(گزشتہ سے پیوستہ)
صنعت کاری
پاکستان میںصنعتی ترقی کادارومدار ابھی سیاسی، معاشی اور سماجی ماحول پر ہے، جو عالمی گلوبلائزیشن پالیسی کی زد میں رہتا ہے ۔ یہ موضوع زدِ عام رہتا ہے۔ پروفیسرسین، جنھیں غربت ختم کرنے کے مضامین پر نوبل پرائز ملا کا کہنا ہے کہ جب تک بڑے ممالک کی گلوبلائزیشن پالیسی انفرادی طور پر مختلف ممالک کی سیاسی تر جیحات سے مربوط نہیں ہوتی، یہ پالیسی دنیا میں بکھیڑے کی فضا کو جنم دے گی۔پاکستان کو بھی ڈبلیو ٹی او جیسے اداروں کو اس زاویے سے دیکھنا چاہئے۔اگر ہماری قوم ترجیحات گلوبلائزیشن سے متصادم ہوںگی تو ملک میں ذرہ بھر بھی سرمایہ کاری نہیں ہوگی اور ہماری بنیادی صنعتیں مثلاً ٹیکسٹائل ، شوگر ، سیمنٹ اور دیگر صنعتیں مثلاً اسٹیل، کیمیکل ، فارما سوٹیکل اور انجینئرنگ وغیرہ برُی طرح متاثر ہو گی۔ لہٰذا ضرورت ہے کہ اگر مزید معاہدے کرنا ہی ہیں تو پرائیویٹ سیکٹر کے ساتھ مشاورت کے ساتھ ہی جائیں۔بصورتِ دیگر ملک درآمدات کی آماجگاہ بنتا جائے گا جیسا کہ پہلے تھا۔
غیر ملکی سرمایہ کاری کو بھی مقامی سرمایہ کاری سے مطابقت رکھنا چاہئے۔ادھرمقامی سرمایہ کاری کے لئے تو حسبِ حال حوصلہ مندی نہیں ہے جبکہ غیر ملکی سرمایہ کاری کیلئے کوئی قیدوبند نہیں ۔ ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ مقامی سرمایہ کار کو زیادہ سے زیادہ مراعات دی جائیں تاکہ ان کی پیداوار لاگت کم ہواور وہ برآمد کرنے کی صورت میں بھی دوسرے ممالک سے مقابلہ کرسکیں۔ مثلاًہمارے ہاں کئی قسم کے ٹیکس نافذ ہیں۔ اندازاََ حکومت کے محصول کا 70 فیصد براہِ راست ٹیکسوں سے حاصل کیا جاتا ہے۔ Presumptiveیعنی بالواسطہ ٹیکس کی مثال لیں۔آمدنی خواہ قابلِ ٹیکس ہویا نہ ہو، یہ ٹیکس ایک مقررہ شرح سے وضع کر لیا جاتا ہے ۔ جس سے غیر ضروری طور پر رقم غیر تر قیاتی مد میں پھنس جاتی ہے اورِ اس کا اثر پیداواری لاگت پر پڑتا ہے۔ اگر یہ ٹیکس زیادہ کٹ جاتا ہے تو خزانے سے اسے واپس لینا بھی جوئے شیرلانے کے مترادف ہے۔ شرح سود بھی دوسرے ممالک کے مقابلے میں زیادہ ہے یعنی 10 فیصد سے15فیصد تک۔ Sales Taxیعنی بِکری ٹیکس 15فیصدہے جبکہ دوسرے ممالک میں اس کی شرح 5فیصدسے7 فیصدتک ہوتی ہے۔علاوہ ازیں ہماری پیداواری لاگت میں ان عوامل کے علاوہ خام مال اور دیگر اجزا میں ڈیویلیویشن کی وجہ سے مسلسل اضافہ ہوتا ہے۔ ڈیویلیویشن کے اسباب میں افراطِ زر، تجارت میں عدم توازن اور Deficit Financing یعنی خسارے کی سرمایہ کاری کے علاوہ قرضہ فراہم کرنے والی ایجنسیوں اور ممالک کی شرائط شامل ہیں۔
ویلیویشن
جیسا کہ پہلے کہا گیا ہے کہ پاکستان میں کئی قسم کے ٹیکس نافذہیں جو دنیا میں کہیں اور نہیں ۔ ٹیکسوں اور ڈیوٹی کی شرح میں تبدیلی کی ضرورت ہے تاکہ مقامی پیداوار کی لاگت کم ہو۔ یہاں اس کے برعکس ہے۔ مثال کے طور پر انجینئرنگ اوربالخصوص آٹو موبائل انڈسٹری میںاستعمال ہونے والے خام مال اور پرُزہ جات کی ڈیوٹی کی شرح ، اور فاضل پرُ زہ جات کی شرح ۔ ایسی صورت میں کثیر سرمایہ کاری کرکے ملک میں پرُزہ جات بنانے کا کیا فائدہ ! ایک طرف توانڈسٹری کی پیداوار ی صلاحیت پورا استعمال نہیں ہوتی جس کی وجہ سے پیداواری لاگت بڑھ جاتی ہے اور دوسری طرف اسمگلنگ ، انڈرانوائسنگ اور در آمدات کھلے عام ہیں ۔ افغان ٹرانز ٹ کے ذریعے بے تحاشا اسمگلنگ ہوتی ہے۔ تقریباً پوری دنیا سے بالعموم اور ہندوستان ،کوریااور جاپان سے بالخصوص اسمگلنگ ہوتی ہے۔