور پولیس حکام کی جانب سے اطلاع دی گئی کہ ’’آپ نظر بند نہیں ہیں‘‘۔ آخر میں ایک اور واقعہ سن لیجئے کہ جب جنرل پرویز مشرف برسراقتدار آئے تو ایک دن کراچی میں ایک فوجی ایجنسی کے ایک اعلیٰ افسر پیر صاحب کے پاس آئے اور کہا کہ جنرل مشرف ان سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔ پیر صاحب نے کہا کہ چند دن میں وہ لاہور جارہے ہیں وہاں جاکر اسلام آباد جانے کا پروگرام بنائیں گے۔ کہتےہیں اور سچ بھی ہے کہ آئی ایس آئی کے اس وقت کے سربراہ نے پیر صاحب پگارو کو جنرل پرویز مشرف سے ملاقات کے لئے کہاکہ ’’جنرل صاحب آپ سے جو کچھ کہیں اسے مان جائیے گا‘‘۔ پیر صاحب کا جواب تھا کہ’’آپ کا حکم سر آنکھوں پر‘‘ ۔ لاہور آکر اگلے روز انہوں نے ایک پریس کانفرنس کی اگرچہ عام طور پر وہ باقاعدہ پریس کانفرنس نہیں کیا کرتے تھے، پریس کانفرنس میں انہوں نے کہا کہ وہ اسلام آباد جارہے ہیں جہاں جنرل پرویز مشرف سے ان کی دعوت پر ملاقات کریں گے’’میں نے سنا ہے کہ وہ دہلی والے ہیں اور دہلی والے تو ٹھگ ہوتے ہیں‘‘۔ اتنا ہی کافی تھا کہ اگلے روز ملاقات منسوخ کردی گئی، اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے بہت سی خوبیوں کے مالک تھے۔