نتیجتاً حکومت کے خزانے میں اربوُں روپیہ سالانہ کا نقصان ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ملکی پیداوار Capacity یعنی گنجائش بھی بھر پور طریقے سے استعمال نہیں ہوتی جس میں بھاری سرمایہ لگا ہوتا ہے۔ اسمگلنگ کو ہر صورت میں ختم کرنا چاہئے ۔ علاوہ ازیں استعمال شدہ پرُ زہ جات کی آمدبھی بند ہونا چاہئے جس کی حکومت نے اجازت دی ہوتی ہے۔ صنعتی یونٹ جو بتدریج مینوفیکچرنگ کے مرحلے میں ہیں اُن کواُن اداروں کی تقلید کرنا چاہئے جو ایک عرصہ سے مشکل حالات کے باوجود کام کر رہے ہیں اور کافی مشکلات جھیل چکے ہیں ۔ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ بیمار صنعتوں کو بحال کرنے کی بجائے جو عمل ضیاع ہو چکا ہے، ایسی صنعتوں کی مد د کی جائے جو برسرِپیکار ہیں اور مطلوبہ مراعات سے نہ صرف اپنی پیداواری گنجائش کا بھرپور استعمال کر سکتی ہیں بلکہ برآمدات میں دوسرے ممالک کا مقابلہ کر سکتی ہیں۔
ویلیواڈیشن
حکومت قومیائے جانے والے اداروں کی پرائیوٹائزیشن بھی کر ارہی ہے ۔اصولاً یہ ادارے مقامی لوگوں کو ہی دئیے جائیں جن سے یہ ادارے لئے گئے تھے ۔ ایسے لوگوں سے اجتناب کرنا چاہئے جوبیرونی سرمایہ کار ہیں لیکن حالات میں ذراسی تبدیلی سے ان کے پائوں اُکھڑ جاتے ہیں اور راتوں رات اپنا سرمایہ ملک سے باہر منتقل کر دیتے ہیں۔ یہی حال بیرونی بنکوں کا ہے۔یہ ادارے یہاں ملکی معاشی ترقی کے لئے نہیں بلکہ صرف نفع کمانے کے لئے آتے ہیں۔ اس سے سیاسی اور اقتصادی آزادی بھی متاثر ہوتی ہے۔ بہتر ہوگا کہ ان اداروں کی پرائیوٹائزیشن اسٹاک ایکسچینجوں کے ذریعے ہو جس سے سرمایہ کاری کے لئے فضا سازگار ہوگی اور پیداوار اوربر آمدات میں اضافہ بھی۔ خیال یہ بھی رہے کہ پرائیوٹائزیشن ملکی معیشت کی بحالی کے لئے ہونی ہے نہ کہ کسی اور حصول کے لئے !
درآمدات میں اضافہ ہو رہاہے اور اُس کے بر عکس برآمدات میں کمی ۔ہمیں افراط ِ زر ، تجارت میں عدم توازن خسارے کی سرمایہ کاری جیسے مسائل درپیش ہیں۔ ان سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ HI-TECH ہائی ٹیک ویلیواڈیشن کی صنعتوں میں سرمایہ کاری کو فروغ دیں۔ یہ عمل صرف50 اور 70 کی دہائی میں ہوا تھا اس کے بعد نہیں ۔ اس ردِ عمل کوپھر سے وضع کرنا چاہئے۔ کیونکہ اس قسم کی صنعتوں سے خسارے کی سرمایہ کاری ، عدم توازن اور مہنگائی ختم ہوتی ہے ۔ اور بیرونی انحصار کم ۔ ایٹمی دھماکے کے بعد اگر ہندوستان ٹھیک رہا اور پاکستان پر دباؤ پڑا تو اس کی وجہ یہی اقدام تھے ہندستان کی برآمدات ہائی ٹیک ویلیواڈیشن ہیں تو پاکستان کی سادہ و سلیں جن میں مسابقت زیادہ زرِ مبادلہ کم ملتا ہے۔
نیویارک ٹائمزمیں ایک رپورٹ شائع ہوتی ہے کہـ " پاکستان کی سب سے زیادہ ایکسپورٹ وہاں کی افرادی قوت ہے "افرادی قوت ایک ایسا سرمایہ ہے جس کو تیار کرنے میں عرصہ دراز درکار ہوتا ہے۔ افرادی قوت اتنی اہم ہے کہ مالی سرمایہ بھی اس کی بغیر خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں کر سکتا ۔ہماری ہا ں سے تعلیم یافتہ ، ذہین ، باصلاحیت ڈاکٹر ، انجینئر ، سائنسدان اور افراد کا انخلا ہوتا ہے۔ اگر پاکستان میں سرمایہ کاری ہو اور ملازمت کے مواقع ہوں یعنی صنعت کاری بھرپور، اور دیگر لوازماتِ متعلقہ تویہاں سے افرادی انخلا کیوں ہو!
اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے!
